Tafseer-e-Jalalain - Al-Ankaboot : 60
اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓئِكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ شَیْئًاۙ
اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس تَابَ : توبہ کی وَاٰمَنَ : وہ ایمان لایا وَعَمِلَ : اور عمل کیے صَالِحًا : نیک فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ يَدْخُلُوْنَ : وہ داخل ہوں گے الْجَنَّةَ : جنت وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور ان کا نہ نقصان کیا جائیگا شَيْئًا : کچھ۔ ذرا
ہاں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور عمل نیک کئے تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان کا ذرا نقصان نہ کیا جائے گا
آیت نمبر 60 تا 65 ترجمہ : عنقریب خرابی دیکھیں گے ہاں مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کرنے لگا سو یہ لوگ جنت میں جائیں گے اور ان کا ذرا نقصان نہ کیا جائے گا یعنی ان کے اجرو ثواب میں (ذرہ برابر) کمی نہ کی جائے گی جَنَّتُ عدْنٍ ہمیشہ قیام کی جنت جنّٰتُ عَدْنٍ ، الجنۃ سے بدل ہے وہ جنت کہ جس کا رحمٰن نے اپنے بندوں سے وعدہ کر رکھا ہے بالغیب حال ہے یعنی حال یہ ہے کہ ان بندوں نے اس جنت کو دیکھا نہیں ہے اور اس کے موعود (وعدہ کی ہوئی چیز) کو یہ لوگ ضرور جنت میں پہنچیں گے ماتِیًّا بمعنی آتیاً ہے اس کی اصل مَاتویٌ تھی یا اس کا موعود یہا، جنت ہے یعنی جنت کے مستحق اس میں داخل ہوں گے اور وہ لوگ جنت میں کوئی فضول بات نہ سنیں گے البتہ اپنے اوپر فرشتوں کا یا آپس میں ایک دوسرے کا سلام سنیں گے ان کو جنت میں صبح وشام کھانا ملا کرے گا یعنی دنیا میں عادت کے مطابق اور جنت میں لیل ونہار نہیں ہوں گے بلکہ ہمیشہ روشنی اور نور ہوگا یہ ایسی جنت ہے کہ ہم اپنے بندوں میں سے اس کا ایسے شخص کو مالک بنائیں گے یعنی عطا کریں گے اور (اس میں) نازل کریں گے کہ جو متقی ہوگا اس کی طاعت کے ذریعہ اور جب وحی چند دن متاخر ہوگئی اور آنحضرت ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا کہ کیا چیز مانع ہے اس بات سے کہ اس سے زیادہ ہماری ملاقات کرو جتنی تم کرتے ہو (فرمایا) ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر نہیں اتر سکتے ہمارے آگے امور آخرت اور پیچھے امور دنیا اور اس کے درمیان یعنی وہ امور جو اس وقت سے قیامت تک ہوں گے اسی کی ملک ہیں یعنی ان تمام امور کا اسی کو علم ہے اور تیرا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے نَسِیًّا بمعنی ناسیًا یعنی تاخیر وحی کی وجہ سے آپ کو چھوڑنے والا نہیں ہے وہ رب مالک ہے آسمانوں اور زمینوں کا اور جو ان کے درمیان میں ہے لہٰذا آپ اسی کی بندگی کریں اور اسی کی عبادت پر جمے رہیں کیا آپ کے علم میں اس کا کوئی ہم نام ہے۔ (ہمسر) البلاغۃ : (1) الطباق (لہ مَا بَینَ اَیْدِیْنَا وَمَا خَلْفَنَا وبَیْنَ بُکْرَۃً ۔۔۔۔۔ وعَشِیًّا) (2) السجع الحسن الرصیص (عَلِیًّا حَفِیًّ ونبِیًّا ) تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد قولہ لکِنّ اِلاَّ کی تفسیر لکِنَّ سے کر کے اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ منقطع ہے اس کہ مستثنیٰ ، مستثنیٰ منہ کی جنس سے نہیں ہے اس لئے کہ مستثنیٰ منہ کافرین ہیں اور مستثنیٰ مومنین ہیں کَانَ وَعَدُہٗ ای مَوعُوْدہ اور وہ موعود جنت ہے ای یَاتِیْہِ ویَدْخُلُہٗ مَنْ وُعِدَ لَہٗ بِھَا لا مَحَالَۃَ اس صورت میں مأتِیًا اتیان سے اسم مفعول ہوگا یا مَاتِیًّا بمعنی اسم فاعل ہے ای آتِیًّا البتہ وَعْدٌ اسم مصدر بھی ہے بمعنی وعدہ اور مصدر بھی ہے یعنی وعدہ کرنا مفسر علام نے اَوْ مَوْعُوْدُہٗ کا اضافہ کر کے دوسری تفسیر کی طرف اشارہ کیا ہے موعودہٗ سے مَا وُعِدَ بہٖ یعنی جنت مراد ہوگی اس صورت میں ماتِیًّا اپنی حالت پر رہے گا اور وَعْدٌ اپنے مصدری معنی میں ہو تو ماتیاً بمعنی آتیا ہوگا، پہلی صورت میں ترجمہ یہ ہوگا جنت کے مستحقین جن سے رحمٰن نے وعدہ کیا ہے وہ جنت میں البتہ داخل ہوں گے اور دوسری صورت میں یہ ترجمہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے جو وعدہ کیا ہے وہ ضرور آکر رہے گا۔ تفسیر وتشریح سابق میں ان لوگوں کا ذکر تھا جن کا خاتمہ کفر پو ہوا، اب اِلاَّ مَنْ تابَ سے ان خوش نصیب حضرات کا ذکر ہے کہ جنہوں نے کفر وشرک سے توبہ کی اور اعمال صالحہ کئے، ایسے لوگ وعدہ خداوندی کی وجہ سے جنت عدن میں داخل ہوں گے جو کہ اعلیٰ قسم کی جنت ہے، اس میں بیہودہ اور باطل کلام نہ سنیں گے اور نہ ان کے کانوں میں کوئی ایسا کلمہ پڑے گا جو ان کی اذیت کا باعث ہو، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل جنت سے بیہودہ کلام کا صدور نہ ہوگا بلکہ وہاں ایسا کلام سنیں گے کہ جو بھلائی اور خوشی میں اضافہ کرے گا، اصطلاحی سلام بھی اس میں داخل ہے کہ آپس میں اہل جنت اور اللہ کے فرشتے ان کو سلام کریں گے۔ وَلَھُمْ رزقُھُمْ فِیْھَا بُکْرَۃً وعَشِیًّا جنت میں یہ نظام شمسی اور طلوع و غروب یا لیل ونہار تو نہ ہوگا البتہ ایک قسم کی روشنی ہمہ وقت رہے گی مگر رات ودن اور صبح وشام کا پتہ کسی خاص انداز سے ہوگا مثلاً پردوں کے بند ہونے سے رات کا اندازہ ہوگا اور پردوں کے کھلنے سے دن کا اندازہ ہوگا اب رہا رزق کا صبح وشام ملنا تو یہ دنیوی زندگی کے عرف اور عادت کے طور پر ہوگا، ورنہ تو یہ بات ظاہر ہے کہ اہل جنت کو جس وقت جس چیز کی خواہش ہوگی وہ چیز اسی وقت بلاتا خیر مہیا ہوجائے گی، باری تعالیٰ کا فرمان ہے (وَلَھُمْ مَا یَشْتَھُوْنَ ) بعض مفسرین نے کہا ہے کہ صبح وشام سے مراد عموم ہے جیسے رات دن بول کر ہمہ وقت مراد ہوتا ہے اور مشرق ومغرب بول کر پوری دنیا مراد ہوتی ہے۔ وَمَا نَتَنَز َّلُ اِلاَّ بِاَمْرِ رَبِّکَ شان نزول : صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے یہ آرزو ظاہر فرمائی کہ آپ ذرا زیادہ آیا کریں اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر نہیں اتر سکتے ہمارے آگے پیچھے اور انکے درمیان کی کل چیزیں اسی کی ملک ہیں اور تیرا رب تجھ کو وحی میں تاخیر کر کے چھوڑنے والا نہیں ہے، سب کا رب وہی ہے تو اسی کی بندگی کر اور اس پر جما رہے اور عبادت کے سلسلہ میں اگر کوئی تکلیف پڑے تو اس کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کر، کیا تیرے علم میں اسکا ہم صفت اور ہم پلہ کوئی ہے ؟ اگر نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو پھر عبادت کے لائق بھی اسکے سوا کوئی نہیں ہے
Top