Tafseer Ibn-e-Kaseer - Aal-i-Imraan : 23
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُدْعَوْنَ اِلٰى كِتٰبِ اللّٰهِ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ وَ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يُدْعَوْنَ : بلائیے جاتے ہیں اِلٰى : طرف كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب لِيَحْكُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کرے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر يَتَوَلّٰى : پھرجاتا ہے فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْھُمْ : ان سے وَھُمْ : اور وہ مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیرنے والے
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب (خدا یعنی تورات سے) بہرہ دیا گیا اور وہ (اس) کتاب الله کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ (ان کے تنازعات کا) ان میں فیصلہ کر دے تو ایک فریق ان میں سے کج ادائی کے ساتھ منہ پھیر لیتا ہے
جھوٹے دعوے یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ یہود و نصاریٰ اپنے اس دعوے میں بھی جھوٹے ہیں کہ ان کا توراۃ و انجیل پر ایمان ہے کیونکہ ان کتابوں کی ہدایت کے مطابق جب انہیں اس نبی آخرالزمان کی اطاعت کی طرف بلایا جاتا ہے تو یہ منہ پھیر کے بھاگتے دکھائی دیتے ہیں، اس سے ان کی اعلیٰ درجہ کی سرکشی تکبر اور عناد و مخالفت ظاہر ہو رہی ہے، اس مخالفت حق اور بےجا سرکشی پر انہیں اس چیز نے دلیر کردیا ہے کہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں نہ ہونے کے باوجود اپنی طرف سے جھوٹ بنا کر کے یہ بات بنا لی ہے کہ ہم تو صرف چند روز ہی آگ میں رہیں گے یعنی فقط سات روز، دنیا کے حساب کے ہر ہزار سال کے پیچھے ایک دن، اس کی پوری تفسیر سورة بقرہ میں گذر چکی ہے، اسی واہی اور بےسروپا خیال نے انہیں باطل دین پر انہیں جما دیا ہے بلکہ یہ خود اللہ نے ایسی بات نہیں کہی ان کا خیال ہے نہ اس کی کوئی کتابی دلیل ان کے پاس ہے، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں ڈانٹتا اور دھمکاتا ہے اور فرماتا ہے ان کا قیامت والے دن بدتر حال ہوگا ؟ کہ انہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا رسولوں کو جھٹلایا انبیاء کو اور علماء حق کو قتل کیا، ایک ایک بات کا اللہ کو جواب دینا پڑے گا اور ایک ایک گناہ کی سزا بھگتنی پڑے گی، اس دن کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں اس دن ہر شخص پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر بھی کسی طرح کا ظلم روانہ رکھا جائے گا۔
Top