Tafseer-e-Madani - Hud : 19
فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ تَوْصِیَةً وَّ لَاۤ اِلٰۤى اَهْلِهِمْ یَرْجِعُوْنَ۠   ۧ
فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : پھر نہ کرسکیں گے تَوْصِيَةً : وصیت کرنا وَّلَآ : اور نہ اِلٰٓى : طرف اَهْلِهِمْ : اپنے گھر والے يَرْجِعُوْنَ : وہ لوٹ سکیں گے
اور اُس وقت یہ وصیّت  تک نہ کر سکیں گے، نہ اپنے گھروں کو پلٹ سکیں گے۔  46
سورة یٰسٓ 46 یعنی ایسا نہیں ہوگا کہ قیامت آہستہ آہستہ آ رہی ہے اور لوگ دیکھ رہے ہیں کہ وہ آ رہی ہے۔ بلکہ وہ اس طرح آئے گی کہ لوگ پورے اطمینان کے ساتھ اپنی دنیا کے کاروبار چلا رہے ہیں اور ان کے حاشیہ خیال میں بھی یہ تصور موجود نہیں ہے کہ دنیا کے خاتمہ کی گھڑی آپہنچی ہے۔ اس حالت میں اچانک ایک زور کا کڑاکا ہوگا اور جو جہاں تھا وہیں دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت ابوہریرہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ راستوں پر چل رہے ہوں گے، بازاروں میں خریدو فروخت کر رہے ہوں گے، اپنی مجلسوں میں بیٹھے گفتگوئیں کر رہے ہوں گے۔ ایسے میں یکایک صور پھونکا جائے گا۔ کوئی کپڑا خرید رہا تھا تو ہاتھ سے کپڑا رکھنے کی نوبت نہ آئے گی کہ ختم ہوجائے گا۔ کوئی اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لیے حوض بھرے گا اور ابھی پلانے نہ پائے گا کہ قیامت برپا ہوجائے گی۔ کوئی کھانا کھانے بیٹھے گا اور لقمہ اٹھا کر منہ تک لے جانے کی بھی اسے مہلت نہ ملے گی۔
Top