Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 62
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ لِیُرْضُوْكُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ
يَحْلِفُوْنَ : وہ قسمیں کھاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کی لَكُمْ : تمہارے لیے لِيُرْضُوْكُمْ : تاکہ تمہیں خوش کریں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَحَقُّ : زیادہ حق اَنْ : کہ يُّرْضُوْهُ : وہ ان کو خوش کریں اِنْ : اگر كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے ہیں
(مومنو ! ) یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں۔ حالانکہ اگر یہ (دل سے) مومن ہوتے تو خدا اور اسکے پیغمبر ﷺ خوش کرنے کے زیادہ مستحق ہیں۔
62۔ 63۔ اس آیت میں اللہ پاک نے منافقوں کے پوشیدہ راز کو کھول دیا کہ یہ لوگ خلوتوں میں آنحضرت ﷺ اور مومنوں پر طعن کی باتیں کرتے ہیں اور جب وہ خبر حضرت کو پہنچ جاتی ہے تو حاضر ہو کر خدا کی قسمیں کھا کر کہنے لگتے ہیں کہ یہ بات ہم نے نہیں کہی ہے اور اس جھوٹی قسم سے ان کا منشا یہ ہوتا ہے کہ حضرت اور مومنین ان سے راضی رہیں اس لئے فرمایا کہ اگر یہ لوگ خدا سے ڈر کر اور ایمان لاکر باتیں کرتے اور نفاق چھوڑ دیتے تو بیشک خدا اور اس کا رسول ان سے راضی ہوتا کیا انہیں یہ نہیں معلوم ہے کہ جو خدا اور رسول کی مخالفت کرتا ہے اس کا ٹھکانا ہمیشہ ہمیشہ کو دوزخ میں ہے جو رسوائی کی بات ہے تفسیر سدی اور تفسیر ابن ابی حاتم میں جو قتادہ کا قول ہے اس میں قتادہ اس آیت کی شان نزول میں یہ کہتے ہیں کہ ایک منافق نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ محمد ﷺ کے ساتھ لوگ یوں تو صاحب عقل اور بہت شریف ہیں لیکن محمد ﷺ جو کہتے ہیں اگر یہ اس کو سچ جانتے ہیں تو یہ لوگ گدھے سے بھی بدتر ہیں بعض روایتوں میں یوں ہے کہ اس منافق جلاس بن سویدنے یہ کہا تھا کہ محمد ﷺ جو کہتے ہیں اگر وہ سچ ہے تو ہم لوگ کیا گدھے ہیں جو ہماری سمجھ میں وہ حق بات نہیں آتی عامر بن قیس نے یہ بات سنی اور کہا کہ واللہ محمد ﷺ جو کچھ کہتے ہیں حق کہتے ہیں اور تو گذھے سے بھی بدتر ہے یہ خبر حضرت ﷺ کو پہنچ گئی آپ نے اس منافق کو بلا کر پوچھا تو نے یہ بات کس لئے کہی تھی وہ قسمیں کھانے لگا کہ میں نے ہر گزیہ بات نہیں کہی ہے مسلمان نے کہا یا اللہ تو سچے کو سچا اور جھوٹے کو جھوٹا کر دے اس پر یہ آیت اتری عربی زبان کا یہ محاورہ ہے کہ ایک بات کو سن کر کوئی شخص بھول جاوے تو ایسے موقع پر الم یعلم کہہ کر اس کو وہ بات یاد دلائی جاتی ہے اس آیت سے پہلے بہت سی آیتیں منافقوں کے عذاب عقبیٰ کے باب میں نازل ہوچکی تھیں اس لئے الم یعلموا فرما کر نہیں وہ عذاب کی آیتیں یاد دلائیں صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی یہ حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اپنی دغا بازی کی عادت کے موافق قیامت کے دن جب منافق لوگ اپنے عملوں سے انکار کریں گے تو ان کے ہاتھ پیر ان کے عملوں کی گواہی دے کر انہیں رسوا کریں گے آیت میں منافقوں کی رسوائی کا جو ذکر ہے اس حدیث کو اس کی تفسیر میں بڑا دخل ہے
Top