Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 62
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ لِیُرْضُوْكُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ
يَحْلِفُوْنَ : وہ قسمیں کھاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کی لَكُمْ : تمہارے لیے لِيُرْضُوْكُمْ : تاکہ تمہیں خوش کریں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَحَقُّ : زیادہ حق اَنْ : کہ يُّرْضُوْهُ : وہ ان کو خوش کریں اِنْ : اگر كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے ہیں
وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کرلیں حالانکہ اگر یہ واقعی مومن ہوتے تو سمجھتے کہ اللہ اور اس کا رسول اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اسے راضی رکھیں
منافقین کے بارے میں سچے مومنوں کے لئے ایک خاص ہدایتت : 86: اپنے آپ کو زیادہ سمجھدار سمجھنے والے کتنے نادان ہیں کہ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور اپنی معصومیت اور صاف گوئی کو ثابت کرنے کے لئے آسمان و زمین کے کس طرح قلابے ملاتے ہیں لیکن کیا ایسی باتوں سے اللہ اور اس کا رسول خوش ہوجائے گا ؟ کسے ممکن ہے ” یُّرْضُوْهُ “ اس لئے کہ اللہ کی ناراضی رسول اللہ ﷺ کی ناراضی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو خوش کرنے یا ان کے خوش ہونے سے کیا ہوتا ہے جبکہ اللہ اور اس کا رسول ناراض ہو لہٰذا اگر یہ لوگ سمجھدار ہوتے تو اس بات کی فکر کرتے کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ راضی ہو۔ فرمایا غور کرو کہ ایمان کے لئے شرط کیا ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی کی خوشنودی ہے دوسرے لوگوں سے ناراضگی بھی اچھی چیز نہیں لیکن تاہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سوا کسی کی ناراضگی ایمان کی منافی نہیں۔ اس میں مومنوں کے لئے بھی ایک ہدایت ہے کہ وہ جو کچھ کریں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لئے کریں کیونکہ دراصل اسی چیز کا نام اسلام و ایمان ہے۔ لیکن ذرا غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ کتنے کام ہیں جو آج ہم محض لوگوں کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں برادری اور خاندان کے لئے کرتے ہیں اپنی مذہبی گروہ بندی اور سیاست کی خاطر کرتے ہیں حالانکہ ان میں اللہ اس کے رسول ﷺ کی کبھی رضا نہیں ہوتی۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت ایسا کرنے والوں کو منافق کہا جاتا تھا ، کیوں ؟ اس لئے کہ ان کو قرآن کریم نے منافق کہا ہے لیکن ہمیں اس بات کا کوئی خطرہ نہیں کہ قرآن کریم ہم کو منافق کہے گا۔ حالانکہ فی نفسہ یہ بات صحیح نہیں بلکہ قرآن کریم نے اس وقت کے منافقین کا بھی نام لے کر ان کو منافق نہیں کہا بلکہ ان کی حرکات و سکنات اور ان کے اعمال و افعال ہی کے باعث ان کو منافق کہا اور اگر آج ہمارے اعمال و افعال ، حرکات و سکنات وہی ہوں گی جو اس وقت کے منافقین کی تھیں۔ تو ہم بھی اس کی زد سے بچ نہیں سکتے۔ اگر ہم اس زعم میں مبتلا ہیں تو یہ ایک بھول پر مزید بھول ہے اللہ بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
Top