بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - At-Takaathur : 1
اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ
اَلْهٰىكُمُ : تمہیں غفلت میں رکھا التَّكَاثُرُ : کثرت کی خواہش
(لوگو ! ) تم کو (مال کی) بہت سی طلب نے غافل کردیا
ترجمہ، شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، مال و اولاد اور افراد رجال کی کثرت پر فخر مباہات نے تم کو اللہ کی طاعت سے غافل کردیا یہاں تک کہ تم لب گور پہنچ گئے بائیں طور کہ تم مرگئے اور قبروں میں تم دفن کردیئے گئے یا کثرت ثابت کرنے کے لئے مردوں کو بھی تم نے شمار کرلیا، ہرگز نہیں، یہ حرف ردع ہے عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا، پھر ہرگز نہیں تم کو اپنے تفاخر کا انجام بدنزع کے وقت پھر قبر میں عنقریب معلوم ہوجائے گا، یہ امر واقعہ ہے اگر تم تفاخر کے انجام کو علم یقینی کے طور پر جان لیتے تو تم اس میں مشغول نہ ہوتے، تو تم بیشک جہنم کو دیکھ کر رہو گے یہ قسم محذوف کا جواب ہے (تلرون) سے لام (جو کہ یاء ہے) اور عین کلمہ (جو کہ ہمزہ ہے) حذف کردیا گیا اور ہمزہ کی حرکت راء کو دے دی گئی اور پھر تم اسے یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے (عین) لترون کا مصدر (بغیر لفظہ) ہے اس لئے کہ رای اور عاین ایک ہی معنی میں ہے۔ (عین رویۃ کے منی میں ہے) پھر اس کو دیکھنے کے دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا وہ نعمتیں کہ جن سے تم دنیا میں لذت اندوز ہوتے ہو جو کہ صحت، فارغ البالی، امن اور ماکولات و مشروبات وغیرہ ہیں، (لتسئلن) سے نون رفع (تین) نونوں کے مسلسل آنے کی وجہ سے حذف کر دا گیا اور ضمیر جمع کا وائو التقاء ساکنین کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : الھکم الھاء سے ماضی واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے، تم کو غافل کردیا۔ قولہ : تکاثر (تفاعل) کا مصدر ہے، مال و اولاد، نیز عزت و جاہ کی کثرت میں ایک دوسرے پر فخر کرنا۔ قولہ : او عدد تم یہ زرتم الماقبر کی دوسری تفسیر ہے۔ قولہ : عاقبۃ التفاخر اس عبارت کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ تعلمون کا مفعول محذوف ہے اور وہ عاقبۃ التفاخر ہے۔ قولہ : ما اشغلتم بہ یہ لو کا جواب ہے۔ قولہ : جواب قسم محذوف یعنی لترون الجحیم یہ قسم محذوف کا جواب ہے، ای واللہ لترون الجحیم سوال : لترون کو لو کا جواب قرار دینے میں کیا قباحت ہے کہ اس کا جواب محذوف مانا ؟ جواب : لو کا جواب غیر یقینی الوقوع ہوتا ہے اور یہ یقینی الوقع ہے، لہٰذا یہ لو کا جواب نہیں ہوسکتا۔ قولہ : حذف منہ لام الفعل و عینہ والقی حرکتھا علی الراء، لترون اصل میں لترایون بروزن لتفعلون تھا، لام کلمہ جو کہ یاء ہے اور عین کلمہ جو کہ ہمزہ ہے حذف کردیئے گئے، یاء التقاء ساکنین کی وجہ سے حذف ہوگئی، اس لئے کہ یاء محترک ماقبل اس کے ہمزہ مفتوح یاء الف سے بدل گئی، وائو اور یاء کے ساکن ہونے کی وجہ سے یاء حذف ہوگئی، پھر ہمزہ (جو کہ عین کلمہ ہے) کی حرکت راء ( جو کہ فاکلمہ ہے) کو دیدی اور ہمزہ حذف ہوگیا، پھر اس پر نون تاکید مشدد داخل کردیا اور نون رفع تین نونوں کے جمع ہونے کی وجہ سے حذف ہوگیا اور وائو کو اس کی مناسبت سے ضمہ دے دیا سوال :۔ وائو کو التقاء ساکنین کی وجہ سے حذف کیوں نہیں کیا ؟ جواب : اس لئے کہ اگر وائو ضمیر کو حذف کردیتے تو فعل ہی مختل (نیست) ہوجاتا، اس لئے کہ عین کلمہ اور لام کلمہ تو پہلے ہی حذف کئے جا چکے ہیں اب اگر وائو کو بھی حذف کردیا جاتا تو باقی کیا رہ جاتا ؟ اس لئے وائو کو حذف نہیں کیا گیا۔ قولہ : ثم لتسلن نعمتوں کے بارے میں یہ سوال عام ہے، مومن اور کافر دونوں سے سوال ہوگا، کافر سے توبیخ کے طور پر اور مومن سے تشریف اور اظہار فضیلت کے طور پر۔ قولہ : حذف منہ الخ تسئلن کی اصل تسئلون تھی، نون اعرابی تین نونوں کے جمع ہونے کی وجہ سے حذف ہوگیا، پھر التقاء ساکنین کی وجہ سے وائو حذف ہوگیا اور وائو کی جگہ بطور دلالت ضمہ رہ گیا۔ تفسیر و تشریح سورة تکاثر کی فضیلت : رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی شخص ایک ہزار آیتیں روزانہ نہیں پڑھ سکتا ؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ روزانہ ایک ہزار آیتیں کون پڑھ سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں کوئی الھاکم التکاثر نہیں پڑھ سکتا ؟ مطلب یہ کہ الھاکم التکاثر روزانہ پڑھنا ایک ہزار آیتیں پڑھنے کے برابر ہے۔ (مظھری، معارف) الھکم التکاثر، الھکم، لھو سے مشتق ہے، جس کے اصل معنی غفلت کے ہیں، لیکن عربی محاورہ میں اس شغل کے لئے بولا جاتا ہے، جس سے آدمی کی دلچسپی اتنی بڑھ ائے کہ وہ اس میں منہمک ہو کر دوسرے اہم ترین کاموں سے غافل ہوجائے، تکاثر یہ کثرۃ سے ماخوذ ہے اور اس کے تین معنی ہیں : ایک یہ کہ آدمی زیادہ سے زیادہ مال حاصل کرنے اور جمع کرنے کی کوشش کرے، دوسرے یہ کہ لوگ مال حاصل کرنے اور جمع کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں، تیسرے یہ کہ لوگ ایک دوسرے کے مقابلہ میں کثرت مال و اولاد میں تفاخر کریں، حضرت قتادہ ؓ کی یہی تفسیر ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے الھکم التکاثر پڑھ کر فرمایا کہ اس کی مراد یہ ہے کہ مال ناجائز طریقوں سے حاصل کیا جائے اور مال پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں ان کو ادا نہ کیا جائے۔ (قرطبی)
Top