(1) اصل بیماری کی تشخیص کا ذکرو بیان : سو اس سے واضح فرمایا گیا کہ اصل بیماری جو دنیا کے اس دار الغرور میں لوگوں کو لگتی ہے اور جو بیماریوں کی بیماری ہے، وہ ہے غفلت و لاپرواہی، والعیاذ باللہ۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور اسل بیماری کی تشخیص و تعیین کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ غفلت میں ڈال دیا تم کو اے لوگو " تکاثر " نے، سو اس چیز نے تم کو غافل کردیا اپنے مقصد زندگی سے اور غافل کردیا تم کو اپنے خالق ومالک کے حقوق اور اس کے یہاں حاضری اور جواب دہی کے فکر و اندیشہ سے، اور غافل کردیا تم کو اپنی عاقبت اور اپنے انجام اور بھلے برے کی تمیز سے، وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ اس لیے کہ " الھا " کا عموم ان سب ہی معانی و مفاہیم کو عام اور شامل ہے، پس غفلت و لاپرواہی بیماریوں کی بیماری اور ہر شرو فساد کی جڑ بنیاد ہے، والعیاذ باللہ۔ الھا فعل ماضی کا صیغہ ہے جو کہ مشتق ہے " لھو " سے جس کے معنی شغل اور تماشہ کے ہیں، اور عربی زبان میں اس کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوتا ہے جس میں لگ کر انسان دوسری چیزوں اور اپنے اصل مقصد سے غافل ہوجائے، جیسے سکول میں جانے والا بچہ چلتے چلتے مداری کا کھیل دیکھنے ایسا مشغول اور منہمک ہوجاتا ہے کہ سکول جانے کے اپنے مقصد سے غافل ہوجاتا ہے، اور اس کے نتیجے میں آگے وہ کئی طرح کے مفاسد میں گھر جاتا ہے، سو اسی طرح ابنائے دنیا اپنی دنیا اور اپنے دنیاوی مشاغل میں الجھ کر اپنی آخرت اور اپنے حقیقی مقصد سے غافل و لاپرواہ ہوجاتے ہیں جو کہ خساروں کا خسارہ ہے، والعیاذ باللہ العظیم، اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ غفلت و لاپرواہی کے ام الامراض کا اصب سبب اور باعث ہے " تکاثر " یعنی کثرت وبہتات کی طلب و ہوس، اور اصل بیماری کی تعیین و تشخیص کے بعد اس کے باعث اور سبب کے ذکرو بیان کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ بہتات کی حرص و ہوس نے دنیاوی مال و دولت اور جتھا اور پارٹی اور جادہ و اقتدار وغیرہ میں اور آگے بڑھ جائیں اور کمائی کرلیں، دوسروں سے آگے نکل جائیں اور دوسروں کے مقابلہ میں فخر جتا سکیں اور اپنی مزعومہ بڑائی کے راگ الاپ سکیں، سو " تکاثر " کے مفہوم کا عموم اس سب ہی صورتوں کو عام اور شامل ہے، اور " کم " کا خطاب بھی عام ہے جو ہر دور کے اور ہر زمانے کے لوگوں کو شامل ہے، سو کتنا سچا اور کس قدر مطابق واقع ہے، قرآن حکیم کا یہ ارشاد وبیان جو کل کے لوگوں پر بھی صادق آتا تھا، اور آج بھی سب پر فٹ آتا ہے، اور آئندہ بھی قیامت تک کے سب لوگوں کے لیے عام ہے کہ غفلت کی بیماری کا اصل باعث اور سبب بہرکیف یہی " تکاثر " ہے، یعنی کثرت وبہتات کی حرص و ہوس اور اسی کی فکر و کوشش، اور اسی کے لیے محنت و تگ و دو اور اسی کا نتیجہ ہے غفلت و لاپرواہی، یعنی اپنے انجام سے غفلت و لاپروہی، اور اس کا علاج حق و حقیقت کا علم و یقین ہے، اور اس کے لیے فکر و کوشش، سو اس طرح اس ارشاد سے اصل بیماری بھی بتادی گئی اور اس کے منشا ومصدر کے سبب سے آگہی بھی بخش دی گئی، اور اس کا علاج بھی بتادیا گیا، کہ بیماری ہے غفلت و لاپرواہی، اور اس کا منشاء و سبب ہے حرص و ہو س، اور " تکاثر " اور اس کا علاج ہے آخرت پر ایمان و یقین اور وہاں حساب اور جوابدہی کے لیے فکر و کوشش۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید، اللہ ہمیش اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین و یا ارحم الرحمین، ویامن بیدہ ملکوت کل شیء