Tafseer-e-Jalalain - Ar-Ra'd : 27
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ اَنَابَۖۚ
وَيَقُوْلُ : اور کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) لَوْ : کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہ اتاری گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُضِلُّ : گمراہ کرتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو چاہتا ہے وَيَهْدِيْٓ : اور راہ دکھاتا ہے اِلَيْهِ : اپنی طرف مَنْ : جو اَنَابَ : رجوع کرے
اور کافر کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی کہہ دو کہ خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ اور جو (اسکی طرف) رجوع ہوتا ہے اسکو اپنی طرف کا راستہ دکھاتا ہے۔
آیت نمبر 27 تا 31 ترجمہ : اور اہل مکہ میں سے کافر کہتے ہیں کہ محمد ﷺ پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ) عصا اور ید بیضاء اور ناقۂ صالح جیسی کیوں نہیں اتاری ہوگئی ؟ ان سے کہہ دو کہ اللہ جس کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں اس کو بےراہ کردیتے ہیں نشانیاں (معجزات) اس کو کچھ بھی فائدہ نہیں دیتے، اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اس کی اپنے دین کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور مَنْ سے اَلَّذِیْن آمنوا، بدل ہے، جو لوگ ایمان لائے ان کے قلوب اللہ کے ذکر یعنی اس کے وعدہ سے اطمینان حاصل کرتے ہیں، یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی مومنوں کے دلوں کو تسلی ہوتی ہے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بھی کئے ان کیلئے خوشحالی ہے اور بہترین ٹھکانہ ہے (اَلَّذِیْنَ آمنوا) مبتداء ہے اور (طوبیٰ ) اس کی خبر ہے (طوبیٰ ) الطیب سے مصدر ہے یا جنت میں ایسا درخت ہے کہ (گھوڑ) سوار اس کے سایہ میں سو سال تک چلے گا تب بھی اس کی مسافت طے نہ کرسکے گا، یعنی جس طرح آپ سے پہلے ہم نے انبیاء بھیجے اسی طرح ہم نے آپ کو ایسی امت میں بھیجا ہے کہ جس سے پہلے بہت سی امتیں گذر چکی ہیں تاکہ آپ ﷺ ان کو وہ قرآن پڑھ کر سنائیں جس کو ہم نے آپ کی طرف بذریعہ وحی بھیجا ہے، یہ رحمن کے منکر ہیں اسلئے کہ جب ان سے کہا گیا کہ رحمن کو سجدہ کرو، انہوں نے کہا رحمن کیا چیز ہے ؟ آپ کہئے کہ میرا پروردگار تو وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے، اور (آئندہ آیت اس وقت) نازل ہوئی کہ جب کفار مکہ نے آپ ﷺ سے کہا اگر تم نبی ہو تو مکہ کے پہاڑوں کو ہمارے لئے مکہ میں نہریں اور چشمے جاری کردو، تاکہ ہم درخت لگائیں اور کھیتی کریں اور ہمارے مردہ آباء و اجداد کو زندہ کردو تاکہ وہ ہمیں بتائیں کہ تم اللہ کے نبی ہو، اور اگر بالفرض کوئی قرآن ایسا ہوتا کہ جس کے ذریعہ پہاڑ اپنی جگہ سے منتقل کر دئیے جاتے یا زمین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جاتے یا اس کے ذریعہ مردوں سے باتیں کرا دی جاتیں بایں طور کہ ان کو زندہ کردیا جاتا، تو پھر بھی یہ ایمان نہ لاتے، بلکہ پورا اختیار اللہ ہی کو ہے نہ کہ کسی اور کو، تو بھی کوئی ایمان نہ لاتا مگر وہی جس کے ایمان کو اللہ چاہتا نہ کہ دوسرا، اگرچہ ان کی مطلوبہ نشانیاں دکھا دی جاتیں، اور (آئندہ آیت) اس وقت نازل ہوئی جبکہ صحابہ نے اہل مکہ کے ایمان کی خواہش کرتے ہوئے ان کی مطلوبہ نشانیوں کو ظاہر کرنے کی تمنا کی تو کیا ایمان والے اس بات کو نہیں جانتے کہ بات یہ ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو بغیر نشانی کے سب لوگوں کو ایمان کی ہدایت دیدیتا اور کافروں (یعنی) اہل مکہ پر ان کے کرتوتوں یعنی کفر کی بدولت مختلف قسم کے ایسے حوادث مسلسل پہنچتے رہیں گے جو ان کو جھنجھوڑتے رہیں گے مثلاً قتل اور قید اور جنگ اور خشک سالی اے محمد آپ اپنے لشکر کے ساتھ مکہ کے قریب (حدیبیہ میں) نزول فرمائیں گے یہاں تک ان کے خلاف اللہ کا نصرت کا وعدہ آجائے یقیناً اللہ (اپنے) وعدہ کے خلاف نہیں کرتا اور آپ نے حدیبیہ میں نزول فرمایا یہاں تک کہ مکہ کی فتح آگئی۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیر فوائد قولہ : ھَلاَّ ، لَوْلا کی تفسیر ھَلاَّ سے کرکے اشارہ کردیا کہ لولا تحضیضیہ ہے۔ قولہ : ویبدل مِنْ مَنْ یعنی مَنْ انابَ سے اَلَّذِیْنَ آمنوا الخ جملہ ہو کر بدل الکل ہے۔ قولہ : الذین آمنوا میں ترکیب کے اعتبار سے پانچ صورتیں ہوسکتی ہیں (1) الّذین آمنوا مبتداء اور بعد میں آنے والا اَلَّذِیْنَ آمنوا جملہ ہو کر اس کی خبر اور درمیان میں وتطمئنُّ قلوبھم بذکر اللہ، جملہ معترضہ، (2) الَّذِیْنَ آمنوا، مَنْ اناب سے بدل الکل، (3) اَلَّذِیْنَ آمنوا، مَنْ کا عطف بیان ہو، (4) مبتداء محذوف کی خبر ہو، ای ھم الذین آمنوا (5) فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہو ای امْدَحُ الَّذِیْنَ آمنوا۔ اس لئے قولہ : ای وعدہ، ذکر اللہ کی تفسیر وعدہ سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہاں عام بول کر خاص مراد ہے ورنہ ذکر اللہ اور وعید دونوں کو شامل ہے اور وعید سے قلوب مطمئن ہونے کے بجائے مضطرب ہوتے ہیں مفسر علام نے وعدہ سے اسی سوال کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قولہ : طوبیٰ ، خوش حالی، جنت کے درخت کا نام، علامہ آلوسی نے طوبی کو طاب یطیب (ض) کا مصدر بتایا ہے جیسا کہ بشریٰ ، زُلفیٰ اور یاء ساکن اپنے ماقبل ضمہ ہونے کی وجہ سے واؤ سے بدلی ہوئی ہے اصل میں طیبیٰ تھا۔ قولہ : فَسَیّر عنا، ای سیّر بقراء تِکَ عنا جبالَ مکۃ . قولہ : شُقِّقَتْ یعنی آپ کی قراءت کی وجہ سے زمین شق ہو کر اس میں چشمے اور نہریں جاری ہوجاتیں، اور بعض نے کہا ہے قطعت کا مطلب ہے قرآن کے ذریعہ طیّ الارض یعنی سرعت کے ساتھ آناً فاناً مسافت طے ہوجایا کرے۔ قولہ : لَمَا آمنوا یہ لَوْ کا جواب ہے جو کہ محذوف ہے۔ قولہ : لا بغیرہ اس میں اشارہ ہے کہ للہ الامر جمیعا، اصل عبارت ہے الامر جمیعا للہ جار مجرور کو اختصاص کے لئے مقدم کردیا جس کو مفسر علام نے لابغیرہ کہہ کر ظاہر کردیا ہے۔ قولہ : یعلم، یَیْئَس کی تفسیر یعلم سے کی ہے یعنی لم یَیْئَسو کی تفسیر لم یعلموا سے لغت بنی نخع یا ہوازن کے مطابق ہے اور یا یأس کے علم کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے کی ہے اسلئے کہ جو شخص مایوس ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ کام ہونے والا نہیں ہے۔ قولہ : بصنعھم ما صنعوا کی تفسیر بصنعھم سے کرکے اشارہ کردیا کہ ما، مصدریہ ہے نہ کہ موصولہ، لہٰذا عدم عائد کا اعتراض واقع نہ ہوگا قولہ : الدّاھیۃ، الامر العظیم۔ تفسیر و تشریح ویقول الذین کفروا یعنی یہ مشرکین مکہ ازراہ طعن وعناد کہتے تھے کہ یہ صاحب جو مدعی نبوت پیدا ہوئے ہیں آخر اپنے خدا کے یہاں سے کوئی معجزہ ہماری پسند کا کیوں نہیں لا دیتے ؟ الذین۔۔۔۔ بذکر اللہ، ذکر اللہ سے مراد توحید کا بیان ہے جس سے مومنوں کے دلوں میں انشراح اور کافروں کے دل میں انقیاض پیدا ہوتا ہے یا خدا کی بندگی، تلاوت قرآن، نوافل اور دعاء و مناجات مراد ہیں جو اہل ایمان کے دلوں کی خوراک ہے، یا اس کے احکام و فرامین کی بجا آوری مراد ہے جس کے بغیر اہل ایمان وتقویٰ بےقرار رہتے ہیں، یعنی ذکر الٰہی کی خاصیت ہی یہ ہے کہ یہ انسان کے قلب کو غیر اللہ کی طرف متوجہ ہونے کے الجھاوے سے بچا دیتا ہے، اور شرک سے جو انتشار ذہنی پیدا ہوتا ہے یقیناً توحید اس کیلئے تریاق کا کام دیتی ہے، البتہ اس اطمینان کے بھی مختلف درجے ہیں جس درجہ کا ذکر الٰہی ہوتا ہے اسی نسبت سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔ ذکر الٰہی کے آثار میں سے ایک اثر خوف و خشیت کا ہے ” اِذَا ذکر اللہ وجلت قلوبھم “ لیکن یہ ماسوا کی طرف سے اطمینان اور فراغت، خوف خدا کے منافی بالکل نہیں بلکہ یہ دونوں کیفیتیں تو عین ایک دوسرے کی متمم اور مکمل ہیں۔ کذالک۔۔۔۔ الخ جس طرح ہم نے آپ کو تبلیغ رسالت کیلئے بھیجا ہے اسی طرح پہلی امتوں میں بھی رسول بھیجے تھے، ان کی بھی اسی طرح تکذیب کی گئی تھی اور جس طرح تکذیب کے نتیجہ میں وہ قومیں عذاب الٰہی سے دو چار ہوئیں انہیں بھی اس انجام سے بےفکر نہیں رہنا چاہیے۔ مشرکین مکہ ” رحمن “ کے لفظ سے بہت بدکتے تھے، صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم کے الفاظ لکھے گئے تو انہوں نے کہا تھا کہ یہ رحمن اور رحیم کیا ہے ؟ ہم نہیں جانتے۔ (ابن کثیر) شان نزول : لوأن۔۔۔۔ الخ مشرکین مکہ نے یہود کی تعلیم و ترغیب سے اس قسم کی فرمائشیں کی تھیں کہ دعویٰ تو پیغمبری کا ہے مگر داؤد (علیہ السلام) پیغمبر کی طرح پہاڑوں کی تسخیر کا تماشا کیوں نہیں دکھا دیتے، یا سلیمان (علیہ السلام) بن داؤد کی طرح ہوا کے دوش پر سفر کیوں نہیں کرواتے یا عیسیٰ نبی اللہ کی طرح مردوں سے کیوں گفتگو نہیں کرا دیتے۔ مذکورہ آیت ان ہی بیہودہ فرمائشوں کے جواب میں نازل ہوئی، تفسیر بغوی میں اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ مشرکین مکہ جن میں ابوجہل بن ہشام اور عبد اللہ بن امیہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، ایک روز بیت اللہ کے پیچھے جاکر بیٹھ گئے اور عبد اللہ بن امیہ کو رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا، اس نے کہا اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ قوم اور ہم سب آپ کے رسول ہونے کو تسلیم کرلیں تو ہمارے چند مطالبات ہیں اپنے قرآن کے ذریعہ ان کو پورا کر دیجئے تو ہم سب اسلام قبول کرلیں گے۔ مطالبات میں ایک تو یہ تھا کہ شہر مکہ کی زمین بڑی تنگ ہے چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے اور زمین بھی سنگ لاخ ہے جس میں نہ کاشت و زراعت کی گنجائش نہ باغات کی اور دوسری ضروریات کی، آپ معجزے کے ذریعہ ان پہاڑوں کو دور ہٹا دیجئے، تاکہ مکہ کی زمین کشادہ ہوجائے آخر آپ کے کہنے کے مطابق داؤد (علیہ السلام) کیلئے پہاڑ مسخر کر دئیے گئے تھے، اور داؤد (علیہ السلام) تسبیح پڑھتے تو پہاڑ بھی تسبیح پڑھتے، آپ بقول خود اللہ کے نزدیک داؤد (علیہ السلام) سے کم تو نہیں ہیں۔ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ جس طرح سلیمان (علیہ السلام) کیلئے آپ کے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہوا کو مسخر کرکے زمین کے بڑے بڑے فاصلوں کو مختصر کردیا تھا آپ بھی ہمارے لئے ایسا ہی کردیں کہ ہمارے لئے شام و یمن وغیرہ کے سفر آسان ہوجائیں۔ تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کردیتے تھے آپ ان سے کچھ کم تو ہیں نہیں آپ بھی ہمارے لئے ہمارے دار قصی کو زندہ کر دیجئے تاکہ ہم ان سے یہ دریافت کرسکیں کہ آپ کا دین سچا ہے یا نہیں۔ (معارف، مظھری، بحوالہ بغوی وابن ابی حاتم وابن مردویہ) آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر قرآن کے ذریعہ بطور معجزہ ان کے یہ مطالبات پورے کرا دئیے جائیں تب بھی وہ ایمان لانے والے نہیں، رسول اللہ ﷺ کے اشارہ سے چاند کے دو ٹکڑے ہوجانا، پہاڑوں کے اپنی جگہ سے ہٹ جانے سے اور تسخیر ہوا سے کہیں زیادہ حیرت انگیز ہے، اسی طرح بےجان کنکریوں کا آپ کے دست مبارک میں بولنا اور تسبیح کرنا کسی مردہ انسان کے دوبارہ زندہ ہو کر بولنے سے کہیں زیادہ عظیم معجزہ ہے، لیلۃ المعراج میں مسجد اقصی اور وہاں سے آسمانوں کا سفر اور بہت مختصر وقت میں واپسی تسخیر ہوا اور تخت سلیمانی کے اعجاز سے بہت زیادہ عظیم ہے مگر یہ ظالم یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی جب ایمان نہ لائے تو اب ان مطالبات سے بھی ان کی نیت محض دفع الوقتی معلوم ہوتی ہے اسلئے کہ جب ہمارے مطالبہ معجزے پیش نہ کئے جائیں گے تو ہمیں یہ کہنے کا موقع مل جائیگا کہ یہ اللہ کے نبی نہیں ہیں اسلئے کہ اگر یہ اللہ کے سچے نبی ہوتے تو ہمارے مطلوبہ معجزے دکھا دیتے۔ افلم یا یئس۔۔۔۔ الخ امام بغوی نے نقل کیا ہے کہ صحابۂ کرام نے جب مشرکین کے یہ مطالبات سنے تو یہ تمنا کرنے لگے کہ بطور معجزہ کے یہ مطالبات پورے کر دئیے جائیں تو بہتر ہے سارے مکہ والے مسلمان ہوجائیں گے، اور اسلام کو بڑی قوت حاصل ہوجائے گی اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس کے معنی یہ ہیں کہ کیا اہل ایمان ان مشرکوں کی حیلہ جوئی اور معاندانہ بحثوں کو دیکھنے اور جاننے کے باوجود اب تک ان کے ایمان لانے سے مایوس نہیں ہوئے ہیں کہ ایسی تمنا کرنے لگے جبکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب ہی انسانوں کو ایسی ہدایت دیدیتا کہ وہ ایمان لائے بغیر نہ رہ سکتے مگر حکمت کا تقاضا یہ نہ تھا کہ سب کو ایمان و اسلام پر مجبور کردیا جائے بلکہ حکمت یہی تھی کہ ہر شخص کا اپنا اختیار باقی رہے اپنے اختیار سے اسلام کو پسند کرے یا کفر کو۔ ولا یزال۔۔۔ الخ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ قارعۃ کے معنی مصیبت اور آفت کے ہیں آیت کا مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کے مطلوبہ معجزے اس لئے پورے نہیں کئے گئے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ مطلوبہ معجزے دیکھنے کے بعد بھی یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے، تو اللہ کے نزدیک یہ اسی کے مستحق ہیں کہ ان پر دنیا میں بھی آفتیں اور مصیبتیں آئیں جیسا کہ اہل مکہ پر کبھی قحط کی مصیبت آئی اور کبھی اسلامی غزوات، بدر وغیرہ میں ان کے قتل و قید ہونے کی آفت نازل ہوئی، کسی پر بجلی گری اور کوئی کسی بلا میں مبتلا ہوا۔ (معارف)
Top