Maarif-ul-Quran - Ar-Ra'd : 27
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ اَنَابَۖۚ
وَيَقُوْلُ : اور کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) لَوْ : کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہ اتاری گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُضِلُّ : گمراہ کرتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو چاہتا ہے وَيَهْدِيْٓ : اور راہ دکھاتا ہے اِلَيْهِ : اپنی طرف مَنْ : جو اَنَابَ : رجوع کرے
اور کافر کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی کہہ دو کہ خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ اور جو (اسکی طرف) رجوع ہوتا ہے اسکو اپنی طرف کا راستہ دکھاتا ہے۔
رجوع بہ مبحت نبوت وبیان حال اہل سعادت و ایل شقاوت قال اللہ تعالیٰ ویقول اللذین کفروا ولا انزل علیہ ایۃ .... الیٰ .... فکیف کان عقاب۔ (ربط) اوپر سلسلہ کلام اہل حق اور اہل باطل کے بارے میں چلا آرہا ہے اور اس سے قبل وان تعجب فعجب قولہم میں نبوت کے متعلق مضمون تھا اب پھر اسی مضمون کی طرف رجوع کرتے ہیں اور کافروں کا وہی سابق قول کہ محمد ﷺ پر ہماری فرمائش کے مطابق معجزہ نازل کیوں نہیں ہوتا پھر نقل کرکے اس کا جواب دیتے ہیں کہ اللہ نے آپ ﷺ پر بہت سی آیات ظاہرہ اور معجزات قاہرہ نازل کی ہیں لیکن ہدایت اور ضلال سب اللہ کے قبضہ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ نے معجزات اور بینات تو بہت نازل کئے ہیں مگر تمہیں اللہ کی طرف سے ہدایت اور توفیق نہیں ہوتی تو میں کیا کروں باقی یہ ناممکن ہے کہ معجزات کا نازل ہونا تمہاری خواہشوں کے تابع ہوجائے بعد ازاں اہل سعادت اور اہل شقاوت کا حال بیان فرمایا۔ اور یہ کافر لوگ آپ ﷺ کی نبوت پر طعن اور اعتراض کے لیے یہ کہتے ہیں کہ اس پیغمبر پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی ایسی نشانی جیسی ہم چاہتے ہیں کیوں نہیں اتاری گئی فلیاتنا بایۃ کما ارسل الاولون اے نبی ! آپ ﷺ ان کے جواب میں کہہ دیجئے کہ اللہ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہے اور راہ بتاتا ہے اس کو جو اس کی طرف رجوع کرے یعنی نشانیاں تو بہت اتاری گئی ہیں مگر خدا نے تم کو گمراہ کردیا ہے کہ معجزات تمہارے سامنے ہیں مگر تم کو نظر نہیں آتے جو شخص ان نشانیوں کو دیکھ کر بھی راہ راست پر نہ آئے تو سمجھ لو کہ اللہ کی مشیت یہی ہے کہ وہ راہ راست پر نہ آئے۔ اللہ کی ہدایت اور توفیق اسی شخص کو نصیب ہوتی ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرے اور حق کا طالب ہو ایسا شخص بلا معجزہ دیکھے ہوئے بھی ایمان لے آتا ہے کیونکہ خدا کی طرف رجوع کرنے والوں کا حال یہ ہے کہ یہ لوگ صدق دل سے اللہ پر ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے تسلی اور آرام پاتے ہیں آگاہ ہوجاؤ کہ جو دل حقیقت میں دل ہیں وہ اللہ ہی کی یاد سے مطمئن ہوتے ہیں۔ اللہ کے ذکر کی خاصیت ہی یہ ہے کہ اس سے دل کو سکون اور اطمینان حاصل ہو یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ کئے ان کے لیے پاکیزہ زندگی اور اچھا ٹھکانا ہے سکون اور اطمینان دنیاوی مال و دولت سے حاصل نہیں بلکہ تعلق مع اللہ سے حاصل ہوتا ہے۔ : لغت عرب میں طوبیٰ کے معنی نہایت درجہ کی خوشی اور شادمانی کے ہیں اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ طوبیٰ جنت میں ایک درخت ہے۔ شاہ عبد القادر (رح) لکھتے ہیں ” یعنی حق تعالیٰ کو ضرور نہیں کہ سب کو راہ پر لادے یا نشانیاں بھیج کر ہر طرح ہدایت دے بلکہ یہی منظور ہے کہ کوئی بچلے کوئی راہ پاوے سو جس کے دل میں رجوع آئے نشان ہے کہ اس کو سوجھانا چاہا “ (انت ہے) اب آگے ان لوگوں کا رد فرماتے ہیں کہ جو نبوت و رسالت کو انوکھی چیز سمجھتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں اے نبی ﷺ ! جس طرح ہم نے آپ ﷺ سے پہلے پیغمبروں کو ان کی امتوں کی طرف بھیجا اسی طرح ہم نے تجھ کو ایک امت میں بھیجا ہے جس سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں تاکہ تو ان کو وہ کتاب پڑھ کر سنا وے کہ جو ہم نے تیری طرف وحی کے ذریعے بھیجی ہے جو آپ ﷺ کی نبوت کی سب سے بڑی نشانی ہے اور اللہ کی عظیم رحمت ہے ان کو چاہئے تھا کہ اس نعمت عظمیٰ کی قدر کرتے اور اس پر ایمان لاتے مگر ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ رحمن کے منکر ہیں اس لیے قرآن پر ایمان نہیں لاتے ان جاہلوں کو اللہ کا نام ” رحمن “ معلوم نہیں چناچہ ابو جہل ملعون نے آنحضرت ﷺ کو اس طرح دعا کرتے سنا یا اللہ، یا رحمان ! تو اپنی قوم سے جاکر کہنے لگا کہ اب تو محمد ﷺ دو خدا کو پکارنے لگا ایک معبود کو چھوڑ کر دوسرا معبود پکڑ لیا ایک تو اللہ کو پکارتا ہے اور ایک رحمن کو پکارتا ہے ہم تو سوائے رحمان یمامہ (مسیلمہ کذاب) کے علاوہ اور کسی رحمن کو نہیں جانتے اے نبی آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ وہ رحمن جس کے تم منکر ہو وہی میرا پروردگار ہے اور وہی اللہ ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں کبھی کسی نام سے اور کبھی کسی نام سے اسی ایک رب کو پکاتا ہوں۔ قل ادعوا اللہ اوادعو الرحمان۔ ایاما تدعوا فللہ الاسماء الحسنی اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے اور اگر کوئی کتاب الٰہی اس عالم میں ایسی ہوتی کہ جس کے سبب پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دئیے جاتے اور زمین ہموار کردی جاتی یا اس کے ذریعہ سے زمین شق کردی جاتی کہ اس سے نہریں جاری ہوجاتیں یا اس کے ذریعے مردوں سے بائیں کرائی جائیں کہ مردے اپنی قبروں میں بولتے یا اٹھ کر قبر سے باہر آئے اور لوگوں سے باتیں کرتے تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے۔ کفار آنحضرت ﷺ سے اس قسم کے معجزات کی فرمائش کیا کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر قرآن کے ذریعے ان کے یہ فرمائشی معجزات بھی دے دئیے جائیں تب بھی ایمان نہ لائیں گے خوب سمجھ لو کہ ایمان اور ہدایت کسی کے اختیار میں نہیں بلکہ سب اختیار اللہ ہی کو ہے جس کو چاہے ہدایت دے اور جس کو چاہے گمراہ کرے۔ : اس آیت میں قرآن سے مطلق کتاب الٰہی مراد ہے جیسا کہ ایک حدیث میں زبور پر بھی لفظ قرآن کا اطلاق کیا ہے۔ بعض مسلمانوں کو ازراہ شفقت و ترجم یہ خیال ہوا کہ کاش کہ کوئی بڑی نشانی اور یہ معجزات ظاہر ہوجائے تو شاید یہ لوگ ایمان لے آتے اس لیے ان کے جواب اور تسلی کے لیے آئندہ آیت نازل ہوئی کیا مسلمان ان کافروں کے ایمان سے ناامید نہیں ہوئے جو ایسے معجزات مانگتے ہیں جب کہ وہ جان چکے ہیں کہ سب اختیار اللہ ہی کو ہے اگر اللہ چاہے تو سب لوگوں کو ہدایت دیدے تو اے مسلمانو ! تم ان کے ایمان سے مایوس ہوجاؤ یہ کسی طرح ایمان نہیں لائیں گے اللہ ہی کو ان کی ہدایت منظور نہیں پھر تم ان معاندین کی فکر میں کیوں لگے ہو اور ہمیشہ پہنچتی رہے گی ان کافروں کو ان کی کرتوتوں کی سزا میں ایک نہ ایک مصیبت جو ان کو ہلاتی رہے اور دھمکاتی رہے یا ان کے گھروں کے قریب ان کے گردونواح والوں پر کوئی مصیبت نازل ہوتی رہے جسے دیکھ کر یہ لوگ عبرت پکڑیں اور نصیحت پاویں اسی طرح مسلمانوں کے جہاد اور غزوات کا اور کافروں پر مصیبتوں اور آفات کا سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آپہنچے اور اسلام تمام دینوں پر غالب آجائے جس کا خدائے تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا اور آپ ﷺ ان کافروں کے استہزاء اور تمسخر سے رنجیدہ نہ ہوں یہ آپ ﷺ کے ساتھ خاص نہیں اس لیے کہ تحقیق آپ ﷺ سے پہلے بہت سے رسولوں کے ساتھ تمسخر کیا گیا پس میں نے ان مسخروں کو فورا نہیں پکڑا بلکہ ان منکروں کو مہلت دی تاکہ دل کھول کر انبیاء (علیہم السلام) کا مذاق اڑالیں پھر جب ان کے جرم کا پیمانہ لبریز ہوگیا تب میں نے ان کو اچانک پکڑ لیا پس سمجھ لو کہ میرا غذاب کیا ہوتا ہے اور کس طرح آتا ہے۔ اس دنیاوی عذاب پر اخروی عذاب کو قیاس کرلو جو دار جزاء ہے جس درجہ کا عناد ہوگا اسی درجہ کی سزا ملے گی حضرت شاہ عبد القادر (رح) لکھتے ہیں کہ مسلمان چاہتے ہوں گے کہ ایک نشانی بڑی سی آوے تو کافر مسلمان ہوجاویں سو فرمایا اگر کسی قرآن سے یہ کام ہوتے تو البتہ اس سے پہلے ہوتے لیکن اختیار اللہ کا ہے اور خاطر جمع اسی پر چاہئے کہ اللہ نے نہیں چاہا اگر وہ چاہتا تو حکم کافر تھا لیکن کافر مسلمان یوں ہوں گے کہ ان پر آفت پڑتی رہے گی ان پر پڑے یا ہمسایہ پر جب تک سارے عرب ایمان میں آجاویں وہ آفت یہ ہی تھی جہاد مسلمانوں کے ہاتھ سے۔ (انت ہے)
Top