Tafseer-e-Jalalain - Ar-Ra'd : 38
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً١ؕ وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور البتہ ہم نے بھیجے رُسُلًا : رسول (جمع) مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے وَجَعَلْنَا : اور ہم نے دیں لَهُمْ : ان کو اَزْوَاجًا : بیویاں وَّذُرِّيَّةً : اور اولاد وَمَا كَانَ : اور نہیں ہوا لِرَسُوْلٍ : کسی رسول کے لیے اَنْ : کہ يَّاْتِيَ : لائے بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی اِلَّا : بغیر بِاِذْنِ اللّٰهِ : اللہ کی اجازت سے لِكُلِّ اَجَلٍ : ہر وعدہ کے لیے كِتَابٌ : ایک تحریر
اور (اے محمد ﷺ ہم نے تم سے پہلے بھی پیغمبر بھیجے تھے اور ان کو بیبیاں اور اولاد بھی دی تھی۔ اور کسی پیغمبر کے اخیتار کی بات نہ تھی کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی نشانی لائے۔ ہر (حکم) قضاُ (کتاب میں) مرقوم ہے۔
آیت نمبر 38 تا 42 ترجمہ : آئندہ آیت اس وقت نال ہوئی کہ جب انہوں نے آپ ﷺ کو کثرت ازواج پر عار دلائی، ہم آپ سے پہلے بھی رسول بھیج چکے ہیں، ہم نے ان میں سے ہر ایک کو بیوی بچوں والا بنایا، اور آپ بھی ان کی مثل ہیں ان میں سے کسی رسول کی یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی معجزہ لاسکے، اس لئے کہ وہ تربیت یافتہ بندے ہیں، ہر دور کیلئے ایک کتاب ہے وہ اسی (دور) کیلئے محدود ہے اللہ جس چیز کو چاہتا ہے اس میں سے مٹا دیتا ہے اور جن احکام وغیرہ کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے ام الکتاب (اصل) اسی کے پاس ہے اصل کتاب کہ اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کرتا اور وہ وہی ہے جس کو اس نے ازل میں لکھا اور جس عذاب کی دھمکیوں کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے (اِمَّا) میں اِنْ شرطیہ کا ما زائدہ میں ادغام ہے ان میں سے بعض ہم آپ کو دکھادیں (یعنی) آپ کی زندگی ہی میں (ان پر) وہ عذاب آجائے اور جواب شرط محذوف ہے، ای فذاک، یعنی ایسا بھی ہوسکتا ہے، یا ان کو عذاب دینے سے پہلے ہی آپ کو وفات دیدیں آپ کے ذمہ تو صرف پہنچا دینا ہے اور بس یعنی آپ پر تبلیغ کے علاوہ کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور ہمارے ذمہ ان کا حساب ہے جب ہمارے پاس آئیں گے تو ہم ان کو بدلہ دیں گے کیا اہل مکہ نہیں دیکھتے کہ ہم نبی ﷺ کو فتح دیکر زمین اس کی اطراف سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں اور اللہ اپنی مخلوق میں جو چاہتا ہے حکم کرتا ہے کوئی اس کے حکم کو ٹالنے والا نہیں وہ جلد حساب لینے والا ہے، ان سے پہلے امتوں نے بھی اپنے انبیاء کے ساتھ مکاریاں کی ہیں جیسا کہ آپ کے ساتھ مکاریاں کی ہیں، لیکن تمام تدبیریں اللہ ہی کی ہیں اور ان کی تدبیریں اس کی تدبیر جیسی نہیں ہیں، اسلئے کہ اللہ تعالیٰ ہر متنفس کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ کیا کرے گا لہٰذا اس کیلئے اس کی جزاء تیار رکھتا ہے اور یہی اس کی مکمل تدبیر ہے، اسلئے کہ اس کو اس طرح بروئے کارلاتا ہے کہ ان کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا، اور کافروں کو عنقریب معلوم ہوجائیگا اور کافر سے مراد جنس کافر ہے، اور ایک قراءت میں (کافر کے بجائے) کفار ہے کہ دار آخرت کس کے لئے ہے (یعنی) دار آخرت میں بہتر انجام کس کا ہے، ان کا یا نبی ﷺ کا اور ان کے اصحاب کا یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں آپ ان سے کہئے کہ میرے اور تمہارے درمیان میری صداقت پر اللہ گواہ کے اعتبار سے کافی ہے اور وہ کہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے (اور وہ) یہود و نصاری میں سے مومنین ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : فَذَاک، مبتداء ہے اور شافیک اس کی خبر محذوف ہے مبتداء خبر سے مل کر جملہ ہو کر (اِمَّا) کا جواب شرط ہے۔ قولہ : نتوفینک بھی شرط سابق پر معطوف ہونے کی وجہ سے شرط ہے اس کا بھی جواب محذوف ہے اور وہ فلا تقصیر منک ہے فانما عَلَیْکَ اس محذوف کی علت ہے شاید مفسر علام نے شرط ثانی کے جواب کے حذف کی طرف اول پر اعتماد کرتے ہوئے یا علت پر اعتماد کرتے ہوئے اشارہ نہیں کیا بخلاف پہلی شرط کے جواب کے کہ اس کی علت بیان نہیں کی گئی۔ قولہ : المراد بہ الجنس۔ سوال : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ الکافر میں الف لام عہد کا ماننے کا تو کوئی قرینہ نہیں ہے اسلئے کہ کوئی متعین و مخصوص کافر مراد نہیں ہے نہ مطلقاً ایک کافر مراد ہے تو پھر الکافر کو مفرد لانے کا کیا مقصد ہے ؟ جواب : الکافر میں الف لام کا ہے جو جمع کے معنی پر مشتمل ہے فلا اعتراض۔ تفسیر و تشریح تمام انبیاء ورسل بشر ہی تھے : ولقد ارسلنا رسلا الخ یعنی مع آپ کے جتنے بھی رسول اور نبی آئے سب بشر ہی تھے جن کا اپنا خاندان تھا، قبیلہ تھا، بیوی بچے تھے، نہ وہ فرشتے تھے نہ انسانی شکل میں کوئی نوری مخلوق بلکہ جنس بشر ہی میں سے تھے، کیونکہ اگر وہ فرشتے ہوتے تو انسانوں کیلئے ان سے مانوس ہونا اور ان سے قریب ہونا ناممکن تھا، جس سے ان کے بھیجنے کا اصل مقصد جو اصلاح و تہذیب ہے فوت ہوجاتا اور اگر وہ فرشتے بشری جامہ میں بشری خصوصیات کے ساتھ ہوتے تو وہی اعتراض ہوتا جواب رہا ہے اور بشری خصوصیات کے بغیر آتے تو نہ ان کا دنیا میں کوئی خاندان ہوتا اور نہ قبیلہ اور نہ ان کے بیوی بچے ہوتے اس صورت میں وہ امت کیلئے نمونہ نہ ہوتے کہ ان کی اقتداء و اطاعت کی جاتی، اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء بحیثیت جنس کے بشر ہی تھے بشری شکل میں فرشتے یا کوئی نوری مخلوق نہیں تھے مذکورہ آیت میں ازواجاً سے رہبانیت کی تردید ہوتی ہے اور ذریۃ سے خاندانی منصوبہ بندی کی تردید ہوتی ہے اسلئے کہ ذریۃ جمع ہے جس کا کم ازکم تین پر اطلاق ہوتا ہے۔ نبیوں اور رسولوں کے متعلق کفار و مشرکین کا عام تصور : کفار و مشرکین کا رسول اور نبی کے متعلق ایک عام تخیل یہ تھا کہ وہ جنس بشر کے علاوہ کوئی دوسری مخلوق مثل فرشتوں کے ہونی چاہیے جس کی وجہ سے عام انسانوں سے ان کی برتری واضح ہوجائے، قرآن کریم نے ان کے اس خیال فاسد کا جواب متعدد آیات میں دیا ہے کہ تم نے نبوت و رسالت کی حقیقت اور حکمت کو ہی نہیں سمجھا، اس لئے تمہارے ذہن میں اس قسم کے واہی خیالات پیدا ہوئے، کیونکہ رسول کو حق تعالیٰ ایک نمونہ بنا کر بھیجتے ہیں کہ امت کے سارے انسان کی پیروی کریں، انہی جیسے اعمال و اخلاق سیکھیں، اور یہ ظاہر ہے کہ انسان اپنے ہم جنس انسان ہی کی پیروی کرسکتا ہے، جو اس کی جنس کا نہ ہو اس کی پیروی انسان سے ناممکن ہے، مثلاً فرشتے کو نہ بھوک لگتی ہے نہ پیاس اور نہ نفسانی خواہشات سے ان کو کوئی واسطہ نہ اس کو نیند آئے نہ اونگھ نہ تکان لاحق ہو نہ کسل اب اگر انسان کو ان کی پیروی کا حکم دیا جاتا تو یہ ان کی قدرت سے زائد تکلیف ہوجاتی۔ آپ ﷺ اور تعداد ازواج : آپ ﷺ کے متعلق بھی لوگوں کو یہی اعتراض اور شبہ ہوا، اور آپ ﷺ کے تعداد ازواج سے ان کا یہ شبہ اور بڑھ گیا، اس کا جواب آیت کے پہلے جملہ میں یہ دیا گیا ہے کہ ایک یا اس سے زائد نکاح کرنے اور بیوی بچوں والا ہونے کو تم نے کس دلیل سے نبوت و رسالت کے منافی سمجھ لیا اللہ تعالیٰ کی تو ابتداء آفرنیش سے یہی سنت رہی ہے کہ اپنے پیغمبروں کو صاحب اولاد بناتے ہیں جتنے انبیاء (علیہ السلام) پہلے گذرے ہیں اور ان میں سے بعض کی نبوت کے تو تم بھی قائل ہو وہ سب متعدد بیویاں رکھتے تھے اور صاحب اولاد تھے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تین سو بیویاں اور سات سو باندیاں تھیں : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تین سو بیویاں آزاد اور سات سو باندیاں تھیں اور ان کے والد حضرت داؤد (علیہ السلام) کی سو بیویاں تھیں اور کثرت ازواج سے ان کی نبوت میں نہ کوئی نقص تھا اور نہ قباحت لہٰذا یہ آپ کی نبوت کیلئے قادح اور عیب کیسے ہوسکتا ہے ؟ آپ ﷺ کی اولاد کی تفصیل : آپ ﷺ کی سات اولاد تھیں چار لڑکیاں اور تین لڑکے ان کی ترتیب اس طرح تھی، سب سے بڑے قاسم ؓ اس کے بعد زینب ؓ پھر رقیہ ؓ ، پھر فاطمہ ؓ پھر کلثوم ؓ اس کے بعد عبد اللہ جن کا لقب طیب و طاہر تھا، ان کے بعد ابراہیم ؓ یہ سب حضرت خدیجہ سے تھے سوائے ابراہیم کے کہ وہ ماریہ قبطیہ سے تھے اور سوائے فاطمہ ؓ کے سب کا انتقال آپ کی حیات ہی میں ہوگیا تھا، البتہ حضرت فاطمہ آپ ﷺ کے انتقال کے بعد چھ ماہ بقید حیات رہیں۔ کفار و مشرکین کے معاندانہ سوالات : ہر زمانہ میں کفار مشرکین اپنے زمانہ کے نبی کے سامنے معاندانہ سوالات پیش کرتے رہے ہیں، آپ ﷺ کے زمانہ کے مشرکین نے آپ سے بھی اسی قسم کے سوالات کئے تھے، ان میں دو سوال بہت عام ہیں ایک یہ کہ اللہ کی کتاب میں ہماری خواہش کے مطابق احکام نازل ہوا کریں جیسا کہ سورة یونس میں ان کا مطالبہ مذکور ہے ” اِئتِ بقرآنٍ غیر ھذا اَوْ بدِّلْہُ “ یعنی یا تو اس موجودہ قرآن کے بجائے بالکل ہی دوسرا قرآن لا دیجئے جس میں ہمارے بتوں کی عبادت کو منع نہ کیا گیا ہو یا پھر آپ اس قرآن میں کچھ ردو بدل اور ترمیم کرکے ان آیتوں کا نکال دیجئے جن سے ہمارے بتوں کی مذمت نکلتی ہے یا جن میں عذاب کی دھمکی دی گئی ہے یعنی حلال کی جگہ حرام اور حرام کی جگہ حلال کر دیجئے۔ موجودہ اعداءِ اسلام کی ذہنیت آج بھی یہی ہے : مغربی صیہونی ذہن میں یہ بات آپ کی بعثت کے روز اول ہی سے کھٹک رہی ہے ان کی طرف سے بار بار مطالبہ ہوتا ہے کہ قرآن سے ان آیتوں کو حذف کردیا جائے جن سے یہودیت اور نصرانیت کی مذمت ثابت ہوتی ہے، مختلف طریقوں سے اس کی ترغیب دی جاتی ہے کبھی مالی لالچ دیا جاتا ہے تو کبھی اقتصادی پابندی کی دھمکی دی جاتی ہے ایسی کوششیں ماضی میں بھی متعدد بار ہوچکی ہیں جو ناکام رہی ہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی ناکام رہیں گی اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی اپنی کتاب کی حفاظت کا تاکیدی وعدہ فرمایا ہے، حال ہی میں اخبارات کے ذریعہ معلوم ہوا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اپنی مشترکہ کوششوں سے ایک نیا قرآن، ” فرقان الحق “ کے نام سے مشائع کیا ہے جس سے وہ تمام آیتیں جو یہود و نصاری کی مذمت پر دلالت کرتی ہیں نکالدی ہیں، دنیا کا مسلمان صیہونیوں کی اس سازش سے واقف اور باخبر ہے اور ان کے ناپاک عزائم کو ناکام کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ دوسرا مطالبہ نت نئے معجزات طلب کرنے کا ہے کہ اگر فلاں قسم کا معجزہ دکھا دیا جائے تو ہم اسلام قبول کرلیں گے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا کھلا اعلان ہے کہ کسی نبی یا رسول کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ جب چاہے اور جس طرح کا چاہے معجزہ ظاہر کرسکے۔ لکل اجل کتاب، اجل کے معنی مدت متعینہ کے ہیں اور کتاب اس جگہ مصدر کے معنی میں ہے، یعنی تحریر، معنی یہ ہیں کہ ہر چیز کی میعاد اور مقدار اللہ تعالیٰ کے پاس لکھی ہوئی ہے، اس نے ازل میں لکھ دیا ہے کہ فلاں شخص فلاں وقت پیدا ہوگا اور اتنے دن زندہ رہے گا، کہاں کہاں جائے گا اور کہاں مرے گا۔ اس طرح یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ فلاں زمانہ میں فلاں پیغمبر پر کیا وحی اور کیا احکام نازل ہوں گے اسلئے کہ احکام ہر قوم اور ہر زمانہ کے مناسب آتے ہیں اور یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں پیغمبر سے فلاں فلاں معجزہ کس کس وقت ظہور پذیر ہوگا کس نبی کی شریعت کتنی مدت کیلئے ہے۔ احکام قرآنی میں محوو اثبات کا مطلب : یمحوا اللہ ما یشاء ویثبتُ وعندہ ام الکتاب، اُمُّ الکتاب کے لفظی معنی ہیں اصل کتاب، مراد اس سے لوح محفوظ ہے جس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ آیت کے معنی یہ ہیں کہ حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے جس حکم کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس حکم کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اس محو و اثبات کے بعد کچھ مواقع ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہے جس پر نہ کسی کی دست رس ہے نہ اس میں کوئی کمی و بیشی ہوسکتی ہے۔ ائمہ تفسیر میں سے حضرت سعید بن جبیر اور قتادہ وغیرہ نے اس آیت میں محو و اثبات سے احکام کا محو و اثبات مراد لیا ہے اور آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر زمانہ اور ہر قوم کیلئے مختلف رسولوں کے ذریعہ قوموں کے حالات اور زمانوں کے تغیرات کے مناسب احکام بھیجتے ہیں اور قوموں کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق احکام میں بھی محو اثبات کرتے رہتے ہیں اور اصل کتاب بہر حال اس کے پاس محفوظ ہے جس میں محو و اثبات کی پوری تفصیل لکھی ہوئی ہے اور جو احکام شرائط کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں وہ بھی اس میں لکھے ہوتے ہیں، اور کچھ احکام علم الٰہی کے مطابق میعادی ہوتے ہیں مگر ان کو مطلق بیان کیا جاتا ہے جس کو بندہ اپنی لاعلمی کی بنا پر دائمی سمجھ لیتا ہے حالانکہ جب ان کی میعاد پوری ہوجاتی ہے تو وہ حکم ختم ہوجاتا ہے اور بندہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ مذکورہ آیت کی دوسری تفسیر : سفیان ثوری، وکیع وغیرہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کی آیک دوسری تفسیر نقل کی ہے جس میں آیت کا تعلق نوشۃ تقدیر سے قرار دیا ہے اور آیت کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ قرآن و حدیث کی تصریحات کے مطابق مخلوقات کی پیدائش سے بھی پہلے لکھ دی ہیں پھر بچہ کی پیدائش کے وقت فرشتوں کو بھی لکھوا دیا جاتا ہے اور ہر سال شب قدر میں اس سال کے اندر پیش آنے والے معاملات کا چٹھا فرشتوں کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہر فرد مخلوق کی عمر، رزق، حرکات و سکنات سب متعین ہیں اور لکھے ہوئے ہیں مگر اللہ اس نوشۃ تقدیر میں سے جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے، ” وعندہ ام الکتاب “ یعنی اصل کتاب جس کے مطابق محو و اثبات کے بعد انجام کار عمل ہوتا ہے وہ اللہ کے پاس ہے اس میں کوئی ردوبدل نہیں ہوسکتا۔ تشریح اس کی یہ ہے کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اعمال سے انسان کی عمر اور رزق بڑھ جاتے ہیں اور بعض سے گھٹ جاتے ہیں، صحیح بخاری میں ہے کہ صلہ رحمی عمر میں زیادتی کا سبب بنتی ہے غرضیکہ اسی قسم کی بہت سی احادیث محو و اثبات پر دلالت کرتی ہیں۔ مذکورہ آیت کے مضمون کا ماحصل یہ ہے کہ کتاب تقدیر میں لکھی ہوئی عمر یا رزق وغیرہ میں ردوبدل کسی عمل یا دعاء کی وجہ سے ہوتا ہے اس سے مراد وہ کتاب تقدیر ہے جو فرشتوں کے ہاتھ یا انکے علم میں ہے اس میں بعض اوقات کوئی حکم کسی شرط پر معلق ہوتا ہے جب وہ شرط نہ پائی جائے تو وہ حکم بھی نہیں پایا جاتا یہ تقدیر معلق کہلاتی ہے جس میں اس آیت کی تصریح کے مطابق محو و اثبات ہوتا رہتا ہے لیکن آیت کے آخری جملہ میں ” ومَن عندہ علم الکتاب “ نے بتلا دیا کہ اس تقدیر معلق کے اوپر ایک تقدیر مبرم ہے، جو ام الکتاب میں لکھی ہوئی اللہ کے پاس ہے وہ صرف علم الہٰی کیلئے مخصوص ہے اس میں وہ احکام لکھے جاتے ہیں جو شرائط اعمال یا دعاء کے بعد آخری نتیجہ کے طور پر ہوتے ہیں اسی لئے وہ محو و اثبات اور کمی بیشی سے بالکل پاک ہے۔ (ابن کثیر، معارف) واما نرینک۔۔۔۔ نتوفینک، اس آیت میں آپ ﷺ کو تسلی دینے اور مطمئن کرنے کیلئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے آپ سے کئے ہیں کہ اسلام کی مکمل فتح ہوگی اور کفر اور کافر ذلیل ہوں گے یہ تو ہو کر رہے گا مگر آپ اس فکر میں نہ پڑیں کہ یہ فتح مکمل کب ہوگی، ممکن ہے کہ آپ کی زندگی میں ہوجائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کی وفات کے بعد ہو، اور آپ کے اطمینان کیلئے تو اتنا کافی ہے آپ برابر دیکھ رہے ہیں کہ ہم کفار کی زمینوں کو ان کے اطراف سے برابر گھٹاتے چلے آرہے ہیں یعنی یہ اطراف لگا تار مسلمانوں کے قبضے میں آتے جا رہے ہیں اس سے ایک دن اس فتح کی تکمیل بھی ہوجائے گی، حکم اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس کے حکم کو کوئی ٹالنے والا نہیں وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔
Top