Tafseer-e-Majidi - Ar-Ra'd : 38
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً١ؕ وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور البتہ ہم نے بھیجے رُسُلًا : رسول (جمع) مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے وَجَعَلْنَا : اور ہم نے دیں لَهُمْ : ان کو اَزْوَاجًا : بیویاں وَّذُرِّيَّةً : اور اولاد وَمَا كَانَ : اور نہیں ہوا لِرَسُوْلٍ : کسی رسول کے لیے اَنْ : کہ يَّاْتِيَ : لائے بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی اِلَّا : بغیر بِاِذْنِ اللّٰهِ : اللہ کی اجازت سے لِكُلِّ اَجَلٍ : ہر وعدہ کے لیے كِتَابٌ : ایک تحریر
اور بالیقین آپ سے قبل ہم نے پیغمبر بھیجے اور ان کے لئے بیویاں اور بچے بھی رکھے،76۔ اور کسی رسول کے بس میں یہ نہیں کہ ایک آیت بھی بغیر اللہ کے حکم کے لاسکے،77۔ ہر زمانہ کے لئے ایک کتاب ہوتی ہے،78۔
76۔ (اور یہ عیالداری کمالات نبوت کے ذرا بھی منافی نہیں تو پھر بعض احمقوں کو آپ ﷺ کے صاحب ازواج واولاد ہونے پر کیا اعتراض ہورہا ہے ؟ ) آیت میں یہ بتایا ہے کہ سلسلۂ رسالت تو بہت قدیم ہے اور آپ کا دعوئے رسالت دنیا کی تاریخ میں کوئی انوکھا واقعہ نہیں، نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم خلیل (علیہ السلام) ، اسحاق واسماعیل، علیہ السلامیعقوب (علیہ السلام) وموسی کلیم (علیہ السلام) ، داؤد (علیہ السلام) وسلیمان (علیہ السلام) آخر ان سب کے حالات تاریخ میں محفوظ ہیں، یہ سب حضرات عیال دار ہی ہوئے ہیں، پھر آخر آپ ﷺ کی عیال داری پر اعتراض کیوں ہے ؟ آیت میں تردید ہے، بودھ مت اور مروجہ مسیحیت اور دوسرے مذاہب جاہلی کی جہاں خانہ داری اور عیال داری کی زندگی کو تقرب الہی و خدا رسی کے منافی سمجھا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔ آیت میں بڑی عبرت وبصیرت کا سبق ہمارے زمانہ کے ” مجرد “ اور ” تارک الدنیا “ مشائخ اور اہل خانقاہ کے لئے ہے، جنہوں نے شادی بیاہ، بیوی اور اولاد کو کمالات ولایت وروحانیت کے منافی قرار دے لیا ہے ! 77۔ (خواہ وہ آیت مکتوبی تنزیلی ہو یا آیت تکوینی ہو معجزہ وخارق) (آیت) ” ایۃ “۔ کے دو مختلف معنی ہیں ایک تو آیت قرآنی یا حکم الہی، دوسرے نشانی یا معجزہ۔ یہاں مراد دونوں ہوسکتے ہیں، یعنی کوئی رسول نہ اپنی طرف سے کوئی تنزیل الہی لاسکتا ہے اور نہ کوئی معجزہ، اکابر تفسیر سے منقول بھی دونوں معنی ہیں، لیکن آگے جو مضمون آرہا ہے اس سے مناسب ترمعنی آیت مکتوبی وتنزیلی ہی کے ٹھیرتے ہیں، قد یراد بالایۃ ایۃ الکتابیۃ النازلۃ بالحکم علی وفق مراد المرسل الیھم وھو اوفق بما بعد (روح) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت سے مطالبہ خوارق کی ممانعت نکلتی ہے اور جب اس کی ممانعت پیغمبروں سے ہے جن کا صاحب خوارق ہونا ضروری ہے تو اولیاء سے تو اس کی ممانعت بدرجہ اولی ٹھیرتی ہے، جن کا صاحب خوارق ہونا ضروری ہے ہی نہیں ، 78۔ (اس زمانہ اور اس ماحول کے مطابق ومناسب احکام لانے والی یہاں تک کہ یہ آخری کتاب ایسی آگئی کہ جس کے احکام ومسائل کسی زمانہ اور کسی ماحول کے بھی غیر مطابق نہ ہوں گے) :۔ (آیت) ” لکل اجل “۔ معنی ہر دور کے لئے۔ ہر مدت معین کے لئے۔ (آیت) ” کتاب “۔ کتاب کے معنی حکم کے بھی ہوسکتے ہیں اور حدیث میں بکتاب اللہ بحکم اللہ کے معنی میں آیا بھی ہے، بکتاب اللہ اے بحکم اللہ الذی انزل فی کتابہ وکتبہ علی عبادہ (تاج) اے حکم معین یکتب علی العباد حسب ما تقتضیہ الحکمۃ (روح)
Top