Tafseer-e-Jalalain - An-Nahl : 51
وَ قَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْۤا اِلٰهَیْنِ اثْنَیْنِ١ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَاِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
وَقَالَ : اور کہا اللّٰهُ : اللہ لَا تَتَّخِذُوْٓا : نہ تم بناؤ اِلٰهَيْنِ : دو معبود اثْنَيْنِ : دو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں هُوَ : وہ اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : یکتا فَاِيَّايَ : پس مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : تم مجھ سے ڈرو
اور خدا نے فرمایا ہے کہ دو دو معبود نہ بناؤ۔ معبود وہی ایک ہے تو مجھی سے ڈرتے رہو
آیت نمبر 51 تا 60 ترجمہ : اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ دو معبود نہ بناؤ (اِثْنَیْنِ ) اِلھٰیْنِ کی تاکید ہے معبود تو صرف وہی اکیلا ہے اس کو الوہیت اور وحدانیت کو ثابت کرنے کے لئے لائے ہیں، پس تم سب میرا ہی خوف (ڈر) رکھو، (یعنی) مجھ ہی سے ڈرو نہ کہ کسی اور سے، اس میں غیبت سے تکلم کی جانب التفات ہے آسمانوں اور زمین میں کو کچھ ہے اسی کا ہے ملک اور مخلوق اور غلام ہونے کے اعتبار سے اور طاعت دائماً اسی کی لازم ہے، واصِبًا، دین ٌ سے حال ہے اور اس میں عامل معنی ظرف ہیں (ای ثَبَتَ لہٗ الدین) کیا پھر بھی تم غیر اللہ سے ڈرتے ہو ؟ معبود برحق وہی ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور استہفام انکار یا تو بیخ کے لئے ہے اور تمہارے پاس جینی بھی نعمتیں ہیں سب اللہ ہی کی دی ہوئی ہیں یعنی ان نعمتوں کو اس کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا، اور ما شرطیہ یا موصولہ ہے، پھر اب بھی جب تمہیں کوئی فقرومرض وغیرہ کی مصیبت پیش آجاتی ہے تو تم اسی سے نالہ و فریاد کرتے ہو، یعنی فریاد رسی اور دعاء کے لئے اسی کو زور زور سے پکارتے ہو، اور جہاں اس نے تمہاری مصیبت دور کی تو تم میں کا ایک فریق اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگ جاتا ہے تاکہ ان نعمتوں کی ناشکری کرے جو ہم نے ان کو دی ہیں، اچھا تو بتوں کی عبادت پر اجتماعیت کے ساتھ کچھ مزے اڑالو، اس کا انجام تمہیں معلوم ہو ہی جائیگا اور مشرک ان کے لئے کہ جن کو نہیں جانتے کہ وہ نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور وہ بت ہیں ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے کہ وہ کھیتی اور جانور ہیں یہ کہہ کر حصہ لگاتے ہیں کہ یہ اللہ کے لئے ہے اور یہ ہمارے شرکاء (بتوں) کے لئے ہے واللہ جو تم اللہ پر بہتان لگاتے ہو کہ اسی نے ہمیں (شرک کا) حکم دیا ہے تم سے ضرور باز پرس ہوگی اور اس میں غیبت سے خطاب کی طرف التفات ہے، اور وہ اللہ کے لئے یہ کہ کر کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں بیٹیاں ثابت کرتے ہیں یہ جو عقیدہ رکھتے ہیں اللہ اس سے پاک ہے اور اپنے لئے وہ ثابت کرتے ہیں جو ان کو پسند ہیں یعنی لڑکے، جملہ (مایشتھون) محل میں رفع کے ہے یا جَعَلَ کی وجہ سے محل میں نصب کے ہے (آیت کے) معنی یہ ہیں کہ اللہ کے لئے لڑکیاں پسند کرتے ہیں جنہیں خود (اپنے لئے) ناپسند کرتے ہیں حالانکہ وہ تو اولاد ہی سے پاک ہے، اور اپنے لئے بیٹے ثابت کرتے ہیں جنہیں اپنے لئے پسند کرتے ہیں، (یعنی) بیٹوں کو اپنے لئے محصوص کرتے ہیں، دلیل اللہ کا قول ہے، آپ ان سے پوچھئے کیا تیرے رب کے لئے لڑکیاں ہیں اور ان کے لئے لڑکے ہیں، اور جب ان میں سے کسی کو (اس کے یہاں) لڑکی پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے یعنی ایسا متغیر ہوجاتا ہے جیسا کسی غم زدہ کا، اور وہ (دل ہی دل میں) گھٹنے لگتا ہے یعنی غم سے بھر جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف لڑکیوں کی کیوں نسبت کی جاتی ہے ؟ اور اس بری خبر کی وجہ سے مارے شرم کے اپنی قوم سے چھپا چھپا پھرتا ہے اور اس شش و پنج میں پڑجاتا ہے کہ وہ اس نومولود کے بارے میں کیا کرے ؟ آیا ذلت کے ساتھ بغیر قتل کئے اس کو تھامے رہے (یعنی زندہ رہنے دے) یا اس کو مٹی میں دفن کردے یعنی اسے زندہ درگور کردیے، آہ ! یہ کیسے برے فیصلے کرتے ہیں ! یعنی ان کا یہ حکم کہ اپنے خالق کی طرف بیٹیوں کی نسبت کرتے ہیں جو خود ان کے نزدیک (حقارت) میں اس (انتہائی) درجہ کی ہیں ام کافروں کی جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے بری مثال ہے یعنی بری صفت ہے اور (السؤیٰ ) معنی میں قبیحہ کے ہے اور وہ (بری صفت) ان کا لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا ہے ان سے نکاح کی حاجت کے باوجود اور اللہ کی تو بہت ہی بلند صفت ہے (ای الصفۃ العُلیا) اور وہ یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اپنے ملک میں غالب ہے (اور) اپنی مخلوق کے بارے میں باحکمت ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : تاکیدٌ، یعنی اِثْنَیْنِ ، اِلھَٰیْنِ کی تاکید ہے، لا تتخذو اِلھٰیْنِ اثْنَیْن کی ترکیب میں دو قول ہیں اور لفظ اثنین کے بارے میں دو احتمال ہیں، (1) یہ کہ اِثْنَیْنِ اِلھٰین کی تاکید ہے صورت میں لا تتخذوا متعدی بیک مفعول ہوگا اور لا تتخذوا اِلھٰینِ اِثنینِ معبودًا، اِلھٰین مفعول اول ہے اور اثنین اس کی تاکید ہے اور معبودًا مفعول ثانی ہے جو کہ محذوف ہے۔ دوسراقول : یہ کہ اثنین، لا تتخذوا کا مفعول اول ہے مگر اس کو مؤخر کردیا ہے اور الھٰیْنِ مفعول ثانی ہے جو کہ لفظًا مقدم ہے، اصل عبارت یہ ہے لا تتخذوا اثنین الھٰین . عجیب اتفاق : تقریباً تمام مفسرین نے اثنَیْنِ کو الھٰین کی تاکید قرار دیا ہے حالانکہ اِثْنَیْنِ نہ تاکید لفظی میں سے ہے اور نہ تاکید معنوی ہے، صحیح یہ ہے کہ اثنین اِلھٰین کی صفت ہے، ہوسکتا ہے کہ جن حضرات نے اثنین کو تاکید قرار دیا ہے معنی وصفی کی دجہ سے تاکید قرار دیا ہو اس لئے کہ صفت میں بھی تاکید کے معنی ہوتے ہیں، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ کلام میں تقدیم و تاخیر ہے، اصل عبارت اس طرح ہے، لاتتخذوا اثنین الھٰین انما ھو الہٌ واحد (اعراب القرآن) بعض حضرات نے اثنین کو اس تثنیہ کی تاکید قرار دیا ہے جو الھٰین سے مفہوم ہے (جمل) اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ تکرار مبالغہ فی التنفیر کے لئے ہے اسلئے کہ کثرت معافی پر دلالت کرتے ہیں۔ قولہ : اِلھٰین اثنین . سوال : اِلھٰین، تثنیہ ہونے کی وجہ سے خود دو پر دلالت کرتا ہے اس میں معدود کی ضرورت نہیں ہوتی اسی طرح اِلہٌ واحد میں بھی معدود کو ضرورت نہیں ہوتی، اسلئے کہ الھٰین اور اِلٰہٌ عدد اور معدود دونوں پر دلالت کرتے ہیں، البتہ اثنین سے اوپر کے لئے معدود لانا لازمی ہوتا ہے مثلاً رجلٌ ایک آدمی، رجل واحدٌ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اسی طرح رجلین دو آدمی اس میں رجلَین اثنین کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی، بخلاف رجال ثلثٰۃ ونساء ثلٰث کہ ان میں معدود کے ذکر کی ضرورت ہے اسلئے کہ رجال اور نساء مبہم ہیں اس کے ابہام کو دور کرنے کے لئے معدود کی ضرورت ہوتی ہے۔ جواب : اس سوال کا جواب چند طریقہ پر ہے، (1) عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے تقدیر یہ ہے لا تتخذوا اثنین اِلٰھینِ ، (2) شئ جب مستنکر اور قبیح ہوتی ہے اور اس کی قباحت میں مبالغہ مقصود ہوتا ہے تو اس کو کثیر عبارت سے تعبیر کرتے ہیں تاکہ کثرت حروف کثرت معانی پر دلالت کریں۔ قولہ : أتیٰ بہٖ لاِثباتِ الواحدانیۃِ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اِلٰہ خود واحد پر دلالت کرتا ہے پھر واحدٌ لانے کی کیا ضرورت ؟ جواب : صرف اِلہٌ ذکر کرنے سے یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید صرف الوہیت کو ثابت کرنا مقصود ہو، اس لئے واحدٌ کا اضافہ کردیا تاکہ الوہیت اور وحدانیت دونوں پر دلالت ہوجائے۔ لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ لفظ اِلٰہٌ، جنسیت اور وحدت دونوں پر دلالت کرتا ہے لہٰذا واحدٌ کے ساتھ تاکید کی ضرورت نہیں ہے۔ قولہ : الطاعۃ اس میں اشارہ ہے کہ دین بمعنی طاعت ہے نہ کہ بمعنی جزاء اسلئے کہ جزاء دائماً نہیں ہے چونکہ جزاء دار آخرت میں ہوگی۔ قولہ : واصب، یہ وُصُوبٌ (ض) سے اسم فاعل واحد مذکر غائب ہے قائم رہنے والا، ہمیشہ رہنے والا۔ قولہ : حالٌ، یعنی واصبًا، دینٌ سے حال ہے نہ کہ صفت اس لئے کہ نکرہ معرفہ سے صفت واقع نہیں ہوتا اور عامل اس میں وہ فعل ہے جو جار مجرور سے مفہوم ہے ای استقرَّ ، یاثَبَتَ ، اور بعض نے ثَبَتَ یا استقرَّ کی ضمیر مستتر سے حال قراردیا ہے، معنی دونوں صورتوں میں ایک ہی ہیں، تقدیر عبارت یہ ہے، استقر الدین وَثَبَتَ لہ حال کو نہ دائماً. قولہ : تَجْأرُؤنَ تم فریاد کرتے ہو، تم آواز بلند کرتے ہو، الجُوَار، رفع الصوت فی الدعاء مضارع جمع مذکر حاظر۔ قولہ : ولا تدعون غیرہ، اس اضافہ کا مقصد الیہ تجأرون میں ظرف کی تقدیم کے فائدہ (یعنی تخصیص) کی طرف اشارہ ہے۔ قولہ : امر تھدید، یعنی فَتَمَتَّعوا میں امر تہدید کے لئے ہے۔ قولہ : لِما لا یعلمونَ اَنَّھا، یعلمون کی ضمیر مشرکین کی طرف راجح ہے، اور ما کی طرف لوٹنے والی ضمیر محذوف یہ ہے جس کو علامہ سیوطی (رح) تعالیٰ نے اَنَّھا، سے ظاہر کردیا ہے، لہٰذا عدم کا اعتراض ختم ہوگیا تقدیر عبارت یہ ہے لا یعلمونھا اَنَّھا اٰلِھۃ و یعتقدون فیھا اَنَّھا تضّرو تنفع ولیس کذلک لَاَِ نّھا جماد لا تنفع ولا تضرّ. قولہ : والجملۃ فی محل رفعٍ او نصبٍ بیجعل یعنی ” ولَھُمْ مایَشتھون “ میں دو اعراب کا ئز ہیں اول مایشتھون جملہ ہو کر محل میں رفع کے اور لَھُمْ محذوف ثابتٌ وغیرہ کے متعلق ہو کر خبر مقدم، اور البنات پر عطف کی وجہ سے یجعل کا مفعول ہونے کی وجہ سے نصب ہے قولہ : سبحانہ، یہ معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان جملہ معترضہ ہے، نہ کہ فضل بالا جنبی۔ قولہ : یختار ونھا، نسخ متداولہ میں یہی ہے اور ظاہر یہ ہے یختارونھم، ہونا چاہیے اس لئے کہ ضمیر ابناء کی طرف راجع ہے۔ قولہ : اَلَّذِیْنَ یختارون یہ اضافہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ یجعلون کی ضمیر فاعل جو کہ کفار کی طرف راجع ہے اور مفعول کی ضمیر جو کہ لَھُمْ ہے، دونوں کا مصداق ایک ہے اور وہ کفار ہیں، حالانکہ علم نحو کا قاعدہ ہے کہ فاعل اور مفعول کی ضمیروں کا متعدد ہونا نفس کے واسطہ کے بغیر جائز نہیں ہے سوائے باب ظَنَّ اور اس کے اخوات کے یہی وجہ ہے کہ زید ضربہ جائز نہیں ہے البتہ زید طنہ قائماً ای نفسہ کہنا درست ہے۔ جواب : الذین یختارون سے اسی سوال کا جواب دیا ہے کہ یجعلون بمعنی یختارون ہے اس لئے کہ اختیار دو مفعولوں کا تقاضا نہیں کرتا اور ایک مفعول مایشتھون ہت، لہٰذا لام اجل کے معنی میں ہوگا۔ قولہ : یَئِدُ ، (ض) وَأدَیَئِدُ ، زندہ درگور کرنا۔ قولہ : بمعنی القبیحۃ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ مثل صفت مؤنث ہے اور السَوْء مذکر ہے حالانکہ موصوف صفت ضروری ہے، جواب کا حاصل یہ ہے اَلسّوْء، السُّواٰیٰ ، قبیحۃ کے معنی میں ہے لہٰذا موافقت موجود ہے۔ قولہ : الصفۃ العلیا یہ اضافہ بھی اسی قسم کے سوال کا جواب ہے۔ تفسیر وتشریح قال۔۔۔ اثنینِ ، قرآن مجید جس طرح ہر قسم کے شرک کی نفی کرتا ہے اسی طرح ثنویت کی بھی نفی کرتا ہے جس طرح بہت سے فرقے متعدد معبودوں کے قائل ہیں اسی طرح ایک مجوسی فرقہ دو خداؤں کا قائل ہے ایک یزدان یعنی خدائے نور و خیر، دوسرا اہرمن خدائے ظلمت و شر۔ ہندوستان میں ان ہی لوگوں کو پارسی اور آتش پرست کہتے ہیں اس کا بڑا مرکز بمبئی میں ہے جہاں ان کی بڑی تعداد ہے یہ لوگ اپنی نسبت زرتشت کی جانب کرتے ہیں زرتشت ان کے عقیدہ کے مطابق پیغمبر تھے ان کا زمانہ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے قبل کا ہے یہ لوگ خیر کا خالق یزدان کو اور شر کا خالق اہرمن کو مانتے ہیں ان کے مذہب و اخلاق کو مزدک نے بڑی طرح مسخ کردیا تھا حتی کہ حقیقی بہن سے بھی ان کے نکاح جائز تھا، مسلمانوں میں بھی تقریباً آٹھ سو سال پہلے ایک فرقہ پیدا ہوا تھا جو باطنی کے نام سے مشہور تھا اس کو قرامطہ بھی کہتے تھے اس فرقہ کا ایک مشہور پیشوا گذرا ہے جس کا نام عبید اللہ بن حسن قیروانی ہے اس کے یہاں بھی سگی بہن سے نکاح جائز تھا۔ غرضیکہ اس آیت میں مجوسی کے عقیدۂ کی تردید کی گئی ہے اس کے ضمن میں عقیدۂ تثلیث اور عقیدۂ تعدد کی خود بخود نفی ہوجاتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود ہوتا تو یہ عالم قائم ہی نہیں رہ سکتا تھا ” لو کان فیما اٰلِھَۃ اِلَّا اللہ لَفَسَدتا “ (سورۂ انبیاء) اس لئے تعداد اِلٰہ کا عقیدہ باطل ہے، جب خالق کائنات ایک ہے اور وہی بلا شرکت غیر تمام کائنات کا نظام چلا رہا ہے تو معبود بھی وہی ہے جو اکیلا ہے۔ وَلَہ۔۔۔ واصباً ، اسی کی اطاعت دائمی اور لازم ہے، وَاصب کے معنی ہمیشگی اور دائمی کے ہیں، ولھم عذاب واصب ان کے لئے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ (الصافات) جب سب نعمتوں کا دینے والا اللہ ہی ہے تو پھر بندگی کسی اور کی کیوں ؟ اس کے علاوہ اللہ کے ایک ہونے کا عقیدہ قلب ووجدان کی گہرائیوں میں فطری طور پر راسخ اور توحید کی ایک صریح شہادت تمہارے نفس میں موجود ہے جو اس وقت ابھر کر سامنے آجاتی ہے ہر طرف سے مایوسی کے بادل گہرے ہوجاتے ہیں اور مصیبت کے وقت اصل فطرت نمودار ہونے لگتی ہے جو اللہ کے سوا کسی اِلٰہ کسی رب، اور کسی مالک ذی اختیار کو نہیں جانتی، تخلیق کی ابتداء کے متعلق عرب کے مشرکین اور ہر جگہ کا ہر مشرک جانتا ہی ہے کہ یہ صرف اللہ ہی کا کام ہے اس کے شریکوں میں سے اس کام میں کسی کا کوئی حصہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ مصیبت کے وقت جب ہر طرف سے مایوسی اور ناامیدی ہوجاتی ہے تو اس وقت صرف معبود ہی یاد اتا ہے اور اسی سے فریاد کرتا ہے۔ ثم۔۔۔ الخ، لیکن انسان بھی کتنا نا شکرا ہے کہ تکلیف و مصیبت کے دور ہوتے ہی پھر رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ ویجعلون۔۔۔۔ نصیبًا الخ یعنی جس کو یہ حاجت روا مشکل کشا سمجھتے ہیں وہ پتھر کی مورتیاں ہیں یا جنات و شیاطین ہیں جن کی حقیقت کا سن کو علم ہی نہیں اسی طرح قبروں میں مدفون لوگوں کی حقیقت بھی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ان کے ساتھ وہاں کیا معاملہ ہورہا ہے ؟ وہ اللہ کے پسندیدہ افراد ہیں یا کسی دوسری فہرست میں ہیں ؟ ان باتوں کو کوئی نہیں جانتا، لیکن ان ظالموں نے ان کے لئے نذر و نیاز چڑھاوا اور پر شاد کے طور پر حصہ مقرر کرلیا ہے، بلکہ اگر اللہ کا حصہ رہ جائے تو رہ جائے، ان کے حصہ میں کمی نہیں کرسکتے، جیسا کہ سورة انعام میں بیان کیا گیا ہے۔ ویجعلون۔۔۔ البنات، عرب کے بعض قبیلے (خزاعہ اور کنانہ) فرشتوں کی عبادت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں، یعنی ایک ظلم تو یہ کہ اللہ کی اولاد قرار دی جبکہ اس کی کوئی اولاد نہیں اور پھر اولاد میں مؤنث جسے وہ خود اپنے لئے بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ وَاِذَا۔۔۔۔ کظیم یعنی لڑکی کی ولادت کی خبر سن کر ان کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ رنگ فق ہوجاتا ہے چہرے پر سیاہی چھا جاتی ہے اور شرم کے مارے لوگوں سے چھپا پھرتا ہے، اور اللہ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں یہ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں ؟ یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بھی لڑکوں کے مقابلہ میں لڑکیوں کو حقیر اور کم تر سمجھتا ہے، نہیں، اللہ کے یہاں جنس کی بنیاد پر حقارت کا کوئی تصور نہیں ہے یہاں تو صرف عربوں کی اس ناانصافی اور سراسر غیر معقول رویّے کی وضاحت مقصود ہے، جو انہوں نے اللہ کے ساتھ اختیار کررکھا تھا۔ لِلَّذِیْنَ ۔۔۔ لآخرۃِ ، کافروں کے برے اعمال بیان کئے گئے ہیں یہ ان ہی کی بری مثال یا صفت ہے یعنی جہل و کفر کی صفت، یا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بیوی اور اولاد جو یہ ٹھہراتے ہیں یہ بری مثال ہے جو یہ منکرین آخرت اللہ کے لئے بیان کرتے ہیں، یعنی اللہ کی ہر صفت، خلوق کے مقابلہ میں اعلیٰ و برتر ہے، مثلاً اس کا علم وسیع ہے اس کی قدرت لامتناہی ہے، اس کی جو دو عطا بےنظیر ہے۔
Top