Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - An-Nahl : 51
وَ قَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْۤا اِلٰهَیْنِ اثْنَیْنِ١ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَاِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
وَقَالَ
: اور کہا
اللّٰهُ
: اللہ
لَا تَتَّخِذُوْٓا
: نہ تم بناؤ
اِلٰهَيْنِ
: دو معبود
اثْنَيْنِ
: دو
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
هُوَ
: وہ
اِلٰهٌ
: معبود
وَّاحِدٌ
: یکتا
فَاِيَّايَ
: پس مجھ ہی سے
فَارْهَبُوْنِ
: تم مجھ سے ڈرو
اور خدا نے فرمایا ہے کہ دو دو معبود نہ بناؤ۔ معبود وہی ایک ہے تو مجھی سے ڈرتے رہو
آیت نمبر 51 تا 60 ترجمہ : اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ دو معبود نہ بناؤ (اِثْنَیْنِ ) اِلھٰیْنِ کی تاکید ہے معبود تو صرف وہی اکیلا ہے اس کو الوہیت اور وحدانیت کو ثابت کرنے کے لئے لائے ہیں، پس تم سب میرا ہی خوف (ڈر) رکھو، (یعنی) مجھ ہی سے ڈرو نہ کہ کسی اور سے، اس میں غیبت سے تکلم کی جانب التفات ہے آسمانوں اور زمین میں کو کچھ ہے اسی کا ہے ملک اور مخلوق اور غلام ہونے کے اعتبار سے اور طاعت دائماً اسی کی لازم ہے، واصِبًا، دین ٌ سے حال ہے اور اس میں عامل معنی ظرف ہیں (ای ثَبَتَ لہٗ الدین) کیا پھر بھی تم غیر اللہ سے ڈرتے ہو ؟ معبود برحق وہی ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور استہفام انکار یا تو بیخ کے لئے ہے اور تمہارے پاس جینی بھی نعمتیں ہیں سب اللہ ہی کی دی ہوئی ہیں یعنی ان نعمتوں کو اس کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا، اور ما شرطیہ یا موصولہ ہے، پھر اب بھی جب تمہیں کوئی فقرومرض وغیرہ کی مصیبت پیش آجاتی ہے تو تم اسی سے نالہ و فریاد کرتے ہو، یعنی فریاد رسی اور دعاء کے لئے اسی کو زور زور سے پکارتے ہو، اور جہاں اس نے تمہاری مصیبت دور کی تو تم میں کا ایک فریق اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگ جاتا ہے تاکہ ان نعمتوں کی ناشکری کرے جو ہم نے ان کو دی ہیں، اچھا تو بتوں کی عبادت پر اجتماعیت کے ساتھ کچھ مزے اڑالو، اس کا انجام تمہیں معلوم ہو ہی جائیگا اور مشرک ان کے لئے کہ جن کو نہیں جانتے کہ وہ نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور وہ بت ہیں ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے کہ وہ کھیتی اور جانور ہیں یہ کہہ کر حصہ لگاتے ہیں کہ یہ اللہ کے لئے ہے اور یہ ہمارے شرکاء (بتوں) کے لئے ہے واللہ جو تم اللہ پر بہتان لگاتے ہو کہ اسی نے ہمیں (شرک کا) حکم دیا ہے تم سے ضرور باز پرس ہوگی اور اس میں غیبت سے خطاب کی طرف التفات ہے، اور وہ اللہ کے لئے یہ کہ کر کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں بیٹیاں ثابت کرتے ہیں یہ جو عقیدہ رکھتے ہیں اللہ اس سے پاک ہے اور اپنے لئے وہ ثابت کرتے ہیں جو ان کو پسند ہیں یعنی لڑکے، جملہ (مایشتھون) محل میں رفع کے ہے یا جَعَلَ کی وجہ سے محل میں نصب کے ہے (آیت کے) معنی یہ ہیں کہ اللہ کے لئے لڑکیاں پسند کرتے ہیں جنہیں خود (اپنے لئے) ناپسند کرتے ہیں حالانکہ وہ تو اولاد ہی سے پاک ہے، اور اپنے لئے بیٹے ثابت کرتے ہیں جنہیں اپنے لئے پسند کرتے ہیں، (یعنی) بیٹوں کو اپنے لئے محصوص کرتے ہیں، دلیل اللہ کا قول ہے، آپ ان سے پوچھئے کیا تیرے رب کے لئے لڑکیاں ہیں اور ان کے لئے لڑکے ہیں، اور جب ان میں سے کسی کو (اس کے یہاں) لڑکی پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے یعنی ایسا متغیر ہوجاتا ہے جیسا کسی غم زدہ کا، اور وہ (دل ہی دل میں) گھٹنے لگتا ہے یعنی غم سے بھر جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف لڑکیوں کی کیوں نسبت کی جاتی ہے ؟ اور اس بری خبر کی وجہ سے مارے شرم کے اپنی قوم سے چھپا چھپا پھرتا ہے اور اس شش و پنج میں پڑجاتا ہے کہ وہ اس نومولود کے بارے میں کیا کرے ؟ آیا ذلت کے ساتھ بغیر قتل کئے اس کو تھامے رہے (یعنی زندہ رہنے دے) یا اس کو مٹی میں دفن کردے یعنی اسے زندہ درگور کردیے، آہ ! یہ کیسے برے فیصلے کرتے ہیں ! یعنی ان کا یہ حکم کہ اپنے خالق کی طرف بیٹیوں کی نسبت کرتے ہیں جو خود ان کے نزدیک (حقارت) میں اس (انتہائی) درجہ کی ہیں ام کافروں کی جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے بری مثال ہے یعنی بری صفت ہے اور (السؤیٰ ) معنی میں قبیحہ کے ہے اور وہ (بری صفت) ان کا لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا ہے ان سے نکاح کی حاجت کے باوجود اور اللہ کی تو بہت ہی بلند صفت ہے (ای الصفۃ العُلیا) اور وہ یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اپنے ملک میں غالب ہے (اور) اپنی مخلوق کے بارے میں باحکمت ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : تاکیدٌ، یعنی اِثْنَیْنِ ، اِلھَٰیْنِ کی تاکید ہے، لا تتخذو اِلھٰیْنِ اثْنَیْن کی ترکیب میں دو قول ہیں اور لفظ اثنین کے بارے میں دو احتمال ہیں، (1) یہ کہ اِثْنَیْنِ اِلھٰین کی تاکید ہے صورت میں لا تتخذوا متعدی بیک مفعول ہوگا اور لا تتخذوا اِلھٰینِ اِثنینِ معبودًا، اِلھٰین مفعول اول ہے اور اثنین اس کی تاکید ہے اور معبودًا مفعول ثانی ہے جو کہ محذوف ہے۔ دوسراقول : یہ کہ اثنین، لا تتخذوا کا مفعول اول ہے مگر اس کو مؤخر کردیا ہے اور الھٰیْنِ مفعول ثانی ہے جو کہ لفظًا مقدم ہے، اصل عبارت یہ ہے لا تتخذوا اثنین الھٰین . عجیب اتفاق : تقریباً تمام مفسرین نے اثنَیْنِ کو الھٰین کی تاکید قرار دیا ہے حالانکہ اِثْنَیْنِ نہ تاکید لفظی میں سے ہے اور نہ تاکید معنوی ہے، صحیح یہ ہے کہ اثنین اِلھٰین کی صفت ہے، ہوسکتا ہے کہ جن حضرات نے اثنین کو تاکید قرار دیا ہے معنی وصفی کی دجہ سے تاکید قرار دیا ہو اس لئے کہ صفت میں بھی تاکید کے معنی ہوتے ہیں، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ کلام میں تقدیم و تاخیر ہے، اصل عبارت اس طرح ہے، لاتتخذوا اثنین الھٰین انما ھو الہٌ واحد (اعراب القرآن) بعض حضرات نے اثنین کو اس تثنیہ کی تاکید قرار دیا ہے جو الھٰین سے مفہوم ہے (جمل) اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ تکرار مبالغہ فی التنفیر کے لئے ہے اسلئے کہ کثرت معافی پر دلالت کرتے ہیں۔ قولہ : اِلھٰین اثنین . سوال : اِلھٰین، تثنیہ ہونے کی وجہ سے خود دو پر دلالت کرتا ہے اس میں معدود کی ضرورت نہیں ہوتی اسی طرح اِلہٌ واحد میں بھی معدود کو ضرورت نہیں ہوتی، اسلئے کہ الھٰین اور اِلٰہٌ عدد اور معدود دونوں پر دلالت کرتے ہیں، البتہ اثنین سے اوپر کے لئے معدود لانا لازمی ہوتا ہے مثلاً رجلٌ ایک آدمی، رجل واحدٌ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اسی طرح رجلین دو آدمی اس میں رجلَین اثنین کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی، بخلاف رجال ثلثٰۃ ونساء ثلٰث کہ ان میں معدود کے ذکر کی ضرورت ہے اسلئے کہ رجال اور نساء مبہم ہیں اس کے ابہام کو دور کرنے کے لئے معدود کی ضرورت ہوتی ہے۔ جواب : اس سوال کا جواب چند طریقہ پر ہے، (1) عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے تقدیر یہ ہے لا تتخذوا اثنین اِلٰھینِ ، (2) شئ جب مستنکر اور قبیح ہوتی ہے اور اس کی قباحت میں مبالغہ مقصود ہوتا ہے تو اس کو کثیر عبارت سے تعبیر کرتے ہیں تاکہ کثرت حروف کثرت معانی پر دلالت کریں۔ قولہ : أتیٰ بہٖ لاِثباتِ الواحدانیۃِ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اِلٰہ خود واحد پر دلالت کرتا ہے پھر واحدٌ لانے کی کیا ضرورت ؟ جواب : صرف اِلہٌ ذکر کرنے سے یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید صرف الوہیت کو ثابت کرنا مقصود ہو، اس لئے واحدٌ کا اضافہ کردیا تاکہ الوہیت اور وحدانیت دونوں پر دلالت ہوجائے۔ لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ لفظ اِلٰہٌ، جنسیت اور وحدت دونوں پر دلالت کرتا ہے لہٰذا واحدٌ کے ساتھ تاکید کی ضرورت نہیں ہے۔ قولہ : الطاعۃ اس میں اشارہ ہے کہ دین بمعنی طاعت ہے نہ کہ بمعنی جزاء اسلئے کہ جزاء دائماً نہیں ہے چونکہ جزاء دار آخرت میں ہوگی۔ قولہ : واصب، یہ وُصُوبٌ (ض) سے اسم فاعل واحد مذکر غائب ہے قائم رہنے والا، ہمیشہ رہنے والا۔ قولہ : حالٌ، یعنی واصبًا، دینٌ سے حال ہے نہ کہ صفت اس لئے کہ نکرہ معرفہ سے صفت واقع نہیں ہوتا اور عامل اس میں وہ فعل ہے جو جار مجرور سے مفہوم ہے ای استقرَّ ، یاثَبَتَ ، اور بعض نے ثَبَتَ یا استقرَّ کی ضمیر مستتر سے حال قراردیا ہے، معنی دونوں صورتوں میں ایک ہی ہیں، تقدیر عبارت یہ ہے، استقر الدین وَثَبَتَ لہ حال کو نہ دائماً. قولہ : تَجْأرُؤنَ تم فریاد کرتے ہو، تم آواز بلند کرتے ہو، الجُوَار، رفع الصوت فی الدعاء مضارع جمع مذکر حاظر۔ قولہ : ولا تدعون غیرہ، اس اضافہ کا مقصد الیہ تجأرون میں ظرف کی تقدیم کے فائدہ (یعنی تخصیص) کی طرف اشارہ ہے۔ قولہ : امر تھدید، یعنی فَتَمَتَّعوا میں امر تہدید کے لئے ہے۔ قولہ : لِما لا یعلمونَ اَنَّھا، یعلمون کی ضمیر مشرکین کی طرف راجح ہے، اور ما کی طرف لوٹنے والی ضمیر محذوف یہ ہے جس کو علامہ سیوطی (رح) تعالیٰ نے اَنَّھا، سے ظاہر کردیا ہے، لہٰذا عدم کا اعتراض ختم ہوگیا تقدیر عبارت یہ ہے لا یعلمونھا اَنَّھا اٰلِھۃ و یعتقدون فیھا اَنَّھا تضّرو تنفع ولیس کذلک لَاَِ نّھا جماد لا تنفع ولا تضرّ. قولہ : والجملۃ فی محل رفعٍ او نصبٍ بیجعل یعنی ” ولَھُمْ مایَشتھون “ میں دو اعراب کا ئز ہیں اول مایشتھون جملہ ہو کر محل میں رفع کے اور لَھُمْ محذوف ثابتٌ وغیرہ کے متعلق ہو کر خبر مقدم، اور البنات پر عطف کی وجہ سے یجعل کا مفعول ہونے کی وجہ سے نصب ہے قولہ : سبحانہ، یہ معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان جملہ معترضہ ہے، نہ کہ فضل بالا جنبی۔ قولہ : یختار ونھا، نسخ متداولہ میں یہی ہے اور ظاہر یہ ہے یختارونھم، ہونا چاہیے اس لئے کہ ضمیر ابناء کی طرف راجع ہے۔ قولہ : اَلَّذِیْنَ یختارون یہ اضافہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ یجعلون کی ضمیر فاعل جو کہ کفار کی طرف راجع ہے اور مفعول کی ضمیر جو کہ لَھُمْ ہے، دونوں کا مصداق ایک ہے اور وہ کفار ہیں، حالانکہ علم نحو کا قاعدہ ہے کہ فاعل اور مفعول کی ضمیروں کا متعدد ہونا نفس کے واسطہ کے بغیر جائز نہیں ہے سوائے باب ظَنَّ اور اس کے اخوات کے یہی وجہ ہے کہ زید ضربہ جائز نہیں ہے البتہ زید طنہ قائماً ای نفسہ کہنا درست ہے۔ جواب : الذین یختارون سے اسی سوال کا جواب دیا ہے کہ یجعلون بمعنی یختارون ہے اس لئے کہ اختیار دو مفعولوں کا تقاضا نہیں کرتا اور ایک مفعول مایشتھون ہت، لہٰذا لام اجل کے معنی میں ہوگا۔ قولہ : یَئِدُ ، (ض) وَأدَیَئِدُ ، زندہ درگور کرنا۔ قولہ : بمعنی القبیحۃ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ مثل صفت مؤنث ہے اور السَوْء مذکر ہے حالانکہ موصوف صفت ضروری ہے، جواب کا حاصل یہ ہے اَلسّوْء، السُّواٰیٰ ، قبیحۃ کے معنی میں ہے لہٰذا موافقت موجود ہے۔ قولہ : الصفۃ العلیا یہ اضافہ بھی اسی قسم کے سوال کا جواب ہے۔ تفسیر وتشریح قال۔۔۔ اثنینِ ، قرآن مجید جس طرح ہر قسم کے شرک کی نفی کرتا ہے اسی طرح ثنویت کی بھی نفی کرتا ہے جس طرح بہت سے فرقے متعدد معبودوں کے قائل ہیں اسی طرح ایک مجوسی فرقہ دو خداؤں کا قائل ہے ایک یزدان یعنی خدائے نور و خیر، دوسرا اہرمن خدائے ظلمت و شر۔ ہندوستان میں ان ہی لوگوں کو پارسی اور آتش پرست کہتے ہیں اس کا بڑا مرکز بمبئی میں ہے جہاں ان کی بڑی تعداد ہے یہ لوگ اپنی نسبت زرتشت کی جانب کرتے ہیں زرتشت ان کے عقیدہ کے مطابق پیغمبر تھے ان کا زمانہ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے قبل کا ہے یہ لوگ خیر کا خالق یزدان کو اور شر کا خالق اہرمن کو مانتے ہیں ان کے مذہب و اخلاق کو مزدک نے بڑی طرح مسخ کردیا تھا حتی کہ حقیقی بہن سے بھی ان کے نکاح جائز تھا، مسلمانوں میں بھی تقریباً آٹھ سو سال پہلے ایک فرقہ پیدا ہوا تھا جو باطنی کے نام سے مشہور تھا اس کو قرامطہ بھی کہتے تھے اس فرقہ کا ایک مشہور پیشوا گذرا ہے جس کا نام عبید اللہ بن حسن قیروانی ہے اس کے یہاں بھی سگی بہن سے نکاح جائز تھا۔ غرضیکہ اس آیت میں مجوسی کے عقیدۂ کی تردید کی گئی ہے اس کے ضمن میں عقیدۂ تثلیث اور عقیدۂ تعدد کی خود بخود نفی ہوجاتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود ہوتا تو یہ عالم قائم ہی نہیں رہ سکتا تھا ” لو کان فیما اٰلِھَۃ اِلَّا اللہ لَفَسَدتا “ (سورۂ انبیاء) اس لئے تعداد اِلٰہ کا عقیدہ باطل ہے، جب خالق کائنات ایک ہے اور وہی بلا شرکت غیر تمام کائنات کا نظام چلا رہا ہے تو معبود بھی وہی ہے جو اکیلا ہے۔ وَلَہ۔۔۔ واصباً ، اسی کی اطاعت دائمی اور لازم ہے، وَاصب کے معنی ہمیشگی اور دائمی کے ہیں، ولھم عذاب واصب ان کے لئے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ (الصافات) جب سب نعمتوں کا دینے والا اللہ ہی ہے تو پھر بندگی کسی اور کی کیوں ؟ اس کے علاوہ اللہ کے ایک ہونے کا عقیدہ قلب ووجدان کی گہرائیوں میں فطری طور پر راسخ اور توحید کی ایک صریح شہادت تمہارے نفس میں موجود ہے جو اس وقت ابھر کر سامنے آجاتی ہے ہر طرف سے مایوسی کے بادل گہرے ہوجاتے ہیں اور مصیبت کے وقت اصل فطرت نمودار ہونے لگتی ہے جو اللہ کے سوا کسی اِلٰہ کسی رب، اور کسی مالک ذی اختیار کو نہیں جانتی، تخلیق کی ابتداء کے متعلق عرب کے مشرکین اور ہر جگہ کا ہر مشرک جانتا ہی ہے کہ یہ صرف اللہ ہی کا کام ہے اس کے شریکوں میں سے اس کام میں کسی کا کوئی حصہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ مصیبت کے وقت جب ہر طرف سے مایوسی اور ناامیدی ہوجاتی ہے تو اس وقت صرف معبود ہی یاد اتا ہے اور اسی سے فریاد کرتا ہے۔ ثم۔۔۔ الخ، لیکن انسان بھی کتنا نا شکرا ہے کہ تکلیف و مصیبت کے دور ہوتے ہی پھر رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ ویجعلون۔۔۔۔ نصیبًا الخ یعنی جس کو یہ حاجت روا مشکل کشا سمجھتے ہیں وہ پتھر کی مورتیاں ہیں یا جنات و شیاطین ہیں جن کی حقیقت کا سن کو علم ہی نہیں اسی طرح قبروں میں مدفون لوگوں کی حقیقت بھی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ان کے ساتھ وہاں کیا معاملہ ہورہا ہے ؟ وہ اللہ کے پسندیدہ افراد ہیں یا کسی دوسری فہرست میں ہیں ؟ ان باتوں کو کوئی نہیں جانتا، لیکن ان ظالموں نے ان کے لئے نذر و نیاز چڑھاوا اور پر شاد کے طور پر حصہ مقرر کرلیا ہے، بلکہ اگر اللہ کا حصہ رہ جائے تو رہ جائے، ان کے حصہ میں کمی نہیں کرسکتے، جیسا کہ سورة انعام میں بیان کیا گیا ہے۔ ویجعلون۔۔۔ البنات، عرب کے بعض قبیلے (خزاعہ اور کنانہ) فرشتوں کی عبادت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں، یعنی ایک ظلم تو یہ کہ اللہ کی اولاد قرار دی جبکہ اس کی کوئی اولاد نہیں اور پھر اولاد میں مؤنث جسے وہ خود اپنے لئے بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ وَاِذَا۔۔۔۔ کظیم یعنی لڑکی کی ولادت کی خبر سن کر ان کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ رنگ فق ہوجاتا ہے چہرے پر سیاہی چھا جاتی ہے اور شرم کے مارے لوگوں سے چھپا پھرتا ہے، اور اللہ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں یہ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں ؟ یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بھی لڑکوں کے مقابلہ میں لڑکیوں کو حقیر اور کم تر سمجھتا ہے، نہیں، اللہ کے یہاں جنس کی بنیاد پر حقارت کا کوئی تصور نہیں ہے یہاں تو صرف عربوں کی اس ناانصافی اور سراسر غیر معقول رویّے کی وضاحت مقصود ہے، جو انہوں نے اللہ کے ساتھ اختیار کررکھا تھا۔ لِلَّذِیْنَ ۔۔۔ لآخرۃِ ، کافروں کے برے اعمال بیان کئے گئے ہیں یہ ان ہی کی بری مثال یا صفت ہے یعنی جہل و کفر کی صفت، یا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بیوی اور اولاد جو یہ ٹھہراتے ہیں یہ بری مثال ہے جو یہ منکرین آخرت اللہ کے لئے بیان کرتے ہیں، یعنی اللہ کی ہر صفت، خلوق کے مقابلہ میں اعلیٰ و برتر ہے، مثلاً اس کا علم وسیع ہے اس کی قدرت لامتناہی ہے، اس کی جو دو عطا بےنظیر ہے۔
Top