Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا
: اور انہوں نے پیروی کی
مَا تَتْلُوْ
: جو پڑھتے تھے
الشَّيَاطِیْنُ
: شیاطین
عَلٰى
: میں
مُلْكِ
: بادشاہت
سُلَيْمَانَ
: سلیمان
وَمَا کَفَرَ
: اور کفرنہ کیا
سُلَيْمَانُ
: سلیمان
وَلَٰكِنَّ
: لیکن
الشَّيَاطِیْنَ
: شیاطین
کَفَرُوْا
: کفر کیا
يُعَلِّمُوْنَ
: وہ سکھاتے
النَّاسَ السِّحْرَ
: لوگ جادو
وَمَا
: اور جو
أُنْزِلَ
: نازل کیا گیا
عَلَى
: پر
الْمَلَکَيْنِ
: دوفرشتے
بِبَابِلَ
: بابل میں
هَارُوْتَ
: ہاروت
وَ مَارُوْتَ
: اور ماروت
وَمَا يُعَلِّمَانِ
: اور وہ نہ سکھاتے
مِنْ اَحَدٍ
: کسی کو
حَتَّی
: یہاں تک
يَقُوْلَا
: وہ کہہ دیتے
اِنَّمَا نَحْنُ
: ہم صرف
فِتْنَةٌ
: آزمائش
فَلَا
: پس نہ کر
تَكْفُر
: تو کفر
فَيَتَعَلَّمُوْنَ
: سو وہ سیکھتے
مِنْهُمَا
: ان دونوں سے
مَا
: جس سے
يُفَرِّقُوْنَ
: جدائی ڈالتے
بِهٖ
: اس سے
بَيْنَ
: درمیان
الْمَرْءِ
: خاوند
وَ
: اور
زَوْجِهٖ
: اس کی بیوی
وَمَا هُمْ
: اور وہ نہیں
بِضَارِّیْنَ بِهٖ
: نقصان پہنچانے والے اس سے
مِنْ اَحَدٍ
: کسی کو
اِلَّا
: مگر
بِاِذْنِ اللہِ
: اللہ کے حکم سے
وَيَتَعَلَّمُوْنَ
: اور وہ سیکھتے ہیں
مَا يَضُرُّهُمْ
: جو انہیں نقصان پہنچائے
وَلَا يَنْفَعُهُمْ
: اور انہیں نفع نہ دے
وَلَقَدْ
: اور وہ
عَلِمُوْا
: جان چکے
لَمَنِ
: جس نے
اشْتَرَاهُ
: یہ خریدا
مَا
: نہیں
لَهُ
: اس کے لئے
فِي الْاٰخِرَةِ
: آخرت میں
مِنْ خَلَاقٍ
: کوئی حصہ
وَلَبِئْسَ
: اور البتہ برا
مَا
: جو
شَرَوْا
: انہوں نے بیچ دیا
بِهٖ
: اس سے
اَنْفُسَهُمْ
: اپنے آپ کو
لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ
: کاش وہ جانتے ہوتے
اور ان (ہزلیات) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے عہد سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے، اور سلیمان نے مطلق کفر کی بات نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور ان باتوں کے بھی (پیچھے لگ گئے) جو شہر بابل میں دو فرشتوں (یعنی) ہاروت اور ماروت پر اتری تھیں۔ اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو (ذریعہ) آزمائش ہیں تم کفر میں نہ پڑو۔ غرض لوگ ان سے ایسا (جادو) سیکھتے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ اور خدا کے حکم کے سوا وہ اس (جادو) سے کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے تھے۔ اور کچھ ایسے (منتر) سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں (یعنی سحر اور منتر وغیرہ) کا خریدار ہوگا اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور جس چیز کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیج ڈالا وہ بری تھی، کاش وہ (اس بات کو) جانتے
آیت نمبر 102 تا 103 ترجمہ : اور پیچھے لگ گئے (یہود) (اِتَّبَعُوْا) کا عطف نَبذَ ، پر ہے اس (سحر) کے کہ جس کو شیاطین سلیمان (علیہ السلام) کے عہد سلطنت میں پڑھا کرتے تھے، جب سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت ختم ہوگئی تو سحر (کی کتابوں) کو شیاطین نے سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی کے نیچے دفن کردیا تھا، یا اس کے پیچھے پڑگئے جس کو شیاطین چوری سے سن لیا کرتے تھے اور اس میں (اپنی طرف سے) جھوٹ ملا کر کاہنوں کو بتادیا کرتے تھے اور وہ اس کو مدون کرلیا کرتے تھے، اور اس بات کی شہرت ہوگئی، نیز مشہور ہوگیا کہ جنات غیب جانتے ہیں تو سلیمان (علیہ السلام) نے (جادو کی) کتابوں کو جمع کرکے دفن کردیا، چناچہ جب سلیمان (علیہ السلام) کا انتقال ہوگیا تو شیاطین نے لوگوں کو اس کی نشاندہی کردی، چناچہ لوگوں نے اس کو نکال لیا، تو اس میں جادو پایا، تو کہنے لگے (سلیمان (علیہ السلام) نے تمہارے اوپر اسی (جادو) کے بدولت حکمرانی کی، تو ان لوگوں نے اس جادو کو سیکھا اور اپنے انبیاء کی کتابوں کو بالائے طاق رکھ دیا، اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کی براءت کرتے ہوئے اور یہود کی اس بات کو رد کرتے ہوئے : کہ محمد کو دیکھو سلیمان کو نبیوں میں شمار کرتے ہیں حالانکہ وہ محض جادوگر تھے فرمایا اور سلیمان (علیہ السلام) نے کفر نہیں کیا، یعنی عمل سحر نہیں کیا اس لئے کہ (عمل سحر) کفر ہے، لکِنَّ تشدید اور تخفیف کے ساتھ لیکن شیاطین نے کفر کیا، کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے، جملہ (یُعَلّمون الناس السحر) کفروا، کی ضمیر سے حال ہے اور (شیاطین) ان کو وہ علم سحر بھی سکھاتے تھے، اور جو ان دو فرشتوں پر نازل کیا گیا جو (شہر) بابل میں رہتے تھے، اور مَلِکین کو لام کے کسرہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، بابل وسط عراق میں ایک شہر ہے (ان فرشتوں کا نام) ہاروت اور ماروت تھا، یہ مَلَکین، سے بدل یا عطف بیان ہے، ابن عباس ؓ نے فرمایا وہ دونوں جادوگر تھے، خود جادو سکھایا کرتے تھے، اور کہا گیا ہے کہ دو فرشتے تھے، جو جادو کی تعلیم کے لئے اللہ کی جانب سے لوگوں کی آزمائش کے طور پر اتارے گئے تھے اور وہ دونوں (جادو) کسی کو نہیں سکھاتے تھے، مِن زائدہ ہے، مگر نصیحۃً یہ کہہ دیتے تھے، کہ : ہم اللہ کی جانب سے (لوگوں کی) آزمائش ہیں، تاکہ جادو سکھا کر اس کی آزمائش کریں لہٰذا جس نے جادو سیکھا اس نے کفر کیا اور جو سیکھنے سے باز رہا وہ مومن ہے، لہٰذا اس کو سیکھ کر کفر نہ کرو، پھر بھی اگر وہ سیکھنے پر مصر رہتا تو اسے سکھا دیتے، پھر لوگ ان سے وہ علم سیکھتے جس کے ذریعہ بیوی اور اس کے شوہر کے درمیان جدائی کرا دیں بایں طور کہ آپس میں بغض رکھنے لگیں اور یہ جادو کرنے والے اس (جادو) کے ذریعہ کسی کو اللہ کے حکم (اور) ارادہ کے بغیر نقصان نہیں پہنثا سکتے اور یہ لوگ وہ چیز سیکھتے ہیں، جو ان کو آخرت میں نقصان پہنچائے، نفع نہ پہنچائے، اور وہ جادو ہے اور یقیناً یہ یہود لَقَدْ میں لام قسمیہ ہے، بخوبی جانتے ہیں کہ جس نے اس (جادو) کو اختیار کیا یا کتاب اللہ سے بدلا، اس کا آخرت میں جنت سے کچھ حصہ نہیں ہے، لَمَنْ ، میں لام ابتدائیہ ہے جو اپنے ماقبل کو عمل سے مانع ہے اور مَنْ موصولہ ہے، اور یقیناً جس چیز کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو فروخت کیا وہ چیز نہایت بری ہے، یعنی بیچنے والے ہیں اپنے (نفسوں) یعنی اس کے آخرت کے حصہ کو (برا ہے) اس کا سیکھنا، اس لئے کہ اس سیکھنے نے ان کے لئے جہنم کو واجب کردیا اگر یہ لوگ اس عذاب کی حقیقت کو جان لیتے، جس کی طرف یہ جا رہے ہیں تو اس کو نہ سیکھتے، اور اگر یہ یہود نبی اور قرآن پر ایمان لے آتے اور ترک معصیت کرکے اللہ سے ڈرتے مثلاً (ترک) جادو کرکے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو بہترین ثواب ملتا، لَوْ ، کا جواب محذوف ہے اور وہ لَاثِیْبُوْا ہے جس پر لَنَثُوْبَۃٌ (بمعنی ثواب) دلالت کر رہا ہے اور وہ مبتداء ہے اور اس میں لام قسمیہ ہے، اس سے جو انہوں نے اپنے لئے خریدا اگر وہ اس بات کو جان لیتے کہ یہ بہتر ہے، تو جادو کو اجر وثواب پر ترجیح نہ دیتے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وَاتَّبَعُوْا، واؤ عاطفہ ہے، اِتَّبَعُوْا، (اِتِّبَاعٌ) (افتعال) سے ماضی جمع مذکر غائب ہے انہوں نے اتباع کی وہ پیچھے پڑگئے، اس کا عطف نَبَذَ ، پر ہے، اِتَّبَعُوْا، کے اندر ضمیر جو فریق کی طرف راجع ہے وہ اس کا فاعل ہے، مَا، موصولہ اِتَّبعُوْا کا مفعول ہے، تتلوا الشیطین فعل فاعل سے مل کر جملہ ہو کر صلہ۔ سوال : تَتْلُوْا، مضارع کا صیغہ ہے جو کہ حال پر دلالت کرتا ہے حالانکہ نزول آیت کے وقت شیاطین تلاوت نہیں کرتے تھے، اس لئے کہ آپ ﷺ کی بعثت کے بعد شیاطین کے آسمانوں پر جانے پر پابندی لگ گئی تھی۔ جواب : مضارع کا صیغہ حکایت حال ماضیہ کے طور پر استعمال ہوا ہے گویا وہ معاملہ اس وقت نظروں کے سامنے ہو رہا ہے، اسی جواب کی طرف علامہ سیوطی نے تتلوا، کی تفسیر تَلَتْ سے کرکے اشارہ کیا ہے۔ قولہ : اَوْ کَانَتْ تَسْتَرِقُ السَّمْعَ الخ، اَوْ تنویع کے لئے ہے، اس کا عطف معنوی طور پر مِن السحر پر ہے، اور تَتْلُوْا کے تحت ہے اور یہ اختلاف کی طرف اشارہ ہے یعنی شیاطین لوگوں کو سحر پڑھ کر سنایا کرتے تھے، یا جن باتوں کو شیاطین آسمان پر جاکر چوری سے سن آیا کرتے تھے، ان کو پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ قولہ : علی عَھدِ سلیمان، ای فی عھد علیمان، علیٰ بمعنی فی اور یہ بھی احتمال ہے کہ تتلوا، بمعنی تَتَقَوَّلُ (افتراء کرنا) ہو تو پھر علیٰ اپنے حال پر رہے گا اس لئے کہ تَقَوَّلَ کا صلہ علیٰ آتا ہے اس صورت میں متعلق محذوف ہوگا، اس کی تقدیر عبارت اس طرح ہوگی ” وَاتَّبَعُوا ما تَتَقَوَّلُہُ الشیطٰینُ علی اللہ زَمَنَ ملک سلیمان “ اور مِنَ السحر، ما کا بیان ہے عائد محذوف ہوگا تقدیر یہ ہوگی تتلوہُ ۔ قولہ : لَمْ یَعْمَلِ السِّحْرَ ، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد یہ بتایا ہے کہ محض تعلیم سحر کفر نہیں ہے بلکہ عمل بالسحر، کفر ہے۔ قولہ : وَیُعَلِّنُوْنَھُمْ مآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ ، یُعَلِّمُوْنَ ، محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ مَا موصولہ ہے اس کا عطف اَلسِّحْرَ ، پر ہے اور یہ عطف خاص علی العام کے قبیل سے ہے، لہٰذا عطف الشئ علی نفسہٖ کا اعتراض بھی ختم ہوگیا۔ قولہ : ای اُلھِمَاہُ ، یہ اُنْزِل کی تفسیر ہے، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اُنزِل سے وحی کے انزال کا طریقہ مراد نہیں ہے، جس سے عظمت معلوم ہو بلکہ مطلقاً سکھانا مراد ہے۔ قولہ : بِبَابِلَ ، باء بمعنی فی ہے، بابل، ایک عظیم الشان شہر کا نام ہے جو قدیم زمانہ میں دریائے فرات کی دونوں جانب واقع تھا فرات اس کے درمیان سے گزرتا تھا، آج بھی اس کے کھنڈرات موجود ہیں اس کا عرض البلد شمالی 23 درجہ 30 دقیقہ 14 ثانیہ اور طول البلد شرقی 44 درجہ 23 دقیقہ 40 ثانیہ ہے یہ طویل مدت تک سلطنت عراق کا پایہ تخت رہا ہے اور بخت نصر کے زمانہ تک بڑی شان و شوکت کا شہر تھا، 538 قبل مسیح کے بعد سے اس پر ایسی تباہی آئی کہ : ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کا خاتمہ ہوگیا بابل سحر و ساحری میں بہت مشہور ہے یہ عجمہ اور علم ہونے کی وجہ سے غیر منصرف ہے اخفش نے کہا ہے کہ تانیث اور علمیت کی وجہ سے غیر منصرف ہے۔ (لغات القرآن) قولہ : ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ ، یہ دو فرشتوں کے نام ہیں علمیت اور عجمہ ہونے کی وجہ سے غیر منصرف ہیں۔ بعض مفسرین نے دوسری قراءت کی بنا پر ان کو انسا کہا ہے مگر راجح اول ہے۔ قولہ : لامُ ابتداءٍ مُعَلِّقَۃٌ لِمَا قَبْلَھَا مِنَ العمل، لَمَن، میں لام ابتدائیہ ہے، یہ مبتداء پر داخل ہوتا ہے یا مضارع پر داخل ہوتا ہے لیکن جب ماضی پر داخل ہوتا ہے تو، قد، لفظاً معنًا ضروری ہوتا ہے، البتہ جو لام ابتداء کو لام قسم قرار دیتے ہیں ان کے یہاں لام ابتداء کا تصور نہیں ہے۔ (روح المعانی) لَمَن، میں لام ابتداء نے اپنے ماقبل عَلِمْوا، کو عمل سے روک دیا ہے، اس لئے کہ عمل کی صورت میں لام ابتداء کی صدارت باطل ہوجائے گی۔ قولہ : حَظَّھا، اس میں حذف، مضاف کی طرف اشارہ ہے حَظَّھْمُ ای حَظَّ اَنْفُسِھِمْ ۔ قولہ : اَنْ تَعَلَّمُوْہُ ، مفسر علام نے یہ جملہ مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ مخصوص بالذم بتاویل مصدر ہو کر محذوف ہے لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ، مَا بمعنی شیئًا ہونے کی وجہ سے نکرہ ہے، جس کی وجہ سے مخصوص بالذم واقع نہیں ہوسکتا، اسلئے کہ مخصوص کا معرفہ ہونا ضروری ہوتا ہے، اس کا جواب دیدیا، کہ، مَا، شیئًا کے معنی میں ہو کر بئس کے اندر مستتر، ھُوَ ، ضمیر فاعل کی تمیز ہے اور مخصوص بالذم، اَنْ تَعَلِّمُوا، محذوف ہے قولہ : حَقِیقَۃَ مَا یَصِیرُوْنَ اِلَیْہِ الخ، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : سابق میں، وَلَقَد عَلِمُوا، سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو علم ہے اور لو کانوا یعلمون سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو علم نہیں ہے، دونوں میں تضاد معلوم ہوتا ہے۔ جواب : یعنی اللہ کے عذاب کو جانتے ہیں، مگر حقیقت عذاب اور اس کی شدت کو نہیں جانتے، لہٰذا اب کوئی تنافی نہیں ہے اسی سوال کے جواب کے لئے مفسر علام نے حقیقۃ ما یصیرون کا اضافہ فرمایا۔ قولہ : مَا تَعَلَّمُوْہ، یہ لو کانوا یَعْلموان کا جواب محذوف ہے۔ قولہ : جَوَابُ لَوْ محذوف، یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : لَوْ کے جواب کا فعل ماضی ہونا ضروری ہے اور یہاں لَمَثُوْبَۃٌ جملہ اسمیہ جواب واقع ہو رہا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ جواب : لَوْ ، کا جواب لمثوبۃ نہیں ہے بلکہ جواب محذوف ہے اور وہ لَاثِیْبُوْا ہے اور اس حذف پر لَمَثُوْبَۃٌ دلالت کر رہا ہے۔ قولہ : لَمَا آثَرُوْہُ ، یہ لو کانوا یَعْلَمُوْنَ کا جواب محذوف ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب) اللغۃ والبلاغۃ ھٰرُوتَ ومٰرُوتَ ” علمان اعجمیان بدلیل منع الصرف، ولو کانا من الھرت والمرت ای الکسر، کما زعم بعضھم لانصرفا، وقد نُسِحَتْ حولھا اساطیر طریفۃ یُرجع الیھا فی المطوّلات۔ تفسیر و تشریح بنی اسرائیل کی شیطان کی پیروی : وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ ، ذکر چل رہا ہے بنی اسرائیل کی قباحتوں کا، یہ بھی ان کے فرد جرم کی فہرست میں ایک اور فرد جرم کا اضافہ ہے یعنی یہود نے اللہ کی کتاب اور اس کے عہد کی تو کوئی پرواہ نہیں کہ البتہ شیطانی علم کے پیچھے لگ گئے، نہ صرف یہ کہ خود جادوٹونے میں لگ گئے، بلکہ یہ دعویٰ بھی کرنے لگے کہ سلیمان (نعوذ باللہ) اللہ کے پیغمبر نہیں تھے بلکہ ایک جادوگر تھے اور جادو کے زور سے حکومت کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی براءت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ سلیمان (علیہ السلام) عمل سحر نہیں کرتے تھے، اس لئے کہ عمل سحر کفر ہے، کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں جادو گری کا سلسلہ بہت عام تھا، چاروں طرف اسی کا چرچا تھا، کہ بنی اسرائیل بھی اللہ کی کتاب تورات کو پس پشت ڈال کر جادو ٹونے اور تعویذ گنڈوں میں لگ گئے تھے، جس کی وجہ سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جادو کی کتابیں جمع کرکے اپنے تخت کے نیچے دفن کردیں، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے انتقال کے بعد ان شیاطین اور جادوگروں نے ان کتابوں کو نکال کر نہ صرف لوگوں کو دکھایا بلکہ لوگوں کو یہ باور کرایا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی قوت اور اقتدار کا راز ہی عمل سحر تھا اور اسی وجہ سے ان ظالموں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو سلسلہ انبیاء سے نکال کر جادوگر اور کافر قرار دیا اس آیت میں اللہ نے اسی کی تردید فرمائی ہے۔ (ابن کثیر) فن سحر میں یہود کی مہارت : فن سحر و کہانت میں یہود کی مہارت ایک تاریخی حقیقت ہے ان کے اکابر اور مشاہیر اس کا فخر کے ساتھ برابر ذکر کرتے آئے ہیں، یہود کو ساحری کا شوق ان کے قدیم تاریخ سے قطع نظر کرتے ہوئے خود رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی نہ صرف یہ کہ باقی تھا بلکہ معمول یہ بھی تھا، چناچہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ کے مشرکوں کا ایک وفد مدینہ آیا اور ایک مشہور ساحر لبید بن عاصم یہودی سے ملا اور کہا کہ ہم نے محمد ﷺ پر جادو کرنے کی بہت کوشش کرلی مگر ہمیں کامیابی نصیب نہیں ہوئی، ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ جادو میں مہارت تامہ رکھتے ہیں لہٰذا آپ ہمارا یہ کام کردیں اور جو چاہیں اجرت لیں چناچہ لبید بن عاصم یا اس کی لڑکپوں نے آپ ﷺ پر جادو کردیا، جس کی تفصیل حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا یہودی النسل پر وفیسر مار گو لیس جس کی اسلام دشمنی ضرب المثل کی حد تک پہنچی ہوئی تھی، اپنی انگریزی کی کتاب سیرت رسول میں معاصر یہود عرب کے سلسلہ میں لکھتا ہے، یہ لوگ فن سحر کے ماہر تھے اور بجائے میدان جنگ میں آنے کے سفلی عملیات کو ترجیح دیتے تھے۔ (ص : 189، تفسیر ماجدی) یہود میں سحر دو طرف سے پھیلا : خلاصہ یہ ہے کہ یہود اپنے دین اور کتاب کا علم چھوڑ کر علم سحر سیکھنے کے پیچھے پڑگئے اور سحر لوگوں میں دو طرف سے پھیلا، ایک تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد میں چونکہ جنات اور انسان ملے جلے رہتے تھے، تو انسانوں نے جنات سے علم سیکھا اور نسبت حضرت علیمان کی طرف کردی کہ ہم کو سحر ان ہی سے پہنچا ہے اور سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت اسی سحر کی بدولت تھی، اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ” مَا کَفَرَ سُلَیْمَانٌ یہ کافر کفر ہے اور سلیمان (علیہ السلام) نے کفر نہیں کیا۔ دوسرے ہاروت و ماروت کی طرف سے پھیلا، یہ دونوں فرشتے تھے جو شہر بابل میں بصورت انسان رہتے تھے، وہ علم سحر سے واقف تھے، جو کوئی سحر سیکھنے کا طالب ان کے پاس جاتا اول تو وہ اس کو منع کرتے کہ اس میں ایمان جانے کا خطرہ ہے اس پر بھی اگر وہ باز نہ آتا تو اس کو سکھا دیتے اللہ تعالیٰ کو ان کے ذریعہ بندوں کی آزمائش منظور تھی جیسا کہ خوبصورت انسانی شکل میں فرشتوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو آزمایا تھا۔ ہاروت و ماروت کے واقعہ کی تفصیل : احمد بن حنبل اور محمد بن حمید نے اپنی اپنی مسانید میں ذکر کیا ہے، کہ جب حق سبحانہ و تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو خلیفہ مقرر فرمایا، تو فرشتوں نے عرض کیا کہ ہم تیری تقدیس کرتے ہیں، اور آدم خاکی سے سوائے فساد اور خونریزی کے کچھ نہ ہوگا بارگاہ الہٰی سے حکم ہوا کہ دو فرشتے زمین پر جا کر بنی آدم کے اعمال کی نگرانی کریں۔ اور بیہقی نے بیان کیا ہے کہ جب ملائکہ نے دیکھا کہ آدمی گناہ کرتے ہیں تو تعجب سے کہا کہ کیسے جاہل اور نافہم ہیں ؟ پروردگار نے جواب دیا، اگر تم ان کی جگہ ہوتے اور ان کے جیسی خواہشیں تم میں ہوتیں، تو تم کو معلوم ہوجاتا، فرشتوں نے عرض کیا اے پروردگار بندہ کس طرح اپنے پروردگار کی نافرمانی کرسکتا ہے، اور ہم تو تیری تقدیس وتحمید کرتے ہیں ارشاد ہوا، اس کا امتحان ہونا چاہیے بحکم خداوندی تین فرشتے جو کہ عابد و زاہد اور نہایت متقی و پرہیزگار سمجھے جاتے تھے، منتخب کئے گئے، ان میں ایک کا نام ہاروت اور دوسرے کا نام ماروت تیسرے کا نام عزبائیل تھا، ان تینوں کو انسان جیسی خواہشیں اور ضرورتیں عطا کی گئیں، عزبائی یہ صورت حال دیکھ کر پروردگار کے حضور میں عرض کرنے لگے کہ مجھے آپ آسمان پر بلالیں میں اس امتحان کے لائق نہیں ہوں اور چالیس برس سجدہ میں پڑے رہے اور مارے حیا و شرم کے پھر کبھی سر نہ اٹھایا، مگر ہاروت و ماروت دونوں زمین پر آکر رہے، ان کو شرک و قتل اور شراب نوشی سے ممانعت کردی گئی، یہ دونوں فرشتے مقدموں کا تصفیہ کیا کرتے تھے، اور رات کو اسم اعظم پڑھ کر آسمان پر چلے جایا کرتے تھے، ایک روز ایک نہایت ہی حسین و جمیل نوجوان دوشیزہ نے جس کا نام زیرہ تھا اور بعض کہتے ہیں کہ فارس کی شہزادی تھی ان کے پاس آکر اپنے شوہر کا جھگڑا پیش کیا، ان مذکورہ دونوں فرشتوں کے دل میں خواہش بشری بھڑک اٹھی جس کی وجہ سے دامن وتقویٰ و پرہیزگاری ہاتھ سے جاتا رہا، ایک نے دوسرے سے پوچھا کیا تیرے دل کا بھی وہی حال ہے جو میرے دل کا ہے، اس نے کہاں ہاں میرا بھی یہی حال ہے، ایک نہ کہا کیا ہم فیصلہ اس کے شوہر کے خلاف کردیں تاکہ زہرہ راضی ہوجائے ؟ تو دوسرے نے جواب دیا اللہ کا عذاب شدید ہے اس نے کہا وہ غفور و رحیم بھی تو ہے، چناچہ انہوں نے زہرہ سے تعلقات استوار کرنے شروع کر دئیے، زہرہ نے کہا یہ جب ممکن ہے جب تم میرے شوہر کو قتل کردو، تو ایک نے کہا اللہ کا عذاب سخت ہے دوسرے نے کہا اس کی رحمت بڑی وسیع ہے، غرضیکہ ان دونوں نے اس کے شوہر کو قتل کردیا تاکہ اپنے جذبات کو تسکین دیں زہرہ نے کہا میرا ایک بت ہے تم اس کو سجدہ کرو تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہو۔ دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ زہرہ نے کہا تم مجھے وہ دعاء (اسم اعظم) سکھا دو جسے پڑھ کر تم آسمان پر جاتے ہو زہرہ وہ دعاء سیکھ کر آسمان پر چلی گئی اور مسخ ہوگئی کہ یہ زہرہ وہی ہے جسے زہرہ ستارہ کہتے ہیں، مگر یہ قول ضعیف ہے ایک روایت میں یہ ہے کہ ہاروت و ماروت نے پہلے شراب پی اور زہرہ سے ہم صحبت ہوئے، ایک شخص نے ان کی اس حرکت کو دیکھ لیا، انہیں غیرت آئی، اس بیچارہ کو قتل کر ڈالا جب ہوش آیا اور اپنی خطا پر شرمندگی و ندامت ہوئی تو حضرت ادریس (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ آپ ہماتے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعاء فرمائیں، حضرت ادریس (علیہ السلام) کی دعاء اور سفارش سے یہ حکم ہوا کہ سزا تو ضرور ملے گی مگر اس بات میں اختیار ہے کہ سزا دنیا کی قبول کریں یا آخرت کی، عذاب دنیا کو فانی اور کمتر سمجھ کر سرجھکا دیا اور عرض کیا جو حکم ہو حاضر ہیں، مگر خاتمہ بالخیر ہو، ان کے عذاب میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ ان کے بادلوں سے لٹکا دئیے گئے، اور بعض کہتے ہیں کہ الٹے لٹکا دئیے گئے اور لوہے کے گرزوں سے مارے جاتے ہیں۔ (خلاصہ اتفاسیر، تائب لکھنوی، ملخصا) سلیمان (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل : وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلَکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا، سلیمان (علیہ السلام) کا زمانہ 990 ق م، تا 930 ق م ہے، سلیمان بن داؤد (علیہم السلام) اسرائیلی سلسلہ کے ایک نامور پیغمبر ہونے کے ساتھ ساتھ نامور حداد بھی ہوئے ہیں، شام اور فلسطین کے علاوہ آپ کی حدود حکومت جانب مشرق میں عراق میں دریائے فرات کے ساحل تک اور مغرب میں مصر تک وسیع تھیں، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت کی عظمت و شوکت کے دوست و دشمن سب ہی معترف ہیں۔ بنی اسرائیل نے نہ صرف یہ کہ سلیمان (علیہ السلام) کی رداء عصمت کو تار تار اور دامن بےداغ کو کفر و شرک کی گندگی سے داغدار کیا، بلکہ سلسلہ نبوت سے خارج کرکے ان کو ساحرو کاہن قرار دیا اور محمد ﷺ کی تصدیق کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا : دیکھو تو سہی یہ تو سلیمان کو سلسلہ نبوت میں شمار کرتے ہیں۔ اسلام نے اس کے برخلاف نہ صرف یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو معصوم اور پاکیزہ کردار قرار دیا ؛ بلکہ ان کی طرف سے صفائی پیش کرکے ان کے دامن پر بنی اسرائیل کے لگائے ہوئے داغ دھبوں کو دھوکر ان کی پاکیزہ سیرت اور بےداغ کردار کی شہادت بھی دی۔ یہودی قصص و حکایات اور مسیحی آثار و روایات کو چھوڑئیے خاص بائبل یعنی عہد عتیق کے صحائف جن پر یہود و نصاری کا ایمان ہے، اس مجموعہ میں آج تک صراحت کے ساتھ لکھا ہوا ہے : جب سلیمان بوڑھا ہوا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیر معبود کی طرف مائل کیا اور اس کا دل اپنے خدا کی طرف کامل نہ تھا۔ (سلاطین 10، 6، 4: 11) یعنی محض غفلت یا بےتوجہی کی بنا پر عمل کوتاہی یا عصیان کے مرتکب نہیں ہوئے ؛ بلکہ صریح بدعقیدگی اور توحید کی طرف سے بےیقینی تھی، اور آگے ملاحظہ ہو : سواز بس کہ ان کے دل خداوند اسرائیل کے خدا سے برگشتہ ہوا اس لئے خداوند آسمان پر غضبناک ہوا کہ اس نے اسے حکم دیا تھا کہ وہ ان اجنبی معبودوں کی پیروی نہ کرے، مگر اس نے خداوند کے حکم کو یاد نہ رکھا۔ (سلاطین 10، 9: 11) (معاذ اللہ) دیکھا آپ نے ! خدا کا پیغمبر اور بقول بنی اسرائیل و کفر میں مبتلا ! ! ! ؎ چو کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی دنیا ہزاروں سالوں تک ان ہی یہود یا نہ تحریفات اور افتراء ات کا شکار ہو کر اس موحد اعظم کو کافر و مشرک سمجھتی رہی، جب قرآن جو ہر زمانہ کے سچے پیغمبروں کی عزت و ناموس کا محافظ ہے، آیا اور آکر ببانگ دہل اعلان کیا کہ : سلیمان (علیہ السلام) کو (معاذ اللہ) کافر کہتے ہو، وہ تو کفر کے قریب بھی نہیں تھے، اس وقت قرآن کی صدائے حق صدائے صحراء ہو کر رہ گئی، جن کے کان تھے، انہوں نے گوش گوش سے سنا اور باقی دنیا خواب غفلت میں پڑی رہی، اسی طرح صدیاں گزر گئیں۔ قرآن کا اعجاز : جب تیرہ ساڑھے تیرہ صدیاں گزر گئیں، تو قدرت حق کا کرشمہ اور قرآن کا اعجاز دیکھئے کہ بائبل کے پرستاروں کے قلم سے محققانہ اور فاضلانہ کتابیں اور مضامین شائع ہوتے ہیں وہ بائبل کے الزاموں کی تائید و تصدیق نہیں کرتیں بلکہ قرآن کے جواب صفائی کی تصدیق و تائید کر رہی ہیں انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا جو برطانوی کاوش و تحقیق کا لب لباب ہوتا ہے اسکے سب سے آخری ایڈیشن میں مقالہ زیر عنوان، سلیمان، نکال کر دیکھئے، آپ کو صاف لکھا ہوا ملے گا۔ سلیمان (علیہ السلام) خدائے واحد کے مخلص پرستار تھے۔ (جلد دوم، ص 952، طبع چہارم) (ماجدی) انسائیکلوپیڈیا ببلیکا، جو خاص مسیحی فضلا کی تحقیق و تدقیق کا ثمرہ ہے، میں لکھا ہے : بائبل کی وہ آیتیں جن میں سلیمان (علیہ السلام) کی طرف کفر و شرک کی نسبت کی گئی ہے، وہ الحاقی ہیں۔ (بعد میں اضافہ شدہ ہیں) مفسرابن جریر طبری نے آج سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے اپنی تفسیر میں ابن اسحاق کے حوالہ سے یہ روایت درج کی ہے کہ آیت بالا وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ یہود کے گندے عقائد اور افتراء کے رد میں نازل ہوئی ہے، جو آپس میں کہتے تھے۔ قال بعض احبارِ الیھود الا تعجبون من محمد ﷺ یزعمُ ابن داؤد کان نبیاً واللہ ما کان اِلّا ساحرًا فاَنزلَ اللہ ذٰلک من قولھم ومَا کَفَرَ سلیمان الخ (تفسیر ماجدی ملخصًا) ۔ اس نئے مدعی نبوت کی نادانی تو دیکھو کہ ابن داؤد کو نبی اللہ کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ امام جصاص (رح) تعالیٰ نے مذکورہ حوالہ کے علاوہ ابن عباس اور سعید بن جبیر اور قتادہ تابعی کا بھی حوالہ دیا ہے۔ یاد رہے کہ بنی اسرائیل کی فرد جرم کے بیان کرنے کا سلسلہ چل رہا ہے، خود کفر کرنا اور نسبت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی جانب کرنا یہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ مذکورہ آیات میں بنی اسرائیل (یہود) کی مذمت بیان کی ہے، اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر الزام کی صفائی پیش کی گئی ہے، قرآن کریم نے کس کس طرح دوسری امتوں کے انبیاء کی طرف سے صفائی پیش کی ہے، انہیں کے امتیوں کے لگائے ہوئے داغ دھبے ان کی پاک سیرتوں سے دور کئے ہیں، یہی ناشکر گزار اور احسان فراموش قومیں قرآن اور صاحب قرآن کی دشمنی پر تلی ہوئی ہیں۔ سحر کی حقیقت : سحر کی حقیقت و ماہیت اور اقسام پر بعض قدیم مفسرین نے بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے، خصوصاً ابوبکر جصاص رازی، اور امام فخر الدین اور ابن کثیر نے، اور زمانہ قریب کے مفسرین میں سے طنطاوی نے، یہاں مختصراً اتنا جان لینا کافی ہے کہ سحر نام ہے اسباب خفیہ کا مثلاً تاثیر کواکب، استعانت شیاطین الجن وغیرہ سے کام لے کر تصریفاتِ عجیبہ کرنے کا، خاص خاص مشقوں اور ریاضتوں سے یہ فن حاصل ہوجاتا ہے، مشرک اور جاہل قوموں میں اس کا رواج پہلے ہی سے بہت تھا۔ سحر و کہانت تاریخ بنی اسرائیل کی ایک مسلم اور ناقابل انکار چیز ہے، خود عہد عتیق کے صحیفوں میں اس کی شہادت موجود ہے۔ انھوں نے اپنے بیٹے بیٹی کو آگ کے درمیان گزارا اور فال گری اور جادو گری کی، ان باعثوں سے خداوند بنی اسرائیل سے غصہ ہوا اور اپنی نظر سے انہیں گرا کر دور کردیا “۔ (2 سلاطین 21، 17: 18) تاریخ قدیم کے جاننے والوں پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ عہد رسالت اور طلوع اسلام سے صدیوں قبل قوم بنی اسرائیل دو مستقل حصوں میں بٹ چکی تھی، ایک حصہ وہ تھا جس نے بخت نصر کے ہاتھوں جلاوطنی یا جبری ہجرت کے بعد کلدانیہ یا بابل (موجودہ عراق) میں بودو باش اختیار کرلی تھی، دوسرا حصہ وہ جو ایک مدت دراز کے بعد بابل سے واپس آکر فلسطین میں مقیم ہوگیا تھا، آیت اس بات کی طرف واضح اشارہ کر رہی ہے کہ عہد رسالت کے معاصر، یہود عرب فلسطین اور بابلی دونوں قسموں کے رذائل و خبائث کے جامع ہیں، تاریخ قدیم کے یہ وہ نازک اور دقیق حقائق ہیں، جو عام طور سے اچھے اچھے اہل علم کے علم میں بھی نہیں، یہ دقیق حقائق تاریخ کے کسی مؤرخ اعظم کی زبان سے نہیں بلکہ (فداہ ابی وامی) عرب کے ایک امی کی زبان سے ادا کرائے جا رہے ہیں۔ وَمَآ اَنْزِلَ یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ انزال و تنزیل کا اطلاق صرف احکام تشریعی ہی کے بارے میں نہیں ہوتا، امور تکوینی میں بھی ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ تکوینیات کے سلسلہ میں جتنے بھی کام ہوتے ہیں خواہ اچھے ہوں یا برے، ان کے لئے واسطہ اور ذریعہ فرشتے ہی ہوتے ہیں اور یہ بات ان کی معصومیت کے ذرا بھی منافی نہیں مَا اَنْزِلَ میں ما موصولہ الذی کے معنی میں ہے، بعض مفسرین نے ما کو نافیہ قرار دیکر مَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ پر عطف کیا ہے، لیکن محققین نے اس کو قبول نہیں کیا ہے، اللہ کی طرف سے صرف کتاب حکمت، وحی والہام ہی نازل نہیں ہوتے، قحط، بیماری، یا موت کا نزول بحیثیت مسبب الاسباب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، قرآنی محاورہ میں انزال کا لفظ رزق، پانی، لباس، لوہا، انعام کے سلسلہ میں صراحت کے ساتھ آیا ہے حتی کہ رجز (عذاب) کے لئے بھی یہی لفظ صراحۃ مستعمل ہے، اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰی اَھْلِ ھٰذِہٖ الْقَرْیَۃِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ ۔ (عنکبوت) ۔ لہٰذا انزال سحر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا اس کی قدوسیت کے منافی نہیں ہے، جن لوگوں نے ایسا سمجھا برا، طاعت و معصیت وجود پذیر ہوتا ہے، سب کا وجود تکوینی حیثیت سے مسبب الاسباب ہی کے نازل کرنے سے ہوتا ہے، اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ سے یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونی چاہیے کہ ہاروت و ماروت کی جانب نزول کی نسبت کرنے سے ان کا اکرام یا تعظیم مقصود ہے، اس لئے کہ اس انزال و نزول سے انبیاء و رسل والانزول وانزال مراد نہیں ہے، جس میں عظمت و اکرام مقصود ہوتا ہے، اسی شبہ کو دور کرنے کے لئے مفسر علام نے وَاُلْھِمَاہُ کے لفظ کا اضافہ فرمایا ہے، ایک دوسری قراءت میں ملِکَین لام کے کسرہ کے ساتھ ہے، یہ قراءت بھی صحابہ وتابعین ہی کے زمانہ سے چلی آرہی ہے، ابن عباس، ضحاک، حسن بصری ؓ کی روایت ہے۔ چناچہ اسی دوسری قراءت کی بناء پر بعض مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ ہاروت و ماروت اصلاً فرشتے نہ تھے، بشر تھے، مراد بادشاہ یا شہزادے، ان ہی کو دوسری روایتوں میں مجازاً مَلک (فرشتہ) کہا گیا ہے، اس لئے کہ وہ صفات ملکوتی کے حامل تھے (قیل رجلان سَمّیا مَلَکَینِ باعتبارِ صَلاحِھمَا) (بیضاوی) لیکن جنہور کا قول فرشتہ ہونے ہی کا ہے۔ نظام تکوینی اور نزول سحر : نظام تکوینی میں فرشتوں کے اوپر حقیقت سحر کا نزول ان کی نزاہت اور معصومیت کے منافی نہیں ہے، خصوصًا جبکہ نزول کا مقصد اصلاح خلق ہو یعنی لوگوں کو سحر و کہانت سے بچانا اور ان کی حقیقت سے واقف کرانا نہ کہ اس پر آمادہ کرنا۔ مجرموں کو پکڑنے یا جرائم کے طریقوں سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے دیکھا گیا ہے کہ انسپکٹر اور خفیہ پولیس کے افراد جرائم کی عملی واقفیت حاصل کرنے کے لئے وہ سب طریقے استعمال کرتے ہیں جو ایک مجرم اختیار کرسکتا ہے، مثلاً رشوت خور افسر کو پکڑنے کے لئے نشان زدہ سکے یا نوٹ رشوت میں افسر کو دیتے ہیں تاکہ رشوت خور کو رنگے ہاتھوں پکڑا جائے، چور کو پکڑنے کے لئے چوروں کے گروہ میں شامل ہوجاتے ہیں، ظاہر ہے کہ ان کا مقصد خود جرم کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اپنی مکمل واقفیت سے مجرموں کو جرم سے باز رکھنا ہوتا ہے، نہ کہ رشوت لینے کے راستے اور طریقے بتانا۔ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ : یہ بابل میں مقیم دو فرشتوں کے نام ہیں، جو اپنی اصلیت کے اعتبار سے فرشتے ہی تھے، لیکن جب ایک خاص مقصد اور غرض کے لئے انسانوں کے درمیان رہنے بسنے کے لئے بھیجے گئے، تو ظاہر ہے کہ ان کی شکل و شباہت رنگ و روپ، جسم و قالب انسانوں کا سا ہوگا، اور ان کی عادتیں اور جذبات بھی بالکل انسانوں ہی جیسے ہوں گے، بعض اہل تفسیر نے یہاں ایک اسرائیلی قصہ عراق کی مشہور رقاصہ زہرہ کا بیان کیا، جس کی تفصیل گزرچکی ہے، ول تو آیت کی تفسیر اس قصہ پر موقوف نہیں، دوسرے خود محدثین و محققین مفسرین نے اس کی صحت سے بالکل انکار کیا ہے، اور صاف لکھ دیا کہ یہ قصہ گھڑا ہوا، لغو اور مردود ہے، اس گروہ میں قاضی عیاض مالکی، امام رازی، شہاب الدین عراقی، وغیرہ شامل ہیں، اور ابن کثیر نے تو بڑی لمبی بحث کے بعد یہ کہہ دیا ہے کہ اگرچہ یہ قصہ بڑے بڑے تابعین نے نقل کیا ہے لیکن اس کی سند حدیث صحیح سے ذرا بھی نہیں ملتی، بلکہ اسرائیلیات پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر بالفرض صحیح ہو بھی تو جب کسی خاص حکمت و مصلحت سے کسی فرشتے کو پیکر انسانی اور جذبات بشری دئیے گئے ہوں تو اگر کسی وقت وہ ملکوتی الاصل بشری جذبات سے مغلوب بھی ہوجائے تو اس میں نہ تو شرعی استحالہ ہے اور نہ عقلی۔ یُعَلِّمَانِ تعلیم کے متعارف مفہوم کی بناء پر اس لفظ سے یہ شبہ نہ ہو کہ ملائکہ سحر کا درس دیا کرتے تھے، اسلئے کہ تعلیم کے معنی سکھانے اور درس دینے کے علاوہ اعلام یعنی جتلانے اور بتلانے، آگاہ کرنے کے بھی آتے ہیں وَالتعلیم رُبَّما یُسْتعمل فی معنی الاعلام (راغب) ۔ چناچہ ماہرین قرآن کی ایک جماعت نے یہی معنی مراد لئے ہیں، (والتعلیم بمعنی اعلام) (عالم) وقالت طائفۃ ھو معنا بمعنی یُعْلِمَان بالتخفیف فھو من باب الاعلام (بحر) اور ایک قراءت بھی مصدر اعلام کے ساتھ منقول ہے (وَقَرأ طلحۃ بن مصرف یُعلِمان بالتخفیف مِنَ الاِعلام۔ (روح) سحر اور معجزے میں فرق : جس طرح انبیائ (علیہم السلام) کے معجزات یا اولیائ اللہ کی کرامات سے ایسے واقعات مشاہدے میں آتے ہیں جو عادۃً نہیں ہوسکتے، اسی لئے ان کو خرق عادت کہا جاتا ہے، بظاہر سحر اور جادو سے بھی ایسے ہی آثار مشاہدے میں آتے ہیں، اس لئے بعض ناواقف کاروں کو ان دونوں میں التباس بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں جہلاء معجزہ اور جادو میں فرق نہیں کر پاتے تھے اور دونوں کو ایک سمجھنے کی وجہ سے ساحروں اور جادو گروں کی بھی ویسی عزت و توقیر کرتے تھے جیسی کہ انبیاء (علیہم السلام) کی، معجزے اور جادو کے فرق کو ہی واضح کرنے کے لئے ہاروت و ماروت کو بابل میں بھیجا گیا تھا۔ یہ فرق ایک تو حقیقت کے اعتبار سے ہے اور ایک ظاہری آثار کے اعتبار سے، حقیقت کا فرق تو یہ ہے کہ جادو سے جو چیزیں مشاہدے میں آتی ہیں وہ دائرہ اسباب سے خارج نہیں ہوتیں، فرق صرف اسباب کے ظہور و خفا کا ہے، جہاں اسباب ظاہر ہوتے ہیں وہ آثار ان اسباب کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں اور کوئی تعجب کی چیز نہیں سمجھی جاتی لیکن جہاں اسباب مخفی ہوں تو وہ تعجب خیز چیز ہوتی ہے اور عوام اسباب کو نہ جاننے کی وجہ سے اس کو خرق عادت سمجھنے لگتے ہیں، حالانکہ وہ درحقیقت دیگر تمام عادی امور کی طرف کسی جن یا شیطان یا کسی مخفی سبب کے اثر سے ہوتے ہیں، اگر ایک خط مشرق بعید سے آج ہی کا لکھا ہوا اچانک سامنے آگرے تو دیکھنے والے اس کو خرق عادت کہیں گے، حالانکہ جنات و شیاطین کو ایسے اعمال و افعال کی قوت دی گئی ہے۔ اگر ان کا ذریعہ معلوم ہو تو پھر خرق عادت نہیں رہے گا، ریڈیو، ٹیلی ویژن، فیکس کے اگر اسباب معلوم نہ ہوں تو یہ خرق عادت ہوں گے، اور جب ان کے اسباب کا پتہ چل گیا تو اب کوئی حیرت و تعجب کی بات معلوم نہیں ہوتی، دواؤں کی حیرت انگیز تاثیر، عمل تنویم، مقناطیسی کشش، مسمر یزم، تاثیر کو اکب اگر ان کے اسباب معلوم نہ ہوں تو یہی چیزیں خرق عادت معلوم ہوں گی، اور جب ان کے اسباب معلوم ہوجائیں تو یہ چیزیں خرق عادت نہ رہیں گے۔ معجزہ : بخلاف معجزہ کے کہ وہ بلاواسطہ حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے اس میں اسباب طبعیہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے آتش نمرود کو حق تعالیٰ نے حکم دیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے ٹھنڈی ہوجا، مگر ٹھنڈی اتنی کہ ٹھنڈک سے تکلیف نہ ہو۔ آج بھی بعض لوگ بدن پر دوائیں استعمال کرکے آگ پر چل کر کرشمہ دکھاتے ہیں وہ معجزہ نہیں بلکہ دواؤں کا اثر ہوتا ہے، اور دواؤں کے مخفی ہونے کی وجہ سے لوگوں کو خرق عادت کا دھوکہ ہوتا ہے، یہ بات کہ معجزہ کا براہ راست اللہ تعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے خود قرآن عزیز کی صراحت سے ثابت ہے، ارشاد فرمایا : وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَ اللہَ رَمٰی (کنکریوں کی مٹھی جو آپ نے پھینکی در حقیقت آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی) معجزہ اور سحر کی حقیقت کا مذکورہ فرق کہ معجزہ بالاواسطہ اسباب طبیعہ براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے اور جادو اسباب طبعیہ خفیہ کا اثر ہوتا ہے، حقیقت سمجھنے کے لئے تو کافر ہے مگر عوام الناس کی نظر میں نتیجہ اور انجام کے اعتبار سے دونوں یکساں ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ عوام کی شناخت کے لئے بھی حق تعالیٰ نے کئی فرق ظاہر فرمائے ہیں۔ سحر کی وجہ سے انقلاب ماہیت ہوتا ہے یا نہیں ؟ امام راغب، ابوبکر جصاص انکار کرتے ہیں، معتزلہ کا بھی یہی خیال ہے مگر جمہور علمائ کی تحقیق یہ ہے کہ انقلاب اعیان میں نہ عقلی امتناع ہے اور نہ شرعی مثلاً جسم حیوانی پتھر بن جائے، یا ایک نوع سے دوسری نوع تبدیل ہوجائے، قرآن میں فرعونی ساحروں کے سحر کو جو تخیل قرار دیا ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر سحر تخیل ہے اور بعض حضرات نے سحر کے ذریعہ انقلاب حقیقت کے جواز پر حضرت کعب احبار کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے، جو مؤطا امام مالک میں بروایت قعقعہ منقول ہے، لولا کلمات، اقولھن لجعلنی الیھود حمارًا (اگر یہ چند کلمات نہ ہوتے جن کو میں پابندی سے پڑھتا ہوں تو یہودی مجھے گدھا بنا دیتے) گدھا بیوقوف کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر بلا ضرورت حقیقت کو چھوڑ کر مجاز مراد لینا صحیح نہیں ہے، وہ کلمات یہ ہیں : اعوذ باللہ العظیم الذی لیس شئ اعظم منہ وبکلمات اللہ التامات التی لا یجاوزھنّ برٌ ولا فاجر وباسمائ اللہ الحسنیٰ کلھا ما علمت منھا وما لم اَعْلم من شر ما خلق وبرء وذرء۔ اخرجہ فی الموطأ باب التعوذ عند النوم اور ل یہ کہ معجزہ یا کرامت ایسے حضرات سے ظاہر ہوتی ہے جن کا تقویٰ ، طہارت، پاکیزگی اخلاق و اعمال کا سب مشاہدہ کرتے ہیں، اس کے برعکس جادو کا اثر صرف ایسے لوگوں سے ظہور پذیر ہوتا ہے جو گندے ناپاک اور اللہ اور اس کی عبادت سے دور رہتے ہیں، یہ چیزیں ہر انسان آنکھوں سے دیکھ کر مجزہ اور سحر میں فرق کو پہچان سکتا ہے۔ کیا سحر کا اثر انبیاء (علیہم السلام) پر ہوسکتا ہے ؟ سحر کا اثر انبیاء پر بھی ہوسکتا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ سحر دراصل اسباب طبعیہ ہی کا اثر ہوتا ہے، انبیاء (علیہم السلام) اسباب طبعیہ کے اثر سے متاثرہ ہوتے ہیں، یہ تاثیر شان نبوت کے خلاف نہیں، جیسے ان کا بھوک پیاس سے متاثر ہونا، بیماری میں مبتلا ہونا اور شفا پانا ظاہری اسباب سے سب جانتے ہیں، اسی طرح جادو کے باطنی اسباب سے بھی انبیاء (علیہم السلام) متاثر ہوسکتے ہیں اور متاثر ہونا نبوت کے منافی نہیں رسول اللہ ﷺ پر یہودی لبید بن عاصم یا اسکی لڑکیوں کا سحر کرنا اور آپ ﷺ کا اس سے متاثر ہونا اور بذریعہ وحی اس جادو کا پتہ لگنا اور ازالہ کرنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا سحر سے متاثر ہونا خود قرآن میں مذکور ہے، آیات یُخَیَّلُ اِلِیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تسْعٰی اور فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْیفَۃَ مُّوْسٰی موسیٰ (علیہ السلام) پر خوف طاری ہونا اسی جادو کا اثر تھا۔ (معارف القرآن مخلصا) سحر کے احکام : قرآن و سنت میں جس سحر کو کفر کہا گیا ہے وہ کفر اعتقادی یا کم از کم کفر عملی سے خالی نہیں ہوتا، اگر شیاطین کو راضی کرنے کے لئے کچھ اقوال یا عمال کفر و شرک کے اختیار کئے تو کفر حقیقی اعتقادی ہوگا اور اگر کفر و شرک کے اقوال و افعال سے بچ بھی گیا مگر کہ یہ سحر کفر حقیقی اعتقادی یا کفر عملی سے خالی نہیں ہوتا۔ جب یہ معلوم ہوگیا کہ یہ سحر کفر اعتقادی یا عملی سے خالی نہیں ہوتا تو اس کا سیکھنا اور سکھانا بھی حرام ہوا، اس پر عمل کرنا بھی حرام ہوا، البتہ مسلمانوں سے دفع ضرر کے لئے بقدر ضرورت سیکھا جائے تو بعض فقہاء نے اجازت دی ہے۔ (شامی، عالمگیری) تعویذ گنڈے وغیرہ جو عامل کرتے ہیں ان میں بھی اگر جنات و شیاطین سے استمداد ہو تو حرام ہے، اور اگر الفاظ مشتبہ ہوں معنی معلوم نہ ہوں اور شیاطین اور بتوں سے استمداد کا احتمال ہو تو بھی حرام ہے۔ اگر محض مباح اور جائز امور سے کام لیا جائے تو اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ اس کو کسی ناجائز مقصد کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ اگر قرآن و حدیث کے کلمات ہی سے کام لیا جائے مگر ناجائز مقصد کے لئے استعمال کریں تو وہ بھی جائز نہیں، مثلاً کسی کو ناحق ضرر پہچانے کے لئے تعویذ کیا جائے یا وظیفہ پڑھا جائے، اگرچہ وظیفہ اسماء الہٰیہ یا آیات قرانیہ ہی کا ہو حرام ہے، (معارف)
Top