Al-Qurtubi - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی مَا تَتْلُوْ : جو پڑھتے تھے الشَّيَاطِیْنُ : شیاطین عَلٰى : میں مُلْكِ : بادشاہت سُلَيْمَانَ : سلیمان وَمَا کَفَرَ : اور کفرنہ کیا سُلَيْمَانُ : سلیمان وَلَٰكِنَّ : لیکن الشَّيَاطِیْنَ : شیاطین کَفَرُوْا : کفر کیا يُعَلِّمُوْنَ : وہ سکھاتے النَّاسَ السِّحْرَ : لوگ جادو وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَى : پر الْمَلَکَيْنِ : دوفرشتے بِبَابِلَ : بابل میں هَارُوْتَ : ہاروت وَ مَارُوْتَ : اور ماروت وَمَا يُعَلِّمَانِ : اور وہ نہ سکھاتے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو حَتَّی : یہاں تک يَقُوْلَا : وہ کہہ دیتے اِنَّمَا نَحْنُ : ہم صرف فِتْنَةٌ : آزمائش فَلَا : پس نہ کر تَكْفُر : تو کفر فَيَتَعَلَّمُوْنَ : سو وہ سیکھتے مِنْهُمَا : ان دونوں سے مَا : جس سے يُفَرِّقُوْنَ : جدائی ڈالتے بِهٖ : اس سے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : خاوند وَ : اور زَوْجِهٖ : اس کی بیوی وَمَا هُمْ : اور وہ نہیں بِضَارِّیْنَ بِهٖ : نقصان پہنچانے والے اس سے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو اِلَّا : مگر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے وَيَتَعَلَّمُوْنَ : اور وہ سیکھتے ہیں مَا يَضُرُّهُمْ : جو انہیں نقصان پہنچائے وَلَا يَنْفَعُهُمْ : اور انہیں نفع نہ دے وَلَقَدْ : اور وہ عَلِمُوْا : جان چکے لَمَنِ : جس نے اشْتَرَاهُ : یہ خریدا مَا : نہیں لَهُ : اس کے لئے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں مِنْ خَلَاقٍ : کوئی حصہ وَلَبِئْسَ : اور البتہ برا مَا : جو شَرَوْا : انہوں نے بیچ دیا بِهٖ : اس سے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور ان (ہزلیات) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے عہد سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے، اور سلیمان نے مطلق کفر کی بات نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور ان باتوں کے بھی (پیچھے لگ گئے) جو شہر بابل میں دو فرشتوں (یعنی) ہاروت اور ماروت پر اتری تھیں۔ اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو (ذریعہ) آزمائش ہیں تم کفر میں نہ پڑو۔ غرض لوگ ان سے ایسا (جادو) سیکھتے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ اور خدا کے حکم کے سوا وہ اس (جادو) سے کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے تھے۔ اور کچھ ایسے (منتر) سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں (یعنی سحر اور منتر وغیرہ) کا خریدار ہوگا اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور جس چیز کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیج ڈالا وہ بری تھی، کاش وہ (اس بات کو) جانتے
آیت نمبر 102 اس میں چوبیس مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واتبعوا ما تتلوا الشیطین علی ملک سلیمن۔ یہ اس گروہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے جنہوں نے کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا اور اس کے بدلے میں جادو کی اتباع کی، وہ یہود تھے۔ سدی نے کہا : یہود نے حضرت محمد ﷺ سے تورات کے ساتھ معارضہ کیا تو تو رات اور قرآن عقائد ونظریات میں متفق نکلے تو انہوں نے تورات کو چھوڑ دیا اور آصف کی کتاب اور ہاروت وماروت کے جادو کو لے لیا۔ محمد بن اسحاق نے کہا : جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت سلیمان کا رسولوں میں ذکر کیا تو ان کے کسی عالم نے کہا : محمد کہتا ہے کہ ابن داؤد نبی تھا اللہ کی قسم ! وہ تو جادو گر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : وما کفر سلیمن ولکن الشیطین کفروا (1) یعنی شیطانوں نے بنی آدم کے دلوں میں ڈالا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جو سمندر پر سوار ہوتے ہیں، پرندوں اور جنوں کو مسخر کیے ہوئے ہیں یہ سب جادو کے بل بوتے پر ہے۔ کلبی نے کہا : شیطانوں نے جادو اور تلبیس کا عمل لکھا آصف کی زبان پر جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا کاتب تھا۔ انہوں نے ان کتب کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے مصلی کے نیچے دفن کردیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں بادشاہی بخشی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس کا علم نہ تھا جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا وصال ہوا تو انہوں نے اس جادو کو نکالا اور لوگوں کو کہا : اس علم کے ذریعے سلیمان تم پر حکومت کرتے تھے۔ پس لوگوں نے اس جادو کو سیکھا۔ بنی اسرائیل کے علماء نے کہا : معاذ اللہ ! یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا علم نہیں ہو سکتا اور بیوقوف نے کہا : یہی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا علم ہے۔ پس لوگ اس جادو کی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے اپنے انبیاء کی کتب کو چھوڑ دیا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا عذر نازل فرمایا اور جوان پر تہمت لگائی تھی اس کی براءت کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : واتبعوا ما تتلوا الشیطین۔ عطا نے کہا تتلوا کا معنی تقرؤا ہے یعنی تلاوت کرنا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا تتلوا کا معنی تتبع اور پیروی کرنا ہے، جیسے تو کہتا ہے : جاء القوم یتلو بعضھم بعضاً بعض بعض کے پیچھے آئے۔ (2) طبری نے کہا : اتبعوا بمعنی فضلوا (فضیلت دینا) (3) میں کہتا ہوں : ہر وہ شخص جو کسی کی اتباع کرتا ہے اسے اپنے آگے کرتا ہے تو وہ اسے فضیلت دیتا ہے۔ تتلوا کا معنی تلث یعنی ماضی کے معنی میں ہے۔ شاعر نے کہا : واذا مررت بقبرہ فاعقر بہ کو مالھجان وکل طرف سابح وانضح جوانب قبرہ بدمائھا فلقد یکون اخادم وذبائح جب تو اس کی قبر کے پاس سے گزرے تو عمدہ اور تیز رفتار اونٹنیوں کو ذبح کر اور قبر کی ہر طرف ان کا خون چھڑک دے تحقیق وہ خون بہانے والا اور ذبح کرنے والا تھا۔ اس شعر میں قد یکون بمعنی کان ہے، اور (ما) اتبعوا کا مفعول ہے یعنی کچھ شیطانوں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے خلاف کیا اس کی انہوں نے پیروی کی۔ بعض علماء نے فرمایا : ما نافیہ ہے لیکن یہ نظم کلام کے اعتبار سے کلام کی صحت کے اعتبار سے درست نہیں۔ یہ ابن عربی نے کہا ہے۔ علی ملک سلیمن ملک سلیمان سے مراد ان کی شرع اور ان کی نبوت ہے (1) ۔ زجاج نے کہا : اس کا معنی ہے : علی عھد ملک سلیمان اور کہا گیا ہے کہ اس کا معنی فی ملک سلیمان ہے۔ یعنی ان کے قصص، صفات اور اخبار میں (2) ۔ فراء نے کہا : ایسی جگہ پر علی اور فی درست ہیں۔ علی فرمایا اور بعد نہیں فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطن فی امنیتہ (الحج :52) اس حدیث میں امنیتہ کا معنی ہے : اس کی تلاوت میں۔ شیطان کا معنی اور اس کا اشتقاق پہلے گزر چکا ہے۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : یہاں شیطان سے مراد شیاطین الجن ہیں۔ اس اسم سے یہی مفہوم ہوتا ہے۔ بعض علماء نے کہا : اس سے مراد انسانوں کے شیاطین ہیں جو گمراہی میں سرکشی کرتے ہیں جیسے جریر کا قول ہے۔ ایام یدعوننی الشیطان من غزلی وکن یھویننی اذ کنت شیطاناً مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما کفر سلیمن اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی برأت فرمائی کسی آیت میں یہ نہیں گزرا کہ کسی نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف کفر کی نسبت کی ہو لیکن یہود نے آپ کی طرف جادو کی نسبت کی لیکن جب جادو کفر تھا تو یہ ایسے ہوگیا جیسے انہوں نے کفر کی طرف ان کی نسبت کی۔ پھر فرمایا : ولکن الشیطین کفروا اللہ تعالیٰ نے جادو کی تعلیم کی وجہ سے ان کے کفر کو ثابت کیا (3) ۔ یعلمون یہ حال کی بنا پر محل نصب میں ہے اور خبر ثانی کے اعتبار سے محل رفع میں ہونا بھی جائز ہے، عاصم کے سوا کو فیوں نے ولکن الشیاطین یعنی لکن کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور الشیاطین کے نون کو رفع دیا ہے۔ اسی طرح سورة انفال میں ہے لکن اللہ رمیٰ (انفال : 17) ابن عامر نے ان سے موافقت کی ہے۔ باقی قراء نے تشدید اور نصب کے ساتھ پڑھا ہے لکن اس کے دو معانی ہیں۔ ماضی کی خبر کی نفی اور مستقبل کی خبر کا اثبات۔ یہ تین کلمات سے بنایا گیا ہے۔ لام، کاف، ان لا نفی ہے۔ ک خطاب ہے اور ان اثبات وتحقیق ہے۔ استثقال کی وجہ سے ہمزہ ختم ہوگیا ہے۔ یہ کبھی مثقلہ اور مخففہ ہوتا ہے جب مثقلہ ہو تو نصب دیتا ہے جیسے ان مثقلہ نصب دیتا ہے اور جب مخففہ ہو تو رفع دیتا ہے جیسے ان مخففہ عن المثقلہ سے رفع دیا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر 3: السحر (جادو) ۔ بعض علماء نے فرمایا : سحر کا معنی حیلوں اور خیالوں سے چیز کو کچھ اور بنا کر دکھانا، ساحر (جادوگر) کچھ اشیاء اور معانی کرتا ہے وہ جس کے لئے جادو کیا گیا ہوتا ہے اسے وہ اپنی حقیقت کے خلاف تصور کرتا ہے جیسے وہ شخص جو دور سے سراب کو دیکھتا ہے اور وہ اسے پانی تصور کرتا ہے۔ جیسے چلنے والی کشتی میں بیٹھا ہوا شخص یہ خیال کرتا ہے کہ درخت اور پہاڑ اس کے ساتھ چل رہے ہیں۔ بعض نے فرمایا : یہ سحرت الصبی سے مشتق ہے جب تو اسے دھوکا دے اور تو اسے کھیل میں ڈال دے۔ التسحیر اس کی مثل ہے۔ لبیدنے کہا : فان تسالینا فیم نحن فاننا عصا فیر من ھذا الانام المسحر اگر تو ہمارے متعلق پوچھے کہ ہم کس حیثیت میں ہیں تو ہم اس مسحر مخلوق میں سے چڑیاں ہیں۔ ایک اور نے کہا : ارانا موضعین لامر غیب ونسخر بالطعام وبالشراب عصا فیر وذبان ودودٌ اجرأمن مجلحۃ الذئاب ہم موت کے لئے جلدی کرنے والے ہیں اور ہمیں کھانے پینے کے ساتھ جادو کیا گیا ہے۔ چڑیاں مکھیاں اور کیڑے ہیں اور جری بھیڑئیے سے زیادہ جری ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انما انت من المسحرین۔ کہا جاتا ہے : المسحر وہ ہوتا ہے جو سحر والا پیدا کیا گیا ہو کبھی اس کا معنی المعللین بھی کیا جاتا ہے یعنی ایسے لوگوں سے جو طعام کھاتے ہیں مشروب پیتے ہیں۔ بعض نے فرمایا : اس کی اصل الخفاء ہے کیونکہ جادو خفیہ عمل کرتا ہے۔ بعض نے فرمایا : اس کا اصل معنی الصرف ہے کہا جاتا ہے : ما سحرک عن کذا یعنی کس چیز نے تجھے اس سے پھیر دیا۔ السحر، جو اپنی جہت سے پھیرا گیا ہو۔ بعض نے فرمایا : اس کی اصل الاستمالہ ہے فقد سحرک اس نے تجھے مائل کیا۔ بعض نے فرمایا : بل نحن قوم مسحورون یعنی ہم پر جادو کیا گیا ہے تخییل کی وجہ سے ہماری معرفت زائل کردی گئی ہے۔ جوہری نے کہا : السحر کا معنی الأخذہ ہے۔ ہر وہ چیز جس کا ماخذ لطیف ہو اور باریک ہو وہ سحر ہے۔ سحرہ یسحرہ سحراً والساحر، سحرہ کا معنی دھوکا دینا بھی ہے۔ یہ ہم ذکر کرچکے ہیں۔ حضرت ابن مسعود نے کہا : ہم زمانہ جاہلیت میں السحر کو العضہ کہتے تھے اور عربوں کے نزدیک العضہ کا مطلب بہت زیادہ ملمع سازی کرنا اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کو کہتے ہیں۔ شاعر نے کہا : اعوذ بربی من النافشات فی عضہ العاضہ المعضہ میں اپنے رب سے جادو میں پھونکے مارنے والیوں سے پناہ مانگتا ہوں۔ مسئلہ نمبر 4: کیا جادو کی حقیقت ہے یا نہیں۔ غزنوی حنفی نے “ عیون المعانی ” میں ذکر کیا ہے کہ معتزلہ کے نزدیک سحر دھوکا ہے اس کی کوئی اصل نہیں۔ امام شافعی کے نزدیک یہ وسوسہ اور امراض ہیں۔ فرمایا : ہمارے نزدیک اس کی اصل طلسم ہے جو ستاروں کی تاثیر پر مبنی ہوتا ہے جیسے فرعون کی لاٹھیوں کے بارے میں سورج کی تاثیر۔ یا اس میں شیاطین کی تعظیم ہوتی ہے تاکہ وہ اس کی مشکل کو آسان کردیں۔ میں کہتا ہوں : ہمارے نزدیک یہ حق ہے اور اس کی حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ پھر جادو میں کچھ وہ ہوتا ہے جو ہاتھ کی صفائی سے ہوتا ہے جیسے الشعوذہ (مداری کا تماشا) ۔ پھرتی سے کرتب دکھانے والے الشعوذی کہا جاتا ہے۔ ابن فارس نے “ المجمل ” میں کہا : الشعوذہ بادیہ نشینوں کے کلام سے نہیں ہے۔ یہ ہاتھوں میں پھرتی ہوتی ہے یہ جادو کی طرح ہے۔ اس سے کلام کچھ ہوتا ہے جو محفوظ کیا جاتا ہے اور دم ہوتے ہیں جو اللہ کے اسماء سے پڑھے جاتے ہیں کبھی یہ شیاطین کے عبود سے ہوتا ہے کبھی دواؤں سے اور دموؤں وغیرہ سے ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر 5: رسول اللہ نے کلام میں فصاحت اور زبان میں طاقت کو سحر کہا ہے۔ فرمایا : ان من البیان لسحراً (بیان میں سے بعض جادو ہوتے ہیں) اس حدیث کو امام مالک وغیرہ نے روایت کیا ہے کیونکہ اس میں بھی باطل کو درست کرنا ہوتا ہے حتیٰ کہ سامع اسے حق سمجھنے لگتا ہے۔ اس مفہوم کے اعتبار سے آپ ﷺ کا یہ ارشاد ان من البیان لسحراً (٭) ، فصاحت وبلاغت کی مدح اور بیان کی تفصیل کے لئے یہ ارشاد فرمایا ہے۔ یہ اہل علم کی ایک جماعت کا قول ہے پہلا قول اصح ہے اور اس کی دلیل نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : فلعل بعضکم ان یکون الحن بحجتہ من بعضٍ (1) (شاید کوئی تم میں سے دوسرے سے اپنی حجت کو بیان کرنے میں زیادہ فصیح وبلیغ ہو) اور فرمایا : ان ابغضکم الی الثرثارون المتفیھقون تم میں سے میرے نزدیک مبغوض لوگ زیادہ بولنے والے ہیں۔ الثرثرۃ، کلام کی کثرت اور اسے گھمانا ہے۔ کہا جاتا ہے : فھو ثرثار مھذا زیادہ باتیں کرنے والا، ہنسانے والا۔ المتفیھق بھی اس طرح ہے۔ ابن زید نے کہا : فلان یتفیھق فی کلامہ۔ وہ اپنے کلام میں وسعت رکھتا ہے۔ اس نے کہا اس کی اصل الفھق ہے جس کا معنی بھرنا ہے۔ گویا ایسا شخص کلام کے ساتھ اپنے منہ کو بھر دیتا ہے۔ میں کہتا ہوں : وہ معنی جو ہم نے بیان کیا ہے کی تفسیر عامر الشعبی جو حدیث کے راوی ہیں اور صعصہ بن صوحان نے کی ہے، دونوں حضرات نے کہا : نبی کریم ﷺ کا ارشاد ان من البیان لسحراً ایک شخص پر حق ہوتا تھا (2) اور وہ حقدار سے زیادہ چرب زبان ہوتا تھا وہ اپنے بیان سے قوم کو مسحور کردیتا تھا تو وہ حق لے جاتا حالانکہ اس پر حق ہوتا تھا۔ علماء نے بلاغت اور لسانت کی تعریف کی ہے جب وہ لمبی گفتگو کرنے اور باطل کو حق ثابت کرنے کی حد تک نہ پہنچے۔ یہ واضح ہے۔ مسئلہ نمبر 6: جادو کچھ ایسا ہوتا ہے جس کا کرنے والا کافر ہوجاتا ہے۔ مثلاً جو لوگوں کی صورتوں میں تبدیلی کرنے اور جانوروں کی ہیئت میں ان کو نکالنے، اور ایک مہینہ کی مسافت ایک رات میں طے کرنے، ہوا میں اڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں، جو اس قسم کا فعل کرے تاکہ لوگوں کو وہم دلائے کہ یہ حق ہے تو اس کی طرف سے کفر ہوگا۔ یہ ابو نصر عبد الرحیم قشیری کا قول ہے۔ ابو عمرو نے کہا : جو یہ کہتا ہے کہ ساحر حیوان کو ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف تبدیل کرنا ہے وہ انسان کو گدھا بنا دیتا ہے اور وہ اجساد کو نقل کرنے، انہیں ہلاک کرنے اور انہیں تبدیل کرنے پر قادر ہے وہ ایسے ساحر کے قتل کا نظریہ رکھتے ہیں کیونکہ وہ انبیاء سے کفر کرنے والا ہے وہ ان کی آیات اور معجزات کی مثل دعویٰ کرنے والا ہے اس طرح تو نبوت کی صحت کا علم درست نہیں رہے گا کیونکہ جب اس کی مثل حیلہ سے حاصل ہوجائے گا اور رہا وہ جو کہتا ہے کہ جادو، دھوکا، تمویہات، تخیلات اور جھوٹ کا نام ہے وہ جادو گر کو قتل کرنے کو واجب نہیں کہتا مگر یہ کہ اگر جادوگر اپنے فعل میں کسی کو قتل کردے تو اسے قتل کیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر 7: اہل سنت کا نظریہ یہ ہے کہ جادو ثابت ہے اس کی حقیقت ہے۔ عام معتزلہ اور شوافع میں سے ابو اسحاق استر آبادی کا نظریہ ہے کہ جادو کی کوئی حقیقت نہیں ہے یہ تمویہ اور تخیل ہے اور وہم دلانا ہے کہ چیز اپنی حقیقت پر نہیں ہے۔ یہ شعبدہ بازی اور ہاتھوں کی پھرتی کی ایک صورت ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یخیل الیہ من سحرھم وانھا تسعیٰ ۔ (طہ) (یوں دکھائی دینے لگیں ان کے جادو کے اثر سے جیسے وہ دوڑ رہی ہوں ) ۔ یہ نہیں فرمایا کہ یہ حقیقت میں دوڑ رہے تھے بلکہ فرمایا : یخیل الیہ (اسے خیال گزرتا تھا) اسی طرح فرمایا : سحروا اعین الناس (الاعراف :116) ۔ (انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا) ۔ اس میں کوئی حجت نہیں ہے کیونکہ ہم اس کا انکار نہیں کرتے کہ تخیل وغیرہ جادو میں سے ہے لیکن اس کے بعد ایسے امور ثابت ہیں عقل جن کو جائز قرار دیتی ہے اور نقل بھی ان کے متعلق وارد ہے۔ اسی وجہ سے اس آیت میں جادو اور اس کی تعلیم کا ذکر آیا ہے اگر اس کی حقیقت نہ ہوتی تو اس کی تعلیم نہ ہوتی، نہ اللہ تعالیٰ خبر دیتے کہ وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ یہ چیز دلیل ہے کہ اس کی حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے جادوگروں کے واقعہ میں فرمایا : وجاء و بسحرٍ عظیم۔ (اعراف) (اور مظاہرہ کیا انہوں نے بڑے جادو کا) اور سورة فلق میں اس کا ذکر فرمایا۔ مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سورت کے نزول کا سبب لبید بن اعصم کا جادو تھا۔ جس کا ذکر بخاری اور مسلم نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے، حضرت عائشہ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ پر بنی زریق کے یہودیوں میں سے ایک یہودی نے جادو کیا جس کو لبید بن اعصم کہا جاتا تھا (1) ۔ اس حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب جادو ختم ہوگیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دی شفاء علت کے ختم ہونے اور مرض کے زائل ہونے کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ دلیل ہے کہ اس کی حقیقت ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کی اخبار اس کے وجود اور وقوع پر قطع ہیں۔ اور صاحب عقل لوگوں کا اس پر اجماع ہے۔ چند معتزلیوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور ان کی اہل حق کی مخالفت قابل اعتناء نہیں، جادو عام ہوگیا ہے اور گزشتہ زمانہ میں بھی پھیلا ہوا تھا اور لوگوں نے اس کے بارے میں کلام کیا۔ صحابہ اور تابعین میں سے کسی نے اس کی اصل کا انکار نہیں کیا۔ سفیان نے ابو الاعور سے انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، فرمایا : مصر کے شہروں میں سے ایک شہر میں جادو سیکھا گیا جس لو الفرما کہا جاتا تھا۔ پس جس نے اس کی تکذیب کی وہ کافر ہے اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلانے والا ہے اور ایک مشاہدہ شدہ چیز کا انکار کرنے والا ہے۔ مسئلہ نمبر 8: ہمارے علماء نے فرمایا : اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جادو گر کے ہاتھ پر خارق للعادت عمل ظاہر ہو جو انسان کی قدرت میں نہیں ہوتا مثلاً مرض میں مبتلا کر دے، مرض کو ختم کر دے، عقل زائل ہوجائے، کوئی عضو ٹیڑھا کر دے۔ اس کے علاوہ چیزیں جن کا بندوں سے سر زد ہونا محال ہوتا ہے۔ علماء نے فرمایا : جادو میں یہ بعید نہیں کہ جادو گر کا جسم اتنا باریک ہوجائے کہ وہ کسی سوراخ یا چھوٹی سی کھڑکی میں داخل ہوجائے، بانس کے سرے پر کھڑے ہوجائے، باریک دھاگے پر چلنے لگے، ہوا میں اڑنے لگے، پانی پر چلنے لگے، کتے وغیرہ پر سوار ہوجائے، لیکن اس کے باوجود جادو نہ اس کا موجب ہوگا نہ اس عمل کے وقوع کی علت ہوگا نہ سبب مولد ہوگا اور نہ جادوگر اس میں مستقل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہی ان اشیاء کو پیدا فرماتا ہے اور جادو کے پائے جانے کے وقت وہ اسے تخلیق فرما دیتا ہے جس طرح کھانے کے وقت سیر ہونا پیدا فرماتا ہے پانی پینے کے وقت سیرابی پیدا فرماتا ہے۔ سفیان نے عمار ذہبی سے روایت کیا ہے کہ ایک جادو گر ولید بن عقبہ کے پاس ایک رسی پر چل رہا تھا وہ گدھے کی دبر سے داخل ہوتا اور اس کے منہ سے نکل جاتا، جندب نے اس پر تلوار سونتی اور اسے قتل کردیا۔ یہ جندب بن کعب ازدی تھے جنہیں البجلی کہا جاتا تھا۔ یہ وہی شخص تھا جس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا : (میری امت میں ایک شخص ہوگا جو جندب کہا جائے گا وہ تلوار مارے گا حق اور باطل کے درمیان فرق کر دے گا) اس کو جندب خیال کرتے تھے یہ جادوگر کا قاتل ہے۔ علی بن مدینی نے کہا : ان سے حارثہ بن مضرب نے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 9: مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ جادو کے وقت جو کچھ کرتا ہے جیسے مکڑی کا اتارنا، جوؤں اور مینڈک، دریا کا پھٹنا، عصا کا سانپ میں تبدیل ہونا، مردوں کو زندہ کرنا، جانوروں کو بلوانا اور اسی قسم کی دوسری آیات جو رسل سے ظاہر ہوئیں، یہ جادو میں سے نہیں ہیں۔ یہ معجزات اور ایسی دوسری چیزیں جن کا حکم قطعی ہے کہ وہ نہ ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ جادوگر کے ارادہ کے وقت ایسا نہیں کرے گا۔ قاضی ابوبکر بن طیب نے کہا : ہم اسے اجماع کی وجہ سے تسلیم نہیں کرتے اگر اجماع نہ ہوتا تو ہم جائز قرار دیتے۔ مسئلہ نمبر 10: جادو اور معجزہ کے درمیان فرق : ہمارے علماء نے فرمایا : جادو جادوگر وغیرہ سے پایا جاتا ہے کبھی اس کو ایک جماعت جانتی ہے اور ان کے لئے ایک وقت میں اس کا لانا ممکن ہوتا ہے اور معجزہ وہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مثل اور اس کا معارض پیش کرنے کی کسی کو قدرت ہی نہیں دیتا، پھر جادوگر نبوت کا دعویٰ نہیں کرتا پس اس سے جو صادر ہوتا ہے وہ معجزہ سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ معجزہ کے لئے نبوت کا دعویٰ اور اس کا چیلنج شرط ہے جیسا کہ کتاب کے مقدمہ میں گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 11: فقہاء کا مسلم اور ذمی جادوگر کے حکم میں اختلاف ہے۔ امام مالک کا نظریہ یہ ہے کہ مسلمان جب ایسے کلام سے جادو کرے جو کفر ہو تو اسے قتل کیا جائے اور اس سے توبہ طلب نہیں کی جائے گی اور نہ اس کی توبہ قبول کی جائے گی کیونکہ یہ ایسا امر ہے جس کے ساتھ وہ خوش ہوتا ہے جیسے زندیق اور زانی ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے جادو کو کفر کہا ہے۔ فرمایا : وما یعلمن من احدٍ حتی یقولا انما نحن فتنۃٌ فلا تکفر (البقرہ : 102) (اور (کچھ) نہ سکھاتے تھے وہ دونوں کسی کو جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو تیری آزمائش ہیں (ان پر عمل کر کے) کفر مت کرنا) یہ امام احمد بن حنبل، ابو ثور، اسحاق، امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت ابن عمر، حضرت حصہ، حضرت ابو موسیٰ ، حضرت قیس بن سعد اور سات تابعین سے جادوگر کا قتل کرنا مروی ہے۔ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے، جادوگر کی حد تلوار سے اسے مارنا ہے۔ یہ ترمذی نے نقل کی ہے اور یہ قوی نہیں ہے۔ اسماعیل بن مسلم منفرد ہے اور وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ ابن عینیہ نے اسماعیل بن مسلم عن الحسن کے سلسلہ میں مرسلاً روایت کی ہے اور بعض علماء نے عن الحسن عن الجندب کے سلسلہ سے روایت کیا ہے۔ ابن منذر نے کہا : ہم نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے آپ نے ایک جادوگرنی بیچی تھی جس نے جادو کیا تھا اور اس کی قیمت غلاموں کے آزاد کرنے میں لگائی تھی۔ ابن منذر نے کہا : جب کوئی شخص اقرار کرے کہ اس نے ایسے کلام سے جادو کیا ہے جو کفر تھا تو اس کا قتل کرنا واجب ہے اگرچہ وہ توبہ نہ بھی کرے اسی طرح اگر اس پر گواہوں سے ثابت ہوجائے اور وہ گواہ کلام کی ایسی صفت بیان کریں جس سے کفر لازم آتا ہے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔۔۔۔ اگر وہ کلام جو اس نے ذکر کیا ہے، جس کے ساتھ اس نے جادو کیا ہے، وہ کفر نہیں ہے تو اس کا قتل کرنا جائز نہیں۔ اگر اس نے مسحور میں کوئی جنابت پیدا کردی جو قصاص کا موجب ہے تو اس نے یہ عمل عمداً کیا ہے تو اس سے قصاص لیاجائے گا۔ اگر وہ ایسی جنابت ہے جس میں قصاص نہیں ہے تو اس میں اس کی دیت ہوگی۔۔۔ ابن منذر نے کہا : جب کسی مسئلہ میں نبی کریم ﷺ کے صحابہ کا اختلاف ہو تو اس قول کی اتباع واجب ہے جو کتاب وسنت کے زیادہ موافق ہو اور یہ جائز ہے کہ جو جادو جس کے کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا وہ ایسا جادو ہو جو کفر ہو تو یہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے موافق ہے اور یہ احتمال ہے کہ حضرت عائشہ نے جس جادوگرنی کے بیچنے کا حکم فرمایا وہ جادو کفر نہ ہو اور اگر کوئی جندب کی حدیث سے حجت پکڑے تو حضرت جندب نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے جادوگر کی حد، اسے تلوار سے مارنا ہے۔ اگر یہ صحیح ہو تو احتمال ہے کہ اس جادو گر کے قتل کا حکم ہو جس کا جادو کفر ہو۔ تو ان اخبار کے موافق ہوگا جو نبی کریم ﷺ سے مروی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان آدمی کا خون حلال نہیں مگر تین چیزوں میں سے ایک چیز پائے جانے کے ساتھ۔ (1) میں کہتا ہوں : یہ صحیح ہے مسلمانوں کے خون بہانا ممنوع ہیں ان کو یقین کے بغیر مباح نہیں کیا جاسکتا اور اختلاف کے ہوتے ہوئے یقین نہیں ہوا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ بعض علماء نے فرمایا کہ اہل فن نے کہا : جادو مکمل نہیں ہوتا مگر کفر اور تکبر کے ساتھ یا شیطان کی تعظیم کے ساتھ۔ پس اس تقدیر پر جادو کفر پر دال ہوگا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ امام شافعی سے مروی ہے کہ جادوگر کو قتل نہیں کیا جائے گا مگر یہ کہ وہ اپنے جادو سے کسی کو قتل کر دے اور وہ کہے کہ میں نے جان بوجھ کر قتل کیا ہے۔ اگر وہ کہے کہ میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور اس میں قتل خطا کی طرح دیت ہوگی۔ اگر اس نے جادو کے ساتھ کسی کو نقصان پہنچایا تو اسے اس کے نقصان کی مقدار ادب سکھایا جائے گا۔ ابن عربی نے کہا : یہ دو اعتبار سے باطل ہے ایک یہ کہ اسے جادو کا علم نہیں تھا اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ مؤلف کلام ہے جس کے ساتھ غیر اللہ کی تعظیم کی جاتی ہے اور ان کی طرف مقادیر اور کائنات کی نسبت کی جاتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تصریح فرمائی کہ یہ کفر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وما کفر سلیمن یعنی حضرت سلیمان نے جادو کے قول کے ساتھ کفر نہیں کیا۔ ولکن الشیطین کفروا یعنی شیاطین نے جادو کر کے اور اس کی تعلیم کے ساتھ کفر کیا۔ ہاروت وماروت کہتے تھے ہم فتنہ ہیں، تو کفر نہ کر۔ یہ بیان کی تاکید ہے۔ امام مالک کے اصحاب نے حجت پکڑی ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ جادو ایک پوشیدہ عمل ہے اس کا کرنے والا اسے ظاہر نہیں کرتا۔ پس اس کی توبہ معروف نہیں ہوگی جیسے زندیق ہے۔ جو مرتد ہو کر کفر کا اظہار کرے اس سے توبہ طلب کی جائے گی۔ امام مالک نے فرمایا : اگر جادوگر یا زندیق توبہ کرلے، اس سے پہلے کہ اس کے خلاف گواہی دی جائے، تو ان کی توبہ قبول ہوگی۔ اس کی حجت یہ ارشاد ہے : فلم یک ینفعھم ایمانھم لما روا باسنا (غافر :85) (انہیں نفع نہ دیا ان کے ایمان نے جب انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا) یہ دلیل ہے کہ عذاب کے نزول سے پہلے ان کا ایمان انہیں نفع دیتا تھا۔ اسی طرح یہ دونوں (ساحر، زندیق) ہیں۔ مسئلہ نمبر 12: رہا ذمی جادوگر، بعض علماء نے فرمایا : اسے قتل کیا جائے گا۔ امام مالک نے فرمایا : اسے قتل نہیں کیا جائے گا مگر یہ کہ وہ اپنے جادو سے کسی کو قتل کر دے، اور جو اس نے جنایت کی ہوگی اس کا ضمان دے گا۔ اگر کوئی ایسا کافر شخص جادو کرے جس کے ساتھ معاہدہ نہیں ہے تو اسے قتل کیا جائے گا (1) ، ابن خویز منداد نے کہا : اگر جادو گر ذمی ہو تو امام مالک سے اس کے متعلق روایت مختلف ہے۔ کبھی فرمایا : اس سے توبہ طلب کی جائے گی اور اس کی توبہ اسلام کا اقرار ہے، کبھی فرمایا : اسے قتل کیا جائے گا اگرچہ وہ اسلام قبول کر بھیلے۔ رہا حربی تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا جب وہ توبہ کرلے۔ اسی طرح امام مالک نے اس ذمی کے بارے فرمایا جو نبی کریم ﷺ کی شان میں بد زبانی کرے اس سے توبہ طلب کی جائے گی اور اس کی توبہ اسلام قبول کرنا ہے کبھی فرمایا : اسے قتل کیا جائے گا اور اس سے توبہ طلب نہیں کی جائے گی جیسے مسلمان کے ساتھ ہوتا ہے۔ امام مالک نے ذمی کے بارے میں فرمایا : جب وہ جادو کرے، تو اسے سزا دی جائے گی مگر یہ کہ وہ اپنے جادو کے ساتھ کسی کو قتل کرے یا کوئی اور جنایت کر دے تو اس کے جرم کی مقدار اس سے مؤاخذہ کیا جائے گا۔ دوسرے علماء نے فرمایا : اسے قتل کیا جائے گا کیونکہ اس نے عہد کو توڑا اور جادوگر کا وارث، جادوگر کی میراث نہیں پائے گا کیونکہ جادو گر کافر ہے، مگر یہ کہ اس کا جادو کفر نہ ہو۔۔۔۔ امام مالک نے اس عورت کے متعلق فرمایا جو اپنے خاوند کو اپنے سے جادو کے ذریعے روک لیتی ہے یا کسی اور سے روک لیتی ہے تو اسے عبرت ناک سزا دی جائے گی اور اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر 13: اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ کیا ساحر (جادوگر) سے جادو کو دور کرنے کا سوال کیا جائے گا ؟ حضرت سعید بن مسیب نے اس کو جائز قرار دیا جیسا کہ امام بخاری نے ذکر کیا ہے اور اسی کی طرف مزنی کا میلان ہے۔ حضرت حسن بصری نے اس کو ناپسند کیا ہے۔ شعبی نے کہا : تعویذ اور دم سے علاج کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ابن بطال نے کہا : وہب بن منبہ کی کتاب میں ہے کہ سبز سات پتے بیری کے لے پھر اسے دو پتھروں کے درمیان پیس دے پھر اسے پانی میں ملائے اور اس پر آیۃ الکرسی پڑھے پھر اس سے تین گھونٹ پی لے اور بقیہ پانی کے ساتھ غسل کرے، اس عمل سے جو کچھ اسے ہوگا وہ دور ہوجائے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ یہ ایک عمدہ عمل ہے اس شخص کے لئے جسے اپنے اہل سے حقوق زوجیت سے روکا گیا ہو۔ مسئلہ نمبر 14: معتزلہ کے علماء نے شیاطین اور جنوں کا انکار کیا ہے۔ ان کا انکار ان کی کم فکری اور دین کی کمزوری پر دلالت کرتا ہے۔ ان کے اثبات میں کوئی عقلی محال نہیں ہے کتاب وسنت کی نصوص ان کے اثبات پر دلالت کرتی ہے اور عقلمند اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے والے پر حق ہے کہ جس کا عقل تقاضا کرے اس کے جواز کو ثابت کرے۔ شرع نے اس کے ثبوت پر نص قائم فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ولکن الشیطین کفروا (شیطانوں نے کفر کیا) اور فرمایا : ومن الشیطین من یغوصون لہ (الانبیاء : 82) (شیطانوں میں سے جو (سمندروں میں) غوطہ زنی کرے) اس کے علاوہ دوسری آیات اور سورة جن ان کے ثبوت کا تقاضا کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ان الشیطان یجری من ابن أدم مجری الدم (1) ۔ (شیطان ابن آدم میں خون کی طرح چلتا ہے) اس خبر کا بہت سے لوگوں نے انکار کیا ہے اور انہوں نے ایک جسم میں دو خون کا ہونا محال قرار دیا ہے جبکہ عقل انسانی میں ان کے چلنے کو محال قرار نہیں دیتی جبکہ شیطانوں کے اجسام رقیق اور بسیط ہیں جیسا کہ بعض لوگ بلکہ اکثر لوگ کہتے ہیں۔۔۔۔ اگر ان کے جسم کثیف بھی ہوتے تو بھی صحیح تھا جیسا کہ کھانا، پینا جسم میں داخل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کیڑے بنی آدم میں ہوتی ہیں جبکہ وہ بھی زندہ ہوتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 15: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما انزل علی الملکین، مانفی کے لئے ہے واو عاطفہ ہے اس کا عطف وما کفر سلیمن پر ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ یہود نے کہا اللہ تعالیٰ نے جبریل ومیکائیل کو جادو کے ساتھ اتارا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی نفی فرمائی (2) ۔ کلام میں تقدیم وتاخیر ہے۔ تقدیر اس طرح ہے : وما کفر سلیمان وما انزل علی الملکین ولکن الشیاطین کفروا یعلمون الناس السحر ببابل ھاروت وماروت، ہاروت اور ماروت ولکن الشیطین کفروا میں الشیطین سے بدل ہے (3) ۔ جن صورتوں پر یہ آیت محمول کی گئی ہے ان میں سے یہ صورت اولیٰ ہے۔ جو کچھ کہا گیا ہے اس میں سے اصح ہے اور اس کے سوا کسی قول کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔ جادو، شیاطین کے جوہر کی لطافت اور ان کے افہام کی رقت کی وجہ سے ان سے حاصل کیا جاتا ہے اکثر انسانوں میں سے اسے عورتیں کرتی ہیں خصوصاً حیض کی حالت میں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ومن شر النفثت فی العقد۔ (فلق) شاعرنے کہا : اعوذ بربی من النافشات میں پھونکیں مارنے والیوں سے اپنے رب کی پناہ مانگتا ہوں۔ مسئلہ نمبر 16: اگر کوئی یہ کہے کہ جمع سے تثنیہ کیسے بدل ہو سکتا ہے حالانکہ مبدل منہ اور بدل ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اس کا جواب تین اعتبار سے ہے : (1) تثنیہ پر جمع کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فان کان لہ اخوۃٌ فلامہ السدس (النساء :11) اور ماں کو ثلث (1/3) سے السدس (1/6) کی طرف صرف دوبھائی یا دو سے زیادہ ہی محجوب کرتے ہیں جیسا کہ سورة نساء میں آئے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ دو جب تعلیم میں اصل تھے تو ان پر نص قائم فرما دی۔ ان کے متبعین کا ذکر نہ کیا جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : علیھا تسعۃ عشر۔ (مدثر) (اس پر نو فرشتے مقرر ہیں) تیسری وجہ یہ ہے کہ ان کا خصوصی ذکر کیا ان کے تمرو وسرکشی کی وجہ سے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فیھما فاکھۃٌ ونخلٌ ورمانٌ۔ (الرحمن) (ان باغوں میں پھل، کھجور اور انار ہیں) اور (جبریل ومیکائیل) کا قول۔ یہ قرآن میں اور عرب کلام میں کثرت سے ہے کہ عموم میں سے بعض کو خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے ان کے شرف کی وجہ سے اور ان کی فضیلت کی وجہ سے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان اولی الناس بابرھیم للذین اتبعوہ وھذا النبی (آل عمران : 68) (بےشک نزدیک تر لوگ ابراہیم (علیہ السلام) سے وہ تھے جنہوں نے ان کی پیروی کی نیز اور وجبریل ومیکال ان کے ذکر کی حکمت یا تو ان کی اعلیٰ طہارت کی وجہ سے ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاکھۃ ٌ ونخلٌ ورمانٌ۔ (الرحمٰن) یا اکثریت کی وجہ سے جیسے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : جعلت لی الارض مسجداً وتری تھا طھور اً (1) ۔ میرے لئے زمین سجدہ گاہ اور اس کی مٹی طہار کا باعث بنائی گئی ہے یا تمر دوسرکشی کی وجہ سے ہوتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے۔ واللہ اعلم۔ بعض علماء نے فرمایا : ما کا عطف السحر پر ہے اور یہ مفعول ہے اس بنا پر ما، الذی کے معنی میں ہوگا اور جادو، دو فرشتوں پر لوگوں کے فتنہ اور آزمائش کے لئے اتارا گیا تھا (2) اور اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ چاہے اپنے بندوں کو آزمائے اس کی شان کو زیبا ہے۔ جیسے اس نے طالوت کو نہر سے آزمایا تھا اسی وجہ سے وہ فرشتے کہتے : انما نحن فتنۃٌ (ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہیں) ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ جادوگر کا عمل کفر ہے اگر تو ہماری اطاعت کرے گا تو نجات پائے گا اور اگر ہماری نافرمانی کرے گا تو ہلاک ہوگا۔ حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، کعب احبار، سدی اور کلبی سے اس کا معنی مروی ہے۔ جب اولاد آدم میں فساد زیادہ ہوگیا تھا۔۔۔۔ یہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے زمانہ میں تھا۔۔۔۔ ملائکہ نے انہیں عار دلائی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اگر تم ان کی جگہ ہوتے اور تم میں ان عناصر کی ترکیب ہوتی جو ترکیب ان میں ہے تو تم بھی ان جیسے اعمال کرتے۔ فرشتوں نے کہا : تیری ذات پاک ہے ہمارے لئے تو یہ مناسب نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تم اپنے اعلیٰ فرشتوں میں سے دو فرشتوں کا انتخاب کرو۔ انہوں نے ہاروت وماروت کو چنا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین میں اتارا اور ان میں شہوات کا عنصر رکھ دیا، ان پر ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ ایک عورت کے عشق میں مبتلا ہوگئے اس عورت کا نام نبطی زبان میں (بیدخت) فارسی میں ناھیل اور عربی میں زہرہ تھا، وہ ان کے پاس جھگڑا لے کر آئی اور ان دونوں فرشتوں نے اس سے خواہش پوری کرنی چاہی تو اس نے انکار کیا، مگر یہ کہ وہ دونوں اس کے دین میں داخل ہوجائیں، شراب پئیں اور اس نفس کو قتل کریں جس کو اللہ نے حرام کیا ہے۔ انہوں نے اس کی شرائط قبول کرلیں اور انہوں نے شراب پی۔ وہ جب اس کے پاس گئے تو انہیں ایک شخص نے دیکھ لیا انہوں نے اسے قتل کردیا۔ ان فرشتوں سے اس عورت نے اس اسم کے بارے پوچھا جس کے ذریعے وہ آسمان پر چڑھ جاتے تھے۔ وہ بھی انہوں نے اسے سکھا دیا۔ اس نے وہ کلمہ پڑھا اور اوپر چڑھ گئی۔ اسے ایک ستارہ کی شکل میں مسخ کردیا۔ سالم نے اپنے باپ سے انہوں نے حضرت عبد اللہ روایت کیا ہے کہ مجھے کعب الحبر نے بتایا کہ ان دونوں فرشتوں نے اپنا دن مکمل نہ کیا حتیٰ کہ انہوں نے وہ سب کام کر دئیے جو اللہ تعالیٰ نے حرام کیے تھے۔ اس حدیث کے علاوہ میں ہے۔ ان فرشتوں کو دنیا کے عذاب اور آخرت کے عذاب میں اختیار دیا گیا تو انہوں نے دنیا کا عذاب اختیار کیا۔ انہیں بابل میں ایک سرنگ میں عذاب دیا جا رہا ہے۔ بعض نے کہا : بابل سے مراد بابل عراق میں ہے۔ بعض نے کہا : بابل نہاوند ہے (1) ، عطا سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر جب زہرہ ستارہ اور سہیل ستارہ کو دیکھتے تو انہیں برا بھلا کہتے اور فرماتے : سہیل یمن میں عشر وصول کرتا تھا اور لوگوں پر ظلم کرتا تھا اور زہرہ ہاروت وماروت کی دوت تھی۔ ہم کہتے ہیں : یہ سب حضرت ابن عمر وغیرہ سے بعید اور ضعیف ہے کوئی چیز بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس قلو کو ان فرشتوں کے متعلق اصول رد کرتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی وحی پر امین ہیں اس کے رسولوں کے سفیر ہیں لا یعصون اللہ ما امرھم ویفعلون ما یؤمرون۔ (التحریم) (نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی جس کا اس نے انہیں حکم دیا ہے اور فوراً بجا لاتے ہیں جو حکم نہیں فرمایا جاتا ہے) بل عبادٌ مکرمون۔ لا یسبقونہ بالقول وھم بامرہ یعملون۔ (الانبیاء) (بلکہ وہ تو (اس کے) معزز بندے ہیں نہیں سبقت کرتے اس سے بات کرنے میں اور وہ اس کے حکم پر کاربند ہیں) یسبحون الیل والنھارلا یفترون۔ (الانبیاء) وہ اس کی پاکی بیان کرتے رہتے ہیں رات دن اور وہ اکتاتے نہیں) رہی عقل تو وہ فرشتوں کے معصیت میں واقع ہونے کا انکار نہیں کرتی۔ عقلاً ان سے اس کا خلاف پایا جاسکتا ہے جن کا انہیں مکلف کیا گیا ہے ان میں شہوات پیدا کی جاسکتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے۔ اسی وجہ سے انبیاء، اولیاء، فضلا، علماء کا خوف تھا لیکن اس جائز کے وقوع کا ادراک نہیں ہو سکتا مگر نقل کے ساتھ۔ اور وہ نقل صحیح نہیں ہے ایک اور چیز جو اس واقعہ کی عدم صحت پر دلالت کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو پیدا فرمایا اور ان کواکب کو پیدا فرمایا جب آسمان کو پیدا فرمایا۔ حدیث میں ہے : جب آسمان کو پیدا کیا گیا تو اس میں سات گردش کرنے والے ستارے پیدا کئے : زحل، مشتری، بہرام، عطارد، زہرہ، سورج اور چاند۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کل فی فلکٍ یسبحون۔ (الانبیاء) کا یہی معنی ہے اس سے ثابت ہوا کہ زہرہ اور سہیل یہ آدم کی تخلیق سے پہلے موجود تھے پھر فرشتوں کا یہ قول جو نقل کیا گیا ہے کہ “ ہمارے لئے یہ مناسب نہیں ” باعث عار ہے، تو ہمیں آزمانے پر قادر نہیں یہ کفر ہے ہم اللہ تعالیٰ کی اس سے پناہ مانگتے ہیں اور معزز فرشتوں کی طرف ایسی نسبت کرنے سے پناہ مانگتے ہیں ہم ان کی پاکیزگی اور طہارت بیان کرتے ہیں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے اور جو کچھ مفسرین نے نقل کیا ہے اس سے فرشتے پاک ہیں : سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون۔ مسئلہ نمبر 17: حضرت ابن عباس، ابن ابزی، ضحاک اور حسن نے الملکین (لام کے کسرہ کے ساتھ) پڑھا ہے۔ ابن ابزی نے کہا : وہ داؤد اور سلیمان میں اس قول کے مطابق ما نافیہ ہے نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہے۔ حسن نے کہا : یہ دو عجمی کافر تھے بابل کے بادشاہ تے اس قول کے مطابق ما مفعولہ ہوگا نافیہ نہ ہوگا۔ (1) مسئلہ نمبر 18: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ببابل یہ تانیث اور تعریف اور عجمہ کی وجہ سے غیر منصرف ہے یہ زمین کا ایک قطر ہے۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد عراق اور اس کے اردگرد کا علاقہ ہے۔ حضرت ابن مسعود نے اہل کوفہ سے کہا : تم حیرہ اور باطل کے درمیان ہو۔ قتادہ نے کہا : یہ نصیبین سے راس العین تک کا علاقہ ہے۔ ایک قوم نے کہا : یہ مغرب ہے۔ ابن عطیہ نے کہا (2): یہ ضعیف ہے ایک قوم نے کہا : نہاوند کا پہاڑ ہے۔ بابل نام رکھنے کی وجہ میں اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : اس کا یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ اس میں زبانیں گڈمڈ ہوتی تھیں جب نمرود کا محل گرا تھا۔ بعض نے فرمایا : یہ نام اس لئے رکھا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب ارادہ فرمایا کہ بنی آدم کی زبانوں کے درمیان اختلاف پیدا فرمائے تو اس نے ایک ہوا بھیجی تو اس نے لوگوں کو آفاق سے بابل تک جمع کردیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی زبانوں کو گڈ مڈ کردیا پھر اس ہوا نے انہیں شہروں میں جدا جدا کردیا۔ البلبۃ کا معنی ہے، جدا جدا کرنا۔ فرمایا : اس کا معنی الخلیل ہے۔ ابو عمر بن عبد البر نے کہا : جو کچھ البلبہ کے بارے میں کہا گیا اس میں سب سے بہتر وہ روایت ہے جو داؤد بن ابی ہند نے علیاء بن احمر سے انہوں نے حضرت عکرمہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) جب جودی پہاڑ سے نیچے اترے تو انہوں نے ایک شہر بنایا جس کا نام ثمانین (اسی 80) رکھا۔ ایک دن صبح کی تو اس میں اتنی زبانیں بولی جا رہی تھیں ان میں سے ایک عربی زبان تھی۔ لوگ ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھ رہے تھے۔ مسئلہ نمبر 19: عبد اللہ بن بشر مازنی نے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا سے بچو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! یہ دنیا ہاروت وماروت سے بھی زیادہ جادوگر ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : دنیا ان سے زیادہ جادوگر ہے کیونکہ دنیا تجھے اپنے دھوکے کے ساتھ مسحور کرتی ہے، اپنے فتنہ کو تجھ سے چھپاتی ہے۔ پس یہ تجھے اپنے حرص اور اپنے حصول کے لئے مقابلہ کی دعوت دیتی ہے، اس کے لئے جمع کرنا اور منع کرنا ہے حتیٰ کہ تیرے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے درمیان جدائی کردیتی ہے تیرے اور حق تعالیٰ کی رویت اور اس کی رعایت کے درمیان فرق کردیتی ہے۔ پس دنیا ان دونوں سے زیادہ مسحور کن ہے۔ یہ تیرے دل کو اللہ تعالیٰ اور اس کے حقوق ادا کرنے اور وعدہ اور وعید سے روک لیتی ہے دنیا کا جادو، اس کی محبت، اس کی شہوات، تیرا لذت حاصل کرنا اور جھوٹی تمناؤں کے ساتھ تیرا تمنا کرنا ہے حتیٰ کہ تیرے دل کو یہ چیزیں گھیر لیتی ہیں۔ اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حبک الشیء یعمی ویصم۔ تجھے کسی شے کی محبت اندھا اور بہرہ کردیتی ہے۔ مسئلہ نمبر 20: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ھاروت وماروت یہ غیر منصرف ہیں کیونکہ یہ عجمی ور معرفہ ہیں ان کی جمع ھواریت اور مواریت ہے جیسے طواغیت، کہا جاتا ہے ھوارتہ وھوار ومعوارتہ وموار اس کی مثل جالوت اور طالوت ہے، یہ پیچھے گزر چکا ہے کہ یہ دونوں فرشتے تھے یا اس کے علاوہ تھے۔ اس میں اختلاف ہے زجاج نے کہا : حضرت علی ؓ سے مروی ہے، انہوں نے فرشتوں پر جو اتارا گیا تھا اور فرشتے جادو سے ڈرانے کی تعلیم لوگوں کو دیتے تھے نہ ان کی طرف دعوت دینے کی تعلیم دیتے تھے۔ زجاج نے کہا : یہ اکثر اہل لغت اور اہل نظر لوگوں کا قول ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اس سے رکنے کی تعلیم دیتے تھے وہ انہیں کہتے تھے کہ ایسا نہ کرو ایسا حیلہ نہ کرو تاکہ تم مرد اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق کر دو ۔ اس پر نہی (روکنا) اتارا گیا تھا وہ گویا لوگوں سے کہتے ایسا عمل نہ کرو۔ یعلمان بمعنی یعلمان (آگاہ کرتے تھے) جیسا کہ فرمایا ولقد کرمنا بنی ادم (الاسراء :70) اس میں کزم بمنی اکرم ہے۔ مسئلہ نمبر 21: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما یعلمن من احدٍ ، من تاکید کے لئے زائدہ ہے تقدیر اس طرح ہے : ویعلمان احداً ، حتیٰ یقولا، حتیٰ کہ وجہ سے نصب دی گئی ہے اسی وجہ سے نون حذف کیا گیا ہے ہذیل اور ثقیف کی لغت عتی (یعنی عین غیر معجمہ کے ساتھ) ہے اور یعلمان میں ضمیر ہارون وماروت کے لئے ہے (1) ۔ یعلمان کے بارے میں دو قول ہیں : (1) یہ تعلیم سے اپنے باب سے ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ اعلام سے ہے، التعلیم سے نہیں ہے۔ پس یعلمان بمعنی یغلمان ہوگا۔ کلام عرب میں تعلم بمعنی اعلم آیا ہے۔ ابن الاعرابی (2) اور ابن الانباری نے یہ ذکر کیا ہے۔ کعب بن مالک نے کہا : تعلم رسول اللہ انک مدر کی وان وعیداً منک کالاخذ بالید رسول اللہ ﷺ نے آگاہ کیا کہ تو مجھے پانے والا ہے اور تیری وعید، ہاتھ سے پکڑے کی طرح ہے۔ القطامی نے کہا : تعلم ان بعد الغی رشدا وان لذلک الغی انقشاعاً اس نے آگاہ کیا کہ گمراہی کے بعد ہدایت ہے، اس گمراہی کو (ایک دن) چھٹنا ہے۔ زہیر نے کہا : تعلمن ھا لعمر اللہ ذاقسما فاقدر بذرعک وانظر این تنسلک ایک اور شاعر کا قول ہے : تعلم انہ لا طیر الا علی متطیر وھو الثبور ان تمام اشعار میں تعلم بمعنی اعلم استعمال ہوا ہے۔ انما نحن فتنۃ ٌ جب فرشتوں نے اپنا فتنہ ہونا بتا دیا تو دنیا ان سے زیادہ مسحور کن ہوئی جبکہ وہ اپنے فتنہ کو چھپاتی ہے۔ فلا تکفر ایک جماعت نے کہا : جادو کی تعلیم کے ساتھ کفر نہ کر، ایک فرقہ نے کہا : جادو کے استعمال کے ساتھ کفر نہ کر۔ مہدوی نے کہا : یہ استہزا ہے کیونکہ وہ دونوں اسے یہ کہتے جس کی گمراہی محقق ہوتی۔ (1) مسئلہ نمبر 22: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فیتعلمون منھما سیبویہ نے کہا : تقدیر عبارت فھم یتعلمون ہے اس کی مثل فرمایا : کن فیکون ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ ما یعلمان کے محل پر معطوف ہے کیونکہ (وما یعلمان) اگر اس پر مانافیہ داخل ہوا ہے تو اس کے ضمن میں تعلیم میں ایجاب ہے (2) ۔ فراء نے کہا یہ قول یعلمون الناس السحر کی طرف لوٹایا گیا ہے یعنی وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور سیکھتے تھے۔ اور فیتعلمون کا قول انما نحن فتنۃٌ کے قول سے متصل ہوگا۔ پس وہ آتے تھے اور سیکھتے تھے۔ سدی نے کہا : وہ دونوں کہتے تھے جو بھی ان کے پاس آتا تھا ہم آزمائش ہیں تو کفر نہ کر اگر وہ لوٹنے سے انکار کرتا تو وہ اسے کہتے راکھ لے آ اور اس میں پیشاب کر جب وہ پیشاب کرتا تو اس سے ایک نور نکلتا جو آسمان کی طرف چڑھ جاتا۔ یہ ایمان ہوتا تھا۔ پھر اس سے سیادہ دھواں نکلتا تھا وہ اس کے کان میں داخل ہوجاتا تھا یہ کفر تھا۔ جب وہ انہیں اس کے متعلق بتاتا جو اس نے دیکھا ہوتا تو وہ اسے جادو بتاتے جس کے ساتھ وہ میاں بیوی میں جدائی کرتا (3) ۔ علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ جادوگر اس سے زیادہ پر قادر نہیں ہوتا جو اللہ تعالیٰ نے تفریق کے متعلق بتایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جادو کی مذمت اور اس کی تعلیم کی غایت کا اظہار کرنے کے لئے اس کو ذکر کیا ہے، اگر وہ اس سے زیادہ پر قادر ہوتا تو اسے بھی ذکر فرماتا۔ ایک طائفہ نے کہا : یہ اغلب سے ذکر کیا ہے۔ اس کا انکار نہیں کہ جادو کی دلوں میں تاثیر ہوتی ہے، محبت، بعض اور شر پیدا کرنے کے اعتبار سے حتیٰ کہ جادو گر میاں، بیوی کے درمیان تفرقہ ڈال دیتا ہے۔ اور وہ مرد اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ یہ تکالیف کے داخل کرنے اور بڑی بڑی بیماریوں میں مبتلا کرنے کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ سب مشاہدہ سے پایا گیا ہے اور اس کا انکار ہٹ دھرمی ہے۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 23: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وماھم بضارین بہ من احدٍ الا باذن اللہ، ما ھم یہ جادوگروں کی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے فرمایا : یہود کی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے کہا : شیاطین کی طرف اشارہ ہے بضارین بہ، بہ کی ضمیر جادو کی طرف لوٹ رہی ہے من احدٍ میں من زائدہ ہے۔ الا باذن اللہ اللہ کے ارادہ اور اس کی قضا سے نہ کہ اس کے امر سے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ برائیوں کا حکم نہیں دیتا اور اس کے ساتھ اپنی مخلوق پر فیصلہ فرماتا ہے۔ زجاج نے کہا الا باذن اللہ کا مطلب ہے الا بعلم اللہ (یعنی اللہ علم سے ) ۔ نحاس نے کہا ابو اسحاق کا قول، الا باذن اللہ، الا بعلم اللہ کے معنی میں ہے، غلط ہے کیونکہ علم میں وقد اذنت اذنا کہا جاتا ہے، لیکن ان کے اور اس کے درمیان یہ حلال نہیں تھا اور وہ ایسا کرتے تھے تو گویا اس نے مجازاً مباح کردیا۔ مسئلہ نمبر 24: ویتعلمون ما یضرھم یعنی آخرت میں نقسان دے گی۔ اگرچہ انہوں نے دنیا میں اس کے ساتھ تھوڑا سا نفع حاصل کیا۔ بعض نے فرمایا : دنیا میں وہ اسے نقصان دے گا کیونکہ جادو کا نقصان اور تفریق دنیا میں جادو گر پر لوٹتی ہے جب وہ دریافت ہوجائے، کیونکہ اسے تادیب کی جاتی ہے اور اسے جھڑکا جاتا ہے اور اسے جادو کی نحوست لاحق ہوتی ہے۔ باقی آیات واضح ہیں کیونکہ ان کا معنی پہلے گزر چکا ہے۔ ولقد علموا میں لام تاکید ہے لمن اشتراہ لام قسم کے لئے ہے یہ بھی تاکید کے لئے ہے اور من محل رفع میں مبتدا ہے کیونکہ لام کا ما قبل اس کے مابعد میں عمل نہیں کرتا۔ اور من بمعنی الذی ہے۔ فراء نے کہا : یہ مجازات کے لئے ہے۔ زجاج نے کہا : یہ شرط کی جگہ نہیں ہے اور من بمعنی الذی ہے جیسے تو کہتا ہے : علمت لمن جاءک مالہ عقلٌ۔ (من خلاق) من زائدہ ہے تقدیر اس طرح ہے مالہ فی الاخرۃ خالق اور مثبت کلام میں من زائدہ نہیں ہوتا۔ یہ بصریوں کا قول ہے۔ کو فیوں نے کہا : کبھی مثبت میں بھی زائدہ ہوتا ہے اور انہوں نے اس قول سے استدلال کیا ہے : ویغفرلکم ذنوبکم (آل عمران :31) الخلاق کا معنی حصہ ہے۔ یہ مجاہد کا قول ہے (1) ۔ زجاج نے کہا : اہل لغت کے نزدیک اسی طرح ہے مگر یہ خیر کے حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس ارشاد کے متعلق پوچھا گیا : ولقد علموا لمن اشتراہ مالہ فی الاخرۃ من خالق پہلے بتایا کہ وہ جان چکے تھے پھر فرمایا ولبئس ما شروا بہ انفسھم لو کانوا یعلمون بتایا کہ وہ نہیں جانتے اس کا جواب وہ ہے جو قطرب اور اخفش نے دیا ہے۔ جو جانتے تھے وہ شیاطین تھے اور جنہوں نے اپنے نفسوں کو بیچا وہ انسان تھے جو نہیں جانتے تھے۔ زجاج نے کہا : علی بن سلیمان نے کہا : میرے نزدیک عمدہ یہ ہے کہ ولقد علموا یہ فرشتوں کے لئے ہو کیونکہ وہ جاننے کے زیادہ مستحق ہیں اور فرمایا علموا (حالانکہ وہ دو تھے) تو یہ ایسے ہے جیسے کہا جاتا ہے الذیدان قاموا۔ زجاج نے کہا : جنہوں نے جانا وہ علماء یہود ہیں۔ لیکن کہا گیا ہے : لو کانوا یعلمون پس وہ اس شخص کی جگہ داخل ہوئے جس کو کہا جاتا ہے : لست بعالم تو عالم نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اپنے علم کے مطابق اپنا عمل ترک کردیا اور ان سے رہنمائی حاصل کی جنہوں نے جادو کا عمل کیا تھا۔
Top