Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 59
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۠   ۧ
فَبَدَّلَ : پھر بدل ڈالا الَّذِیْنَ : جن لوگوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا قَوْلًا : بات غَيْرَ الَّذِیْ : دوسری وہ جو کہ قِیْلَ لَهُمْ : کہی گئی انہیں فَاَنْزَلْنَا : پھر ہم نے اتارا عَلَى : پر الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا رِجْزًا :عذاب مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے بِمَا : کیونکہ کَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ نافرمانی کرتے تھے
تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا تھا بدل کر اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا، پس ہم نے (ان) ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا کیونکہ نافرمانیاں کئے جاتے تھے
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا، (الآیة) یعنی جو الفاظ ان کو تلقین کئے گئے تھے، ان کو چھوڑ کر دوسری ہزل و تمسخر کے کلمے زبان پر لانے لگے، ہزل و تمسخر کے کلمے کیا تھے ؟ اس میں روایات مختلف ہیں مگر ماحصل سب کا ایک ہی ہے کہ بجائے توبہ وانابت کے تمسخر اور استہزاء کا کلامہ کہہ رہے تھے۔ رِجْزًا مِّنْ السَّمَآئِ ، رجز عام ہے ہر عذاب کے لئے استعمال ہوتا ہے، خواہ وہ کسی صورت میں ہو۔ مِنَ السَّمَآئِ ، کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ عذاب برف یا بارش کی شکل میں آسمان سے نازل ہوا تھا، مطلب یہ ہے کہ وہ عذاب اسباب طبعی سے پیدا نہیں ہوا تھا، بلکہ وہ عذاب آسمانی حاکم کی طرف سے نازل ہوا تھا۔ ای مقدرٔ من السمائ۔ اَلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا، کی تکرار ظالموں کے ظلم کو نمایاں کرنے کے لئے ہے۔ اسرائیلیوں پر نازل ہونے والا عذاب کیا تھا ؟ ہمارے یہاں طاعون کی روایتیں نقل ہوئی ہیں کہا جاتا ہے کہ اس طاعونی عذاب میں ستر ہزار سے زائد اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ بمَا کانوا یفسقونَ ، بائ، سببیہ ہے، ای بسبب فسقھِمْ المستمر (ابو سعود) کانوا کا صیغہ دوام و استمرار پر دلالت کرنے کے لئے ہے، بما کانوا یفسقون سے یہ بات صاف ظاہر ہوگئی کہ طاعون کا اصل سبب طبی یا طبعی نہیں تھا، بلکہ روحانی اور اخلاقی بدپرہیزیاں اور نافرمانیاں تھیں۔ (ماجدی ملخصا)
Top