Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 41
وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ١۪ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١٘ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ
وَاٰمِنُوْا : اور ایمان لاؤ بِمَا : اس پر جو اَنْزَلْتُ : میں نے نازل کیا مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا لِمَا : اس کی جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ اَوَّلَ کَافِرٍ : پہلے کافر بِهٖ : اس کے وَلَا تَشْتَرُوْا : اور عوض نہ لو بِآيَاتِیْ : میری آیات کے ثَمَنًا : قیمت قَلِیْلًا : تھوڑی وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَاتَّقُوْنِ : ڈرو
اور ایمان لاؤ اس چیز پر جو میں نے اتاری ہے تصدیق کرتی ہوئی اس چیز کی جو تمہارے پاس ہے اور تم اس کے سب سے پہلے انکار کرنے والے نہ بنو اور میری آیات کو حقیر پونجی کے عوض نہ بیچو اور میرے غضب سے بچتے ہی رہو
وَاٰمِنُوۡا بِمَآ اَنۡزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمۡ: مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمۡ اس چیز کی تصدیق کرتا ہوا جوتمہارے پاس ہے۔ یعنی قرآن مجید کی اس پیشین گوئی کو سچی ثابت کر رہا ہے جو تورات میں آخری نبی ﷺ کی بعثت اور اس بعثت کی خصوصیات سے متعلق وارد تھی۔ مقصود یہ ہے کہ اگر سمجھ سے کام لو تو قرآن مجید اور یہ پیغمبر تمہارے لئے چڑنے کی چیز نہیں ہیں بلکہ سر اور آنکھوں پر بٹھانے کی چیز ہیں کیوں کہ ان کے ظہور سے سب سے زیادہ تمہارا ہی سر بلند ہوا ہے۔ تمہارے صحیفوں میں ان کی پیشین گوئیاں موجود تھیں اور یہ پیشین گوئیاں اب تک اپنے حقیقی مصداق کے ظہور کی منتظر تھیں اب اس کتاب اور اس کے پیغمبر کے ظہور نے ان کا مصداق دنیا کے سامنے پیش کر کے تمہاری کتاب کو سند تصدیق عطا کر دی تو تمہیں تو سب سے پہلے اس پر ایمان لانے کے لئے آگے بڑھنا چاہئے۔ اس تصدیق کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جہاں تک تورات یا انجیل کے آسمانی صحیفے ہونے کا تعلق ہے قرآن مجید آشکارا طور پر ان کے آسمانی ہونے کی تصدیق کرتا ہے، ان کے لانے والوں کی نبوت ورسالت کی بھی نہایت غیر مبہم الفاظ میں تصدیق کرتا ہے، ان کی تعلیمات کی بھی اصولی طور پر تصدیق کرتا ہے۔ قرآن اگر تردید کرتا ہے تو صرف ان چیزوں کی تردید کرتا ہے جو غلط طریقوں سے ان صحیفوں میں شامل کر دی گئی ہیں یا تحریف کر کے جن کی اصلی شکل بگاڑ دی گئی ہے۔ اس طرح غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ جہاں تک اصل تورات کا تعلق ہے قرآن مجید اس کی سچائی کا گواہ بن کر نازل ہوا ہے وہ اس کو جھٹلاتا نہیں بلکہ ان چیزوں سے اس کو بری قرار دیتا ہے جو اس کو جھٹلانے والی ہیں۔ وَلَا تَكُونُوٓا۟ اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهِ: افعل کا مضاف الیہ اگر نکرہ مفرد ہو تو وہ تمیز کے مفہوم میں ہوا کرتا ہے لیکن اگر اس کی اضافت معرفہ کی طرف ہو تو اس شکل میں مضاف الیہ جمع ہو گا۔ مثلاً قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعَابِدِیْنَ. (۸۱ زخرف) کہہ دو، اگر خدا کے کوئی اولاد ہو تو میں سب سے پہلا عبادت کرنے والا ہوں۔ اَوَّلَ كَافِرٍۭ اور اَوَّلَ الۡکَافِرِیۡن دونوں کے مواقع استعمال ہیں، استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ ایک لطیف فرق بتاتے ہیں۔ جب اول کافر کا استعمال ہو گا تو اس میں اس سے بحث نہیں ہو گی کہ اس کے علاوہ کوئی اور کافر پایا جاتا ہے یا نہیں اور دوسری شکل میں مفہوم یہ ہو گا کہ وہ کفرکرنے والوں میں سب سے پہلا شخص ہے۔ “کفر”کا لفظ جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں حق کے انکار کے معنی میں بھی آتا ہے اور کفران نعمت کے مفہوم میں بھی آتا ہے۔ یہاں یہ لفظ دونوں ہی مفہوموں پر حاوی معلوم ہوتا ہے کیوں کہ قرآن پر ایمان لانے کا ان سے عہد لیا جاچکا تھا اس وجہ سے اس کا حق ہونا ان پر اچھی طرح واضح تھا، اس بنا پر یہ ایک عظیم حق کا انکار ہوا۔ پھر قرآن مجید ان کے لئے ایک بہت بڑی نعمت بن کا نازل ہوا تھا، اس پر ایمان لانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے ابدی نعمتوں کے وعدے تھے، اس وجہ سے اس سے اعراض درحقیقت ایک بہت بڑا کفران نعمت بھی تھا۔ سب سے پہلے اس کے کفر کرنے والے نہ بنو، کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب دوسرے کفر کر لیں تو تمہارے لئے کفر کرنا جائز ہو جائے گا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہ قرآن تمہاری کتاب کی تصدیق کرتا نازل ہوا ہے اور اس پر ایمان لانے کا تم سے اس کے نزول سے پہلے ہی عہد لیا جا چکا ہے اس وجہ سے اس کو قبول کرنے اور اس پر ایمان لانے کی سب سے پہلے تم ہی سے توقع کی جاسکتی تھی لیکن یہ عجیب صورت حال ہے کہ دوسرے تو اس سے ناآشنا ہونے کے باوجود اس پر ایمان لانے کے لئے سبقت کریں اور تم اس سے پہلے سے آشنا ہو کر اس کی مخالفت کی راہ میں سبقت کرو۔ اس طرح کے مواقع پر انہی کے ساتھ جو قید لگی ہوئی ہوتی ہے استاذ امام رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک اس کا مقصود محض صورت واقعہ کے گھناؤنے پن کو ظاہر کرنا ہوتا ہے، انہی کا اصل تعلق تو فعل سے ہوتا ہے، قید اس کے ساتھ محض اس لئے بڑھا دی جاتی ہے تاکہ وہ صورت حال سامنے آجائے جو اس کے ارتکاب میں مضمر ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں ارشا د ہوا ہے: لاَ تَاْکُلُوا الرِّبٰوا اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً. (۱۳۰ اٰل عمران) سود نہ کھاو، دگنا چوگنا کرتے ہوئے۔ اس آیت میں مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر سود در سود کی شکل پیدا نہ ہو تو سود مباح ہے بلکہ مقصود اس صورت حال کے پیش کرنے سے اصل فعل کی نفرت انگیز شکل کو سامنے کر دینا ہے۔ اس طرح زیر بحث ٹکڑے کے بعد فرمایا، وَلَا تَشْتَرُوا۟ بِـَٔايَٰتِى ثَمَنًا قَلِيلًا (اور میری آیتوں کو حقیر پونجی کے عوض نہ بیچو) تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر اچھے دام مل جائیں تو بیچ سکتے ہو، بلکہ نہی کا تعلق یہاں بھی اصل فعل سے ہے، یعنی روکا جس چیز سے گیا ہے وہ دین فروشی ہے، لیکن ثَمَنًا قَلِيلًا کی قید نے یہ حقیقت بھی واضح کر دی ہے کہ دین فروشی کا یہ کاروبار نہایت ذلیل طریقہ سے ہو رہا ہے کیوں کہ اللہ کی آیات کے بدلے میں اگر تمام دنیا بھی حاصل ہو جائے تو وہ بہرحال ایک متاع حقیر ہی ہے۔ ممکن ہے یہاں بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ قرآن کے انکار میں یہود سے پہلے تو قریش نے سبقت کی تو قرآن نے سبقت کا الزام یہود پر کیوں عائد کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات یہاں یہود سے بہ حیثیت قوم کے کہی جارہی ہے اور مقابل میں یہاں امی عرب بہ حیثیت قوم کے ہیں۔ عام اس سے کہ وہ عدنانی ہیں یا قحطانی۔ اس میں تو شبہ نہیں ہے کہ قریش نے قرآن کا انکار کرنے میں سبقت کی۔ پھر قریش کے انکار کی نوعیت بھی بہرحال یہ نہیں تھی کہ سارا قریش اس کے انکار ہی کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ہو۔ ان میں قرآن کے انکار کرنے والے بھی تھے اور قرآن پر جان نثار کرنے والے بھی تھے، لیکن بنی اسرائیل کا حال اس سے بالکل مختلف تھا، یہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی تکذیب اور مخالفت کے لئے من حیث القوم اٹھ کھڑے ہوئے اور آخر دم تک اس مخالفت پر اڑے رہے۔ درآنحا لیکہ دین الہی کے وارث اور نبی خاتم ﷺ سے متعلق پیشین گوئیوں کے امین ہونے کے سبب سے امی عربوں کے مقابل میں ان کو اَوَّل الۡمُؤُمِنِیۡنَ کا درجہ حاصل کرنا تھا۔ وَلَا تَشْتَرُوا۟ بِـَٔايَٰتِى ثَمَنًا قَلِيلًا: میری آیات کو حقیر قیمت کے عوض نہ بیچو، یعنی اپنے دینی مفادات ومصالح پر تورات اور اس کے احکام وہدایات کو قربان نہ کرو۔ یہ ایک جامع اسلوب بیان ہے جس میں یہود کی ان تمام عہد شکنیوں کی طرف اشارہ ہو گیا ہے جن کے وہ مرتکب ہوئے تھے اور جن کی تفصیل اسی سورہ میں آگے آرہی ہے۔ یہود سے اللہ تعالیٰ نے جو آگے عہد لیا تھا اس میں تین چیزیں خاص طو پر بہت نمایاں تھیں، ایک یہ کہ وہ تورات کی شریعت پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں گے، دوسری یہ کہ اس قرآن پر ایمان لائیں گے جو ان پیشین گوئیوں کی تصدیق کرتا ہوا نازل ہوگا جو تورات میں موجود ہیں، تیسری یہ کہ ان کو جو کتاب عطا ہوئی ہے خلق کے سامنے اس کی شہادت دیں گے، اس کے کسی جزو کو چھپائیں گے نہیں۔ یہاں جب فرمایا کہ میری آیتوں کو حقیر معاوضے کے عوض نہ بیچو تو دوسرے الفاظ میں گویا یہ فرمایا کہ اپنے دنیوی معاملات کی خاطر ان تمام عہود کو خاک میں نہ ملاؤ جو تم خدا سے کرچکے ہو۔ نقض عہد کے مفہوم کو تعبیر کرنے کے لئے قرآن مجید نے یہ اسلوب دوسرے مقامات میں بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاً ارشاد ہے: اِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرَاۃَ فِیْہَا ہُدًی وَنُوْرٌ یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالرَّبَّانِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ وَکَانُوْا عَلَیْْہِ شُہَدَآءَ فَلاَ تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ. (۴۴ مائدہ) ہم نے تورات اتاری جس میں ہدایت اور روشنی ہے، اسی کے مطابق یہود کے معاملات کے فیصلے کرتے رہے وہ انبیا جنہوں نے خدا کی فرمانبرداری کی اور رِبِّیُّوۡن اور علما نے بھی اسی کے مطابق فیصلے کئے کیوں کہ وہ کتاب الٰہی کے امین بنائے گئے تھے اور اس کے گواہ ٹھہرائے گئے تھے تو تم لوگوں سے نہ ڈرو صرف مجھی سے ڈرو۔ اور میری آیات کو حقیر قیمت کے عوض نہ بیچو اور جس نے اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کیا تو وہی لوگ کافر ہیں۔ اس آیت میں لَا تَشْتَرُوا۟ بِـَٔايَٰتِى ثَمَنًا قَلِيلًا کے موقع ومحل کو دیکھئےتو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے دنیوی مفادات کی خاطر اللہ کے عہد کو، جو اس نے تورات میں تم سے لیا ہے، نہ توڑو۔ یہ مفادات تمہاری نگاہوں میں کتنی ہی اہمیت رکھنے والے ہوں لیکن خدا کے عہدوپیمان اور اس کے احکام وآیات کے بالمقابل بالکل ہی ہیچ ہیں۔ اس ٹکڑے کے مخاطب یہود کے عوام بھی ہیں اور خواص بھی۔ عوام اس وجہ سے کہ وہ اگرچہ بہ ظاہر تورات کو مانتے تھے لیکن اس کی ساری دینداری محض رسمی ورواجی تھی۔ اصل شریعت انہوں نے اپنی خواہشات نفس پر قربان کر دی تھی۔ خواص اس وجہ سے کہ ان کے صحیفوں میں انحضرت ﷺ اور قرآن مجید سے متعلق جو پیشین گوئیاں تھیں انہوں نے ان پر یا تو تاویل کے پردے ڈال دیے تھے یا ان پر تحریف کی قینچی چلا دی تھی اور محرک اس تاویل وتحریف کی دو چیزیں تھیں۔ ایک بنی اسماعیل کے خلاف حسد کا جذبہ، دوسری اس بات کا خوف کہ اگر اصل حقیقت ظاہر کر دی تو عوام بگڑ کھڑے ہوں گے اور جوعزت وسرداری اس وقت ان کو حاصل ہے وہ خطرے میں پڑ جائے گی۔ وَاِیَّايَى فَٱتَّقُوۡنِ: اتقا اور تقویٰ کی تحقیق ہم ھُدۡی لِلۡمُتَّقِیۡن کی تفسیر بیان کرتے ہوئے بیان کر چکے ہیں۔ اوپر والی آیت میں وَاِیَّايَى فَارۡھَبُوۡنِ فرمایا تھا۔ یہاں وَاِیَّايَى فَٱتَّقُوۡنِ فرمایا۔ پھر آگے کی ایک آیت میں خشوع کا لفظ آرہا ہے۔ رہبت، تقویٰ، خشوع سب ایک ہی حقیقت کے مختلف مظاہر ہیں۔ کسی کی عظمت وجلال کے تصور سے دل پر جو لرزش اور کپکپی طاری ہوتی ہے وہ رہبت ہے۔ اس لرزش وکپکپی سے صاحب عظمت وجلال کے لئے دل میں جو عجزوفروتنی اور پستی ونیازمندی کی حالت پیدا ہوتی ہے اور طبیعت میں بے نیازی کی جگہ فقر کا اور گھمنڈ کی جگہ اخبات کا جو احساس ابھرتا ہے وہ خشوع ہے۔ اسی طرح اس صاحب عظمت وجلال کے قہروغضب سے بچنے، اس کے مقرر کردہ حدود کی مخالفت سے احتراز اور اس کے احکام وآیات کی خلاف ورزی سے اجتناب واحتیاط کی جو بے چینی طبیعت میں پیدا ہوتی ہے اور جو خلوت وجلوت ہر جگہ آدمی کو بیدار اور چوکنا رکھتی ہے وہ تقویٰ ہے۔ “مجھ ہی سے بچو”کا ٹکڑا بیک وقت دوحقیقتوں پر مشتمل ہے۔ ایک تو یہ کہ مجھے کوئی بہت نرم چیز سمجھ کر میری گرفت اور میرے غضب سے بے پروا نہ ہو جاؤ۔ جو میری نعمت کی ناقدری کرتے ہیں، میرے عہد کو پامال کرتے ہیں، میری آیات کو مال بیع وشرا سمجھتے ہیں۔ جب میرا غضب ان پر نازل ہوتا ہے تو وہ ان کی کمر توڑ کے رکھ دیتا ہے اور اس وقت کوئی نہیں ہوتا ہے جو ان کو میرے غضب سے چھڑانے کے لئے کھڑا ہو سکے۔ دوسری حقیقت جو مفعول کی تقدیم سے یہاں پیدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ تم ڈرتے ہوکہ اگر تم نے اصل حقیقت ظاہر کر دی تو تمہارے عوام بگڑ کھڑے ہوں گے تمہاری سرداری وپیشوائی خطرے میں پڑ جائے گی، تمہارے مقابل میں بنی اسماعیل کا سراونچا ہوجائے گا اور تمہارے دوسرے دنیوی مفادات کو نقصان پہنچ جائے گا حالانکہ ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی ڈرنے اور بچنے کی نہیں ہے۔ اصل ڈرنے کی چیز اگر کوئی ہے تو صرف میرا غضب ہے کیوں کہ اس سے کوئِی پناہ نہیں دے سکتا۔ البتہ میں اگر چاہوں تو اپنے غضب سے ڈرنے والوں کو ہر خطرہ سے بچا سکتا ہوں۔
Top