Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 41
وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ١۪ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١٘ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ
وَاٰمِنُوْا : اور ایمان لاؤ بِمَا : اس پر جو اَنْزَلْتُ : میں نے نازل کیا مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا لِمَا : اس کی جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ اَوَّلَ کَافِرٍ : پہلے کافر بِهٖ : اس کے وَلَا تَشْتَرُوْا : اور عوض نہ لو بِآيَاتِیْ : میری آیات کے ثَمَنًا : قیمت قَلِیْلًا : تھوڑی وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَاتَّقُوْنِ : ڈرو
اور مان لو اس کتاب کو جو میں نے اتاری ہے98 سچ بتانے والی ہے اس کتاب کو جو تمہارے پاس ہے اور مت ہو سب میں اول منکر اس کے99 اور نہ لو میری آیتوں پر مول تھوڑا100 اور مجھ ہی سے بچتے رہو
98 ۔ یعنی جو کتاب میں نے اتاری ہے اور جو پیغمبر میں نے بھیجا ہے جن کا ذکر تورات اور انجیل میں موجود ہے ان پر ایمان لاؤ۔ یہ چوتھا امر ہے۔ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ ۔ اللہ تعالیٰ کا جو دین تورات کی صورت میں تمہارے پاس موجود ہے۔ قرآن اور حضرت محمد ﷺ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ تصدیق کرنے سے مراد یہ ہے کہ توحید و رسالت اور دیگر عقائد جو تورات میں پیش کیے گئے تھے حضرت محمد ﷺ نے بھی قرآن کے ذریعے وہی دعوت اور وہی عقائد پیش کیے ہیں۔ ای موافقا لما معکم من التورۃ فی التوحید والنبوۃ والاخبار ونعت النبی ﷺ (معالم ص 45 ج 1) اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ صرف اللہ ہی کو مالک ومختار اور متصرف و کارساز سمجھیں اور حاجات ومشکلات میں صرف اسے ہی نصرت ومدد کیلئے پکاریں چناچہ تورات کا یہ حوالہ خود قرآن نے پیش کیا۔ وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ ‎وَكِيْلًا (بنی اسرائیل :2) تورات کے اس مضمون کی قرآن مجید نے کئی جگہ تصدیق کی ہے چناچہ سورة مزمل میں ارشاد ہے۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلاً ۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی ہر قسم کی عبادت کے لائق نہیں، اس کے سوا حاجات ومشکلات میں کوئی ملجا وماوی نہیں لہذا اسے ہی پکارو، اسے ہی اپنا کارساز سمجھو، ضرورتوں اور مصیبتوں میں اسی ہی کی طرف رجوع کرو۔ 99 ۔ یہ پہلی نہی ہے۔ کَافِرٍ لفظاً مفرد ہے لیکن معنیً جمع ہے۔ معناہ اول من کفر بہ او اول فریق او فوج کافر بہ (کبیر ص 490 ج 1، قرطبی ص 233 ج 1) ان یہودیوں سے پہلے مشرکین عرب دعوت توحید کا انکار کرچکے تھے پھر انہیں سب سے پہلے انکار کرنے والے کیوں فرمایا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہودی حضرت محمد ﷺ کی آمد اور آپ پر نزول قرآن کو اچھی طرح جانتے تھے۔ آپ کے اوصاف حمیدہ تورات میں مذکور تھے۔ آپ کی بعثت سے پہلے یہودی عالم آپ کے ظہور کی خوشخبری دیا کرتے تھے۔ اور ان کو تورات کی وہ آیتیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے جن میں قرآن اور صاحب قرآن کا ذکر ہوتا تھا تو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ بہت پہلے قرآنی دعوت کو قبول کرتے مگر اس کے برعکس انہوں نے جانتے پہچانتے اس کا انکار کردیا۔ اب ان کے مریدین اور مقتدین نیز ان کی اولاد ان کی دیکھا دیکھی کفر و انکار کرے گی۔ فان وظیفتکم ان تکونوا اول من اٰمن بہ لما انکم تعرفون حقیقۃ الامر (روح ص 224 ج 1) 100 ۔ یہ دوسری نہی ہے۔ یہودیوں کے علماء اور پیروں کی ساکھ اپنی قوم میں خاصی مضبوط تھی۔ عوام کو ان کے ساتھ گہری محبت اور عقیدت تھی۔ عوام ہمیشہ ان کی خوشنودی کے لیے انہیں نذریں نیازیں پیش کیا کرتے تھے۔ علمائے یہود کو یقین تھا کہ اگر ان کے عوام نے حضرت محمد ﷺ کو مان لیا تو ان کی ریاست اور شان و شوکت خاک میں مل جائیگی اور ان کی نذروشیرینی کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔ چناچہ وہ تورات کی ان آیتوں کو اپنے عوام سے چھپانے لگے جن میں حضرت محمد ﷺ کی نعت اور آپ کی صفات و علامات بیان کی گئی تھیں۔ یہاں اسی کرتوت سے علماء یہود کو روکا گیا ہے اور لفظ اشتراء یہاں اپنے حقیقی معنوں میں نہیں ہے بلکہ اس سے مراد محض ترجیح اور استبدلال ہے۔ یعنی ایک چیز کی جگہ دوسری چیز کو اختیار کرنا۔ اس آیت میں دنیوی دولت اور فانی منافع کو اظہار حق پر ترجیح دینے کو اشتراء سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور ثَمَناً کے ساتھ لفظ قَلِیْلاً بڑھانے سے دولت دنیا کی حقارت کی طرف اشارہ ہے یعنی میری آیتوں کے عوض تم جو رقم وصول کرتے ہو، وہ میری آیتوں یا دولت آخرت کی نسبت نہایت قلیل اور حقیر ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی آیتوں کو تھوڑی رقم کے عوض بیچنا جائز نہیں ہے اور زیادہ رقم کے عوض جائز ہے۔ (من الکبیر ص 491 ج، والروح ص 245 ج 1 وغیرہما) حق چھپا کر پیٹ کا جہنم بھرنے کی یہ سنت آج بھی جاری ہے۔ یہودیوں کی طرح بہت سے مولوی اور پیر آپ کو ایسے نظر آئیں گے جو لوگوں کو گیارھویں شریف کی ترغیب تو دیتے ہوں گے۔ اپنے دادا کی قبر پر حاضر ہو کر چڑھا وے اور نذریں پیش کرنے کی تلقین کرتے ہوں گے۔ حاجتوں اور مصیبتوں میں اولیاء اللہ کی قبروں پر حاضری دیکر انہیں مدد کیلئے پکارنے کی تعلیم بھی دیتے ہونگے مگر اپنے مریدوں کے سامنے آپ نے انہیں قرآن مجید کی ان آیتوں کا وعظ کہتے ہوئے کبھی نہیں سنا ہوگا جن میں اللہ نے غیر اللہ کی نذرونیاز اور چڑھاوے کو حرام کہا ہے اور جن میں اللہ نے فرمایا ہے کہ میرے سوا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں، میرے سوا کوئی عالم الغیب اور کارساز نہیں اس لیے میرے سوا حاجات ومشکلات میں کسی اور کو مت پکارو، کیونکہ ایسا کرنے سے یہودیوں کی طرح انہیں بھی یقین ہے کہ ان کی آمدنیاں بند ہوجائیں گی اور ان کا جھوٹا وقار ختم ہوجائے گا۔
Top