Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Al-Furqaan : 1
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ
تَبٰرَكَ
: بڑی برکت والا
الَّذِيْ
: وہ جو۔ جس
نَزَّلَ الْفُرْقَانَ
: نازل کیا فرق کرنیوالی کتاب (قرآن)
عَلٰي عَبْدِهٖ
: اپنے بندہ پر
لِيَكُوْنَ
: تاکہ وہ ہو
لِلْعٰلَمِيْنَ
: سارے جہانوں کے لیے
نَذِيْرَۨا
: ڈرانے والا
وہ (خدائے عزوجل) بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ اہل عالم کو ہدایت کرے
بسم اللہ الرحمن الرحیم آیت نمبر 1 تا 9 ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان اور نہایت رحم والا ہے، برکت والی برتر ہے وہ ذات جس نے فرقان یعنی قرآن اپنے بندے محمد ﷺ پر نازل کیا قرآن کو فرقان اس لئے کہا گیا ہے کہ اس نے حق و باطل کے درمیان فرق کردیا، تاکہ عالم والوں یعنی انسانوں اور جنوں کے لئے نہ کہ فرشتوں کے لئے ڈرانے والا ہو یعنی اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا ہو ایسی ذات کہ اس کے لئے آسمانوں اور زمین کی حکومت حاصل ہے اور اس نے کسی کو اولاد قرار نہیں دیا اور نہ ملک میں اس کا کوئی شریک ہے اور اس نے ہر اس شئ کو پیدا کیا جس کی شان مخلوق ہونا ہے پھر اس کو اچھی طرح درست کیا اور کفار نے اللہ کو چھوڑ کر اس کے غیر کو معبود بنا لیا وہ بت ہیں وہ کسی چیز کے خالق نہیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں اور وہ خود اپنے لئے نہ کسی نقصان یعنی اس کو دفع کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ کسی نفع کا یعنی اس کو حاصل کرنے کا اور نہ کسی کے مرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ جینے کا یعنی نہ کسی کو مارنے کا اور نہ کسی کو زندہ کرنے کا اور دوبارہ زندہ کرنے کا یعنی نہ مردوں کو زندہ کرنے کا اور کافر لوگ قرآن کے بارے میں یوں کہتے ہیں یہ قرآن کچھ بھی نہیں نرا جھوٹ ہے جس کو اس شخص محمد ﷺ نے گھڑ لیا ہے اور دوسرے لوگوں نے اس گھڑنے میں اس کی مدد کی ہے اور وہ اہل کتاب میں سے بعض لوگ ہیں سو یہ لوگ بڑے ظالم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے کفر اور کذب کے، یعنی دونوں کا ارتکاب کیا اور یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن پہلے لوگوں کے خرافاتی قصے ہیں یعنی جھوٹ کا پلندہ ہے (اَسَاطیر) اُسْطُوْرَۃٌ بالضم کی جمع ہے ان خرافاتی قصوں کو اس قوم (یہود) سے کسی دوسرے کے ذریعہ نقل کرا لیتے ہیں پھر وہی خرافاتی قصے اس کو صبح و شام پڑھ کر سنائے جاتے ہیں تاکہ ان کو محفوظ کرلے، ان پر رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ کہہ دیجئے اس (قرآن) کو تو اس ذات پاک نے نازل کیا ہے جس کو آسمانوں اور زمین کی مغیبات کا علم ہے واقعی اللہ تعالیٰ مومنین کے لئے غفور ان کے لئے رحیم ہے اور یہ کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوا کہ وہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا ؟ وہ اس کے ساتھ رہ کر (لوگوں) کو ڈراتا اس کی نبوت کی تصدیق کرتا یا آسمان سے اس کے پاس کوئی خزانہ آپڑتا جس سے اس کو فائدہ ہوتا اور طلب معاش کے لئے بازاروں میں (مارا مارا) نہ پھرتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہوتا کہ اس سے یعنی اس کے پھلوں کو کھاتا اور اس پر اکتفا کرتا، اور ایک قرأۃ میں (یَاْکُلُ ) کے بجائے نَاکُلُ نون کے ساتھ ہے یعنی ہم کھاتے، جس کی وجہ سے ہم پر اس کو ایک قسم کی فوقیت حاصل ہوتی اور یہ ظالم کافر مومنین سے یوں کہتے ہیں کہ تم لوگ ایک سحر زدہ فریب خوردہ مغلوب العقل شخص کے پیچھے چل رہے ہو اللہ تعالیٰ نے فرمایا دیکھو تو سہی یہ لوگ آپ کے لئے کیسی عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں سحر زدہ ہونے کی، خرچہ کا محتاج ہونے کی اور فرشتہ کا محتاج ہونے کی تاکہ اس کے ساتھ ذمہ داری میں شریک ہو، اسی (ضرب الامثال کی وجہ سے) راہ ہدایت سے گمراہ ہوگئے کسی طرح راہ حق پر نہیں آسکتے۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد سورة فرقان مکی ہے مگر تین آیتیں (یہ سورة ) ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی تمام سورتوں کے نام اور ان کی ترتیب اور آیات کی ترتیب توقیفی ہے البتہ آیات کی تعداد توقیفی نہیں ہے، یہ سورة توحید اور احوال معاد کے مضامین پر مشتمل ہے (جمل) ۔ قولہ : الیٰ رحیماً یہ کل تین آیتیں ہیں۔ قولہ : تاعلیٰ یہ تَبَارَکَ کی تفسیر ہے یعنی اللہ اپنی ذات وصفات اور افعال میں اپنے ماسوا سے برتر ہے تَبَارَکَ (تفاعل) کی ماضی ہے اس کا مصارع اسم فاعل اور مصدر مستعمل نہیں ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کے لئے مستعمل ہے، برکت کے معنی نمو اور زیادتی کے ہیں خواہ حساً ہو یا معنیً (جمل) ۔ قولہ : لأنَّہٗ فَرَّقَ بین الحق والباطل یہ قرآن کو فرقان کہنے کی علت ہے قرآن نے چونکہ حق و باطل کے درمیان فرق کردیا ہے اس لئے اس کا نام فرقان رکھا گیا ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ فرقان اس لئے کہا جاتا ہے کہ قرآن متفرق طور پر 23 سال کی مدت میں نازل ہوا ہے اسی وجہ سے قرآن کے بارے میں نَزَّلَ کہا گیا ہے جو کہ تکثیر تفریق پر دلالت کرتا ہے (جمل) ۔ قولہ : لِیَکونَ یہ نزول کی علت ہے اس کے اندر جو ضمیر ہے وہ عبدٌ کی طرف راجع ہے اس لئے کہ وہ قریب ہے، فرقان کی طرف بھی راجع ہوسکتی ہے اور منزل یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف بھی راجع ہوسکتی ہے۔ قولہ : للعلمین، نَذِیرًا کے متعلق ہے فواصل کی رعایت کی وجہ سے مقدم کردیا گیا۔ قولہ : مِن شانہٖ اَنْ یُّخلَقَ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ذات باری تعالیٰ کو مخلوق ہونے سے خارج کرنا ہے اس لئے کہ ذات باری تعالیٰ شئ ہے اس لئے کہ اگر شئ نہ مانا جائے تو لاشئ ماننا ہوگا ورنہ تو ارتفاع نقیضین لازم آئے گا لہٰذا شئ ماننا ضروری ہے جب ذات باری تعالیٰ کا شئ ہونا ثابت ہوگیا تو خَلَقَ کل شئ میں داخل ہوگیا اور جب خَلَقَ کل شئ میں داخل ہوگیا تو ذات باری کا مخلوق ہونا ثابت ہوگیا اور یہ محال ہے، اسی اعتراض کو دفع کرنے کے لئے مفسر علام نے مِن شانہٖ اَنْ یُخْلَقَ کا اضافہ فرمایا ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ تخلیق کہتے ہیں عدم سے وجود میں لانے کو اور عدم سے وجود میں وہ شئ آسکتی ہے جو معدوم ہو اور اللہ تعالیٰ کی شان معدوم ہونا نہیں ہے، اس لئے کہ ذات باری پر کبھی بھی عدم طاری نہیں ہوا، لہٰذا ذات باری مخلوق ہونے سے خارج ہوگئی۔ قولہ : سَوَّاہ تَسْوِیَۃً اس عبارت کے اضافہ کا مقصد بھی ایک اعتراض کا دفعیہ ہے، اعتراض یہ ہے کہ وخَلُقَ کُلَّ شئ فقدَّرَہٗ تقدیراً میں قلب ہے اس لئے کہ اصل میں وَقَدَّرَہٗ فَخَلَقَ کُلَّ شئ ہونا چاہیے، اس لئے کہ تقدیر ازلی ہے اور تخلیق حادث ہے، اس لئے کہ تقدیر کے معنی مقدر کرنا اندازہ کرنا، پلاننگ کرنا اور خلق کے معنی بنانا، ظاہر ہے کہ تقدیر اور پلاننگ پہلے ہوتی ہے اور اس کے مطابق بعد میں تخلیق ہوتی ہے جیسے کہ مکان کا نقشہ پہلے بنتا ہے مکان بعد میں بنتا ہے، نہ یہ کہ مکان پہلے بنتا ہے اور نقشہ بعد میں، تو معلوم ہوا آیت میں رعایت فواصل کے لئے قلب ہوا ہے۔ جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ آیت میں قلب نہیں ہے بلکہ قَدَّرَہٗ تقدیرًا سَوَّاہٗ تَسْوِیَۃً کے معنی میں ہے اور تَسْوِیَّۃَ کہتے ہیں کسی شئ کے بنانے کے بعد درست کرنا کمی اور کجی کو دور کرنا، مضبوط کرنا، یعنی نوک پلک درست کرنا، اور یہ تخلیق کے بعد ہوتا ہے، لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔ قولہ : بِھمَا اس سے اشارہ ہے کہ ظلماً وزوراً بنزع الخافض منصوب ہے، تقدیر عبارت اس طرح تھی جَاؤُا بظلمٍ وزُوْرٍ حرف جار کو حذف کردیا جس کی وجہ سے منصوب ہوگیا، شارح (رح) نے اسی کو اختیار کیا ہے اور بعض حضرات کے نزدیک جاءَ واَتٰی متعدی بنفسہٖ بھی ہیں، اس صورت میں ظلماً وزوراً مفعول بہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہوں گے۔ قولہ : ھُوَ اسَاطِیْرُ الَاوَّلِیْنَ اساطیر الاولین ھو مبتداء محذوف کی خبر ہے جیسا کہ شارح نے اختیار کیا ہے اور اِکْتَتَبَھَا محل میں حال کے ہے، اور یہ بھی صحیح ہے کہ اَسَاطِیْرُ الاَوَلین مبتدا ہو اور اِکْتَتَبَھَا اس کی خبر، قولہ : مَال ھٰذا الرَّسول لِھٰذا کے لام کو الگ لکھا گیا ہے جو کہ عام عربی رسم الخط کے خلاف ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کا رسم الخط مصحف عثمانی کے مطابق ہے لہٰذا اس میں تغیر نہیں کیا جاتا۔ قولہ : فَیَکُوْنَ یہ چونکہ لولا بمعنی ھَلاَّ (جس کا حکم استفہام کا ہے) کا جواب ہے اس لئے منصوب ہے وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ اسم ضمیر کی جگہ اسم ظاہر کو ان کی صفت ظلم کو اجاگر کرنے کے لئے لایا گیا ہے ورنہ تو وَقَالُوْا کہنا بھی کافی ہوتا۔ تفسیر و تشریح فرقان کے معنی ہیں فیصلہ کن، فرقان قرآن کریم ہی کا لقب ہے، قرآن کریم حق و باطل میں فیصلہ کرنے والی آخری کتاب ہے، اور تمام جہاں کی ہدایت و اصلاح کی کفیل ہے اور ان کو خیر کثیر اور غیر منقطع برکت عطا کرنے کا سامان بہم پہنچانے والی ہے۔ قولہ : علیٰ عبدہٖ یہاں آپ کا نام لینے کے بجائے عبدہٖ فرمایا چونکہ آپ ﷺ اپنی صفت عبدیت میں کامل و اکمل تھے اس لئے گویا کہ عبداللہ آپ کا لقب ہی ہوگیا، قرآن کریم سارے جہاں کو کفر و عصیان کے انجام بد سے آگاہ کرنے والا ہے، چونکہ اس صورت میں مکذبین و معاندین کا ذکر بکثرت ہوا ہے شاید اسی لئے یہاں صفت نذیر کو بیان فرمایا، بشیر کا ذکر نہیں کیا۔ آپ ﷺ کی بعثت : قرآن کریم نے آپ ﷺ کی بعثت کو عالمین کے لئے فرمایا ہے، یہ بات تو متفق علیہ ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت انبیاء سابقین کے برخلاف سارے جہان کے لئے ہے انبیاء سابقین کی بعثت علاقائی یا قومی تھی مگر آپ ﷺ کی بعثت علاقائی یا قومی نہیں ہے بلکہ عالمگیر ہے، اور آپ تمام جنوں اور انسانوں کے لئے ہادی اور رہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں، قرآن کریم میں سورة اعراف میں فرمایا گیا قُل یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّی رسُوْلُ اللہِ الیکُمْ جَمِیْعًا اور حدیث میں بھی فرمایا بُعِثتُ الی الاحمر والاسود (صحیح مسلم کتاب المساجد) مجھے احمر و اسود سب کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ آپ کی بعثت ملائکہ کی طرف : اس میں تو کوئی اختلاف نہیں کہ آپ کی بعثت جن و انس کے لئے ہے اختلاف اس بات میں ہے کہ آپ کی بعثت ملائکہ کی طرف ہے یا نہیں، اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ آپ کی بعثت ملائکہ کی طرف نہیں ہے علامہ جلال الدین محلی کی بھی یہی رائے ہے جیسا کہ تفسیر سے ظاہر ہے، حلبی اور بیہقی نے بھی یہی فرمایا ہے، امام رازی نے اسی آیت کی تفسیر میں اسی رائے پر اجماع نقل کیا ہے، البتہ امام سبکی نے کہا ہے کہ عالم ما سوی اللہ کو کہتے ہیں جس میں جن و انس و ملائکہ سب داخل ہیں لہٰذا عالمین کا لفظ ملائکہ کو بھی شامل ہوگا، ملائکہ کو خارج کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ قولہ : ولَمْ یتخذہٗ ولدًا سے یہود و نصاریٰ پر رد ہے اور وَلَمْ یکُنْ لَہٗ شَرِیْکٌ فِی المُلْکِ سے مشرک اور بت پرستوں پر رد ہے فَقَدَّرَہٗ تقدیراً ہر شی کو ایک خاص اندازہ میں رکھا کہ اس سے وہی خواص و افعال ظاہر ہوتے ہیں جن کے لئے پیدا کی گئی ہے، اپنے دائرہ سے باہر قدم نہیں نکال سکتی اور نہ اپنی حدود میں عمل و تصرف کرنے سے قاصر رہتی ہے وَاتَّخذُوْا مِنْ دُوْنِہِ آلِھَۃً کس قدر ظلم اور تعجب و حیرت کا مقام ہے کہ ایسے قادر مطلق مالک الکل، حکیم علی الاطلاق کی زبردست ہستی کو کافی نہ سمجھ کر دوسرے معبود اور حاکم تجویز کر لئے گئے، حالانکہ ان بیچاروں کا خود اپنا وجود بھی اپنے گھر کا نہیں وہ ایک ذرہ کے پیدا کرنے کا بھی اختیار نہیں رکھتے، اور نہ مارنا جلانا ان کے قبضہ میں ہے اور نہ اپنے مستقل اختیار سے کسی کو ادنیٰ نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں، ایسی عاجز اور مجبور ہستیوں کو خدا کا شریک ٹھہرانا کس قدر سفاہت اور بےحیائی ہے۔ ربط : یہ تو قرآن نازل کرنے والے کی صفات کا ذکر تھا اور اس کے متعلق مشرکین جو بےتمیزیاں کر رہے تھے ان کی تردید تھی، آگے خود قرآن اور حامل قرآن کی نسبت سفیہانہ نکتہ چینیوں کا جواب ہے، وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنْ ھٰذَا اِلاَّ اِفْکً اِفْتَرَاہٗ الآیۃ۔ مطلب یہ ہے کہ محمد ﷺ کا یہ کہنا کہ یہ خدا کا نازل کردہ کلام ہے اور میں اس کا نبی ہوں سب کہنے کی باتیں ہیں، حقیقت یہ ہے کہ محمد نے چند یہودیوں کی مدد سے ایک کلام تیار کرلیا ہے اور اس کو خدا کی طرف منسوب کردیا ہے اور کچھ لوگ اس کے ساتھ لگ گئے ہیں جنہوں نے اس کی تشہیر شروع کردی ہے اس قول کا قائل نضر بن حارث تھا، مشرکین کے اس قول کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر اور ظلم و جھوٹ کیا ہوگا کہ ایسے کلام معجز کو کہ جس کی عظمت و صداقت آفتاب سے زیادہ روشن ہے کذب و افتراء کہا جائے، کیا چند یہودی غلاموں کی مدد سے ایسا کلام بنایا جاسکتا ہے جس کے مقابلہ سے تمام دنیا کے فصیح وبلیغ، عالم و حکیم بلکہ جن و انس ہمیشہ کے لئے عاجز ہوجائیں۔ مشرکین کا یہ بھی کہنا تھا محمد ﷺ نے اہل کتاب سے کچھ خرافاقی قصہ سن کر نوٹ کرا لئے ہیں وہی باتیں ان کے سامنے شب و روز پڑھی اور رٹی جاتی ہیں، نئے نئے اسلوب سے ان ہی کی الٹ پھیر کرتے رہتے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے قل انزلہ الذی یَعْلَمُ السرّ الآیۃ یعنی آپ فرما دیجئے کہ یہ کتاب کسی ایک انسان یا کمیٹی کی بنائی ہوئی نہیں، بلکہ اس خدا کی اتاری ہوئی کتاب ہے جس کے احاطہ علمی سے زمین و آسمان کی کوئی چیز باہر نہیں ہوسکتی۔ (فوائد عثمانی) سابقہ آیات میں مشرکین کا وہ کلام ذکر کیا گیا ہے جو وہ قرآن کے بارے میں کہا کرتے تھے اور اب وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسول سے ان خرافات کا بیان ہے جو آپ ﷺ کی شان میں کہا کرتے تھے مشرکین کا یہ طعن آپ ﷺ کی بشریت پر ہے کیونکہ ان کے خیال میں بشریت عظمت رسالت کی متحمل نہیں تھی اسلئے انہوں نے کہا یہ کیسا رسول ہے یہ تو کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں گھومتا پھرتا ہے اور ہمارے ہی جیسا بشر ہے یعنی ہم پر بھی اس کو کوئی فضیلت و فوقیت حاصل نہیں ہے مطلب یہ کہ نہ ملک ہے اور نہ ملِک، تو یہ رسول کیسے ہوسکتا ہے ؟ لَولا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ یعنی فرشتوں کی فوج نہ ہی کم از کم ایک فرشتہ ان کی نبوت کی شہادت دینے کے لئے ساتھ رہتا جسے دیکھ کر خواہ مخواہ لوگوں کو جھکنا پڑتا، یہ کیا کہ کس مپرسی کی حالت میں اکیلے ہی دعوائے نبوت کرتے پھر رہے ہیں، یا اگر فرشتہ بھی ہمرای نہ ہو تو کم از کم آسمان سے سونے چاندی کا کوئی غیبی خزانہ مل جاتا کہ لوگوں پر بےدریغ خرچ کرکے ہی اپنی طرف کھینچ لیا کرتے، اور خیر یہ بھی نہ سہی معمولی رئیسوں اور زمینداروں کی طرف انگوروں اور کھجوروں وغیرہ کا ایک باغ تو ان کی ملک میں ہوتا، دوسروں کو نہ دیتے مگر کم از کم خود تو بےفکری سے کھایا پیا کرتے جب اتنا بھی نہیں تو کس طرح یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ نے رسالت کے عہدہ جلیلہ کے لئے معاذ اللہ ایسی معمولی شخصیت کو منتخب کیا ہے ؟ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ مطلب یہ ہے کہ میاں کی یہ یوزیشن اور حیثیت ؟ اور اتنے اونچے دعوے ؟ بجز اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ عقل کھوئی گئی ہے، یا کسی نے جادو کے زور سے عقل مختل کردی ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ (العیاذ باللہ) (فوائد عثمانی) اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الَامْثَالَ یعنی کبھی کہتے ہیں کہ یہ خدا پر افتراء ہے، کبھی کہتے ہیں کہ دوسروں سے پڑھ سیکھ کر لوگوں کو سناتے ہیں، اور کبھی آپ کو سحر زدہ کہتے ہیں اور کبھی ساحر اور کبھی کاہن تو کبھی شاعر تو کبھی مجنون، یہ اضطراب خود بتلا رہا ہے کہ ان میں سے کوئی بات آپ پر منطبق نہیں اور یہ محض الزام ہی الزام ہے، لہٰذا جو لوگ نبی کی شان میں گستاخیاں کرکے گمراہ ہوگئے ہیں ان کے راہ راست پر آنے کی کوئی توقع نہیں۔
Top