Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - An-Naml : 40
قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَ١ؕ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ١ۖ۫ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُ١ؕ وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ
قَالَ
: کہا
الَّذِيْ
: اس نے جو
عِنْدَهٗ
: اس کے پاس
عِلْمٌ
: علم
مِّنَ
: سے۔ کا
الْكِتٰبِ
: کتاب
اَنَا
: میں
اٰتِيْكَ بِهٖ
: میں اس کو تمہارے پاس لے آؤں گا
قَبْلَ
: قبل
اَنْ يَّرْتَدَّ
: کہ پھر آئے
اِلَيْكَ
: تمہاری طرف
طَرْفُكَ
: تمہاری نگاہ (پلک جھپکے)
فَلَمَّا رَاٰهُ
: پس جب سلیمان نے اس دیکھا
مُسْتَقِرًّا
: رکھا ہوا
عِنْدَهٗ
: اپنے پاس
قَالَ
: اس نے کہا
ھٰذَا
: یہ
مِنْ
: سے
فَضْلِ رَبِّيْ
: میرے رب کا فضل
لِيَبْلُوَنِيْٓ
: تاکہ مجھے آزمائے
ءَاَشْكُرُ
: آیا میں شکر کرتا ہوں
اَمْ اَكْفُرُ
: یا ناشکری کرتا ہوں
وَمَنْ
: اور جس
شَكَرَ
: شکر کیا
فَاِنَّمَا
: تو پس وہ
يَشْكُرُ
: شکر کرتا ہے
لِنَفْسِهٖ
: اپنی ذات کے لیے
وَمَنْ
: اور جس
كَفَرَ
: ناشکری کی
فَاِنَّ
: تو بیشک
رَبِّيْ
: میرا رب
غَنِيٌّ
: بےنیاز
كَرِيْمٌ
: کرم کرنیوالا
ایک شخص جس کو کتاب الہی کا علم تھا کہنے لگا کہ میں آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کیے دیتا ہوں جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوں اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پروردگار بےپروا (اور) کرم کرنے والا ہے
آیت نمبر 40 تا 44 ترجمہ : سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس سے بھی جلدی چاہتا ہوں جس کے پاس نازل کردہ کتاب کا علم تھا وہ بولا اور وہ آصف بن برخیا تھا وہ مقام صد یقیت پر فائز تھا، وہ اللہ کے اسم اعظم سے واقف تھا وہ اسم اعظم کہ اگر اس کے ذریعہ دعا کی جائے تو اللہ تعالیٰ قبول فرمالیں میں اس تخت کو آپ کے پاس آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا جب کہ آپ اپنی نظر سے کسی شئ کو دیکھیں (آسف بن برخیا) نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے عرض کیا آپ آسمان کی طرف دیکھیں چناچہ (حضرت سلیمان علیہ السلام) نے آسمان کی طرف دیکھا پھر نظر کو پھرایا تو تخت کو اپنے سامنے رکھا ہوا پایا، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے آسمان کی طرف نظر کرنے کے دوران آسف نے اسم اعظم پڑھ کر دعا کی کہ اے اللہ تو اس کو لے آ، چناچہ دعا قبول ہوگئی بایں طور کہ تخت زمین کے نیچے نیچے روانہ ہوا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی کے سامنے نمودار ہوگیا جب سلیمان (علیہ السلام) نے تخت کو اپنے روبرو موجود دیکھا فرمایا یہ یعنی اس کو میرے لئے لانا میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا نعمت کی ناشکری (ءَاَشْکُرُ ) میں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور ثانی الف سے بدل کر اور ثانی کی تسہیل کے ساتھ اور مسھلہ اور دوسرے کے درمیان الف داخل کرکے اور ترک ادخال کے ساتھ شکر گزار اپنے ہی فائدہ کے لئے شکر گزاری کرتا ہے اس لئے کہ اس کی شکر گزاری کا اجر اسی کے لئے ہے اور جس نے نعمت کی ناشکری کی تو بلاشبہ میرا رب اس کے شکرئیے سے مستغنیٰ (اور) کریم ہے بسبب نعمتوں کی ناشکری کرنے والے پر بھی فضل فرمانے کے (حضرت) سلیمان (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ اس کے تخت میں کچھ ردوبدل کردو یعنی اس کو اتنا بدل دو کہ جب وہ اس کو دیکھے تو پہچان نہ سکے، (تاکہ) ہم دیکھیں کہ آیا وہ اس کو پہچان پاتی ہے یا نہ پہچاننے والوں میں رہتی ہے اس (تخت) کی معرفت میں جس میں ان کے لئے ترمیم کردی ہے، اس ردو بدل کا مقصد اس کی عقل کی آزمائش تھی، اس لئے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے کہا گیا تھا کہ اس کی عقل میں کچھ کمی ہے چناچہ تخت میں قدرے کمی بیشی وغیرہ کے ذریعہ پھیر بدل کردیا، جب وہ آگئی اس سے دریافت کیا گیا کیا تیرا تخت بھی ایسا ہی ہے ؟ یعنی کیا تیرا تخت بھی اس جیسا ہی ہے تو بلقیس نے جواب دیا یہ تو گویا کہ وہی ہے یعنی اس نے تخت کو پہچان لیا، اس نے (بھی) ان کو مغالطہ دیا جیسا کہ انہوں نے اس کو مغالطہ دیا تھا، اس لئے (اس سے) یہ نہیں کہا کیا یہ تیرا تخت ہے ؟ اور اگر یہ کہا جاتا تو وہ نعم کہہ دیتی، جب سلیمان (علیہ السلام) نے اس میں علم و معرفت دیکھی تو فرمایا کہ ہمیں تو اس واقعہ سے پہلے ہی بتادیا گیا تھا (کہ ملکہ سبا تابع فرمان ہو کر حاضر خدمت ہوگی) اور ہم مسلمان تھے۔ نوٹ : مفسر ابن کثیر نے وَاُوْتِیْنَا الْعِلْمَ (الآیۃ) کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قول قرار دیا ہے علامہ محلی نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، دیگر مفسرین نے بلقیس کا قول قرار دیا ہے اور ترجمہ یہ کیا ہے ہم تو اس واقعہ سے پہلے ہی سمجھ گئے تھے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور آپ کے مطیع اور تابع فرمان ہوگئے تھے اور اس کو اللہ کی عبادت سے غیر اللہ کی عبادت کرنے نے روک رکھا تھا (صدھا کا فاعل ما کانت تعبد ہے) یقیناً وہ کافر قوم میں سے تھی بلقیس سے یہ بات بھی کہی گئی کہ محل میں تشریف لے چلئے (اور) وہ صاف شفاف شیشہ کی سطح (فرش) تھی جس کے نیچے پانی جاری تھا اس میں مچھلیاں بھی تھیں، اور یہ شیشہ کا محل (یا حوض) اس لئے بنوایا تھا کہ حضرت سلیمان سے کہا گیا تھا کہ اس کی دونوں پنڈلیاں اور دونوں پیر گدھے کے پیر جیسے ہیں جب بلقیس نے محل کو دیکھا تو یہ سمجھ کر کہ یہ گہرا پانی ہے اپنی پنڈلیاں کھول دیں تاکہ اس میں داخل ہوجائے، اور سلیمان (علیہ السلام) محل کے سامنے تخت پر تشریف فرما تھے چناچہ اس کی پنڈلیوں اور قدموں کو خوبصورت پایا تو حضرت سلیمان نے اس سے کہا یہ تو چکنے چمکدار شیشہ کا محل ہے یعنی کانچ کا اور بلقیس کو اسلام کی دعوت دی، کہنے لگی یقیناً میں نے اے میرے رب تیرے غیر کی بندگی کرکے اپنے اوپر ظلم کیا اور میں سلیمان کے ساتھ ہو کر رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں اور سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے نکاح کا ارادہ فرمایا، لیکن اس کی پنڈلیوں کے بالوں سے ناپسند کیا چناچہ شیاطین نے اس کے لئے نورہ (یعنی بال صفا) بنایا بعد ازیں بلقیس نے اس سے بال صاف کئے اس کے بعد سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے نکاح کرلیا اور اس کو اس کے ملک پر برقرار رکھا، اور حضرت سلیمان ہر ماہ میں اس کی ایک مرتبہ ملاقات کیا کرتے تھے اور اس کے پاس تین روز قیام فرمایا کرتے تھے اور اس کے پاس تین روز قیام فرمایا کرتے تھے، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ملک کے اختتام کے ساتھ ہی اس کا ملک بھی اختتام پذیر ہوگیا، روایت کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جب تیرہ سال کے تھے تو بادشاہ بنے تھے اور جب تریپن سال کے تھے تو انتقال فرمایا، اللہ پاک ہے کہ جس کے ملک کے دوام کے لئے زوال نہیں ہے۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد قال عفریت من الجن اس جن کا نام ذکوان یا صخر تھا۔ قولہ : آصف ابن برخیا کہا گیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خالہ زاد بھائی تھا اور کبار اولیاء اللہ میں سے تھا، اس کے ہاتھ پر خوارق عادت بہت ظاہر ہوتے تھے۔ قولہ : ثَمَّ رَدّ بطرفہٖ بطرفِہٖ میں با زائدہ ہے۔ قولہ : بالاِفضَالِ علیٰ مَنْ یَکْفُرُھا یعنی وہ اپنی عام نعمتوں کو کفر اور ناشکری کی وجہ سے سلب نہیں کرتا قال نکروا لھا اس کا عطف قال ھٰذا من فضل ربی پر ہے۔ قولہ : نَنْظُرْ جواب امر ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔ قولہ : فَکَرِہَ شَعْرَ سَاقَیْھَا یہ تفسیر ما قبل کی تفسیر فرَایٰ ساقِیْھَا وقَدْمَیْھَا حِسَانًا سے متعارض ہے، بعض حضرات نے یہ توجیہ کی ہے کہ بالوں سے قطع نظر کرتے ہوئے اس کے قدم اور پنڈلیاں حسین تھیں، مگر یہ توجیہ دل لگتی نہیں ہے، قولہ : مُمَرَّدٌ تمرید سے مشتق اس کے معنی چکنے کے ہیں امرد اسی سے ہے۔ تفسیر و تشریح مگر سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس سے بھی جلدی چاہتا ہوں، تو جس کے پاس علم کتاب تھا بول اٹھا کہ میں اس کو پلک جھپکنے سے پہلے ہی آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ یقیناً جن ہی تھا جنوں کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مقابلہ میں غیر معمولی قوتوں سے نوازا ہے، اس لئے کہ کسی انسان کے لئے خواہ وہ کتنا بھی زور آور کیوں نہ ہو یہ ممکن نہیں کہ وہ بیت المقدس سے مآرب یمن (سبا) جائے وہاں سے تخت شاہی اٹھالائے اور ڈیڑھ ہزار میل کا یہ فاصلہ اگر دو طرفہ شمار کیا جائے تو تین ہزار میل کا فاصلہ چشم زدن میں طے کرلے۔ یہ کون شخص تھا جس نے چشم زدن میں تخت لانے کا وعدہ کیا ؟ اور یہ کتاب جس کا اسے علم دیا گیا تھا وہ کونسی کتاب تھی ؟ اور یہ علم کیا تھا ؟ جس کے زور پر یہ دعویٰ کیا گیا اس میں مختلف اقوال ہیں، حقیقت حال اللہ بہتر جانتا ہے، ایک احتمال تو یہ ہے کہ خود حضرت سلیمان (علیہ السلام) مراد ہیں، اس لئے کہ کتاب کا علم سب سے زیادہ ان ہی کے پاس تھا اس صورت میں یہ پورا معاملہ بطور معجزہ ہوا، اور یہی مقصود تھا، مگر اکثر ائمہ تفسیر قتادہ سے ابن جریر نے نقل کیا ہے اور قرطبی نے اسکو جمہور کا قول قرار دیا ہے کہ یہ کوئی شخص حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اصحاب میں سے تھا ابن اسحٰق نے اس کا نام آصف بن برخیا بتایا ہے اس شخص کو اسم اعظم کا علم تھا، جس کا خاصہ یہ ہے کہ اس کو پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے جو بھی دعا کی جائے قبول ہوتی ہے، یہ کام اگرچہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) خود بھی انجام دے سکتے تھے مگر ہوسکتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے مصلحت اسی میں سمجھی ہو کہ یہ کارنامہ ان کے کسی امتی کے ہاتھ سے انجام پائے، اس صورت میں یہ آصف بن برخیا کی کرامت ہوگی۔ معجزہ اور کرامت میں فرق : جس طرح معجزہ میں اسباب طبعیہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ معجزہ براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللہ رَمیٰ اسی طرح کرامت میں بھی اسباب طبعیہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا اور یہ دونوں صاحب معجزہ اور صاحب کے اختیار میں بھی نہیں ہوتے، ان دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ ایسا کوئی خارق عادت کام اگر کسی صاحب وحی کے ہاتھ پر ہو تو معجزہ کہلاتا ہے اور اگر غیر نبی کے ہاتھ پر ظہور ہو تو کرامت کہلاتی ہے۔ جب ملکہ بلقیس کا شاہی تخت دربار سلیمانی میں آگیا تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ اس میں ردوبدل کردو تاکہ بلقیس اسے آسانی سے نہ پہچان سکے حضرت سلیمان کے حکم کے مطابق ردو بدل کردیا گیا، جب بلقیس آئی تو اس سے معلوم کیا کہ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے ؟ جواب دیا کَاَنَّہٗ ھُوَ گویا وہی ہے، چونکہ تخت میں کافی حد تک ردو بدل کردیا گیا تھا اس لئے صاف الفاظ میں اپنے ہونے کا اقرار بھی نہیں کیا اور نہ صاف انکار کیا بلکہ ایسی گول بات کہہ دی کہ جس میں نہ انکار ہے اور نہ اقرار چونکہ سائل نے اشتباہ میں ڈالنے کے لئے مغالطہ سے کام لیا تھا، بلقیس نے بھی جیسا سوال تھا ویسا ہی جواب دیدیا۔ اوتینا العلم من قبلھا اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ بلقیس کا قول ہے یا سلیمان (علیہ السلام) کا، ابن حجر نے اس کو بلقیس کا مقولہ قرار دیا ہے اور اسی کے سابق کلام کا تتمہ فرمایا ہے یعنی بلقیس نے عرض کیا کہ ہم لوگوں کو تو اس واقعہ سے پہلے ہی آپ کی نبوت کی تحقیق ہوچکی ہے، اور ہم اسی وقت سے دل سے مطیع ہوچکے ہیں جب قاصد سے آپ کے کمالات معلوم ہوئے تھے، اس معجزہ کی چنداں حاجت نہیں تھی، اور ابن جریر نے مجاہد سے نقل کیا ہے یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا مقولہ ہے مطلب یہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہمیں (بذریعہ وحی) پہلے یہ بتادیا گیا کہ ملکہ سبا تابع فرمان ہو کر حاضر خدمت ہوگی۔
Top