Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 123
وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ نَصَرَكُمُ : مدد کرچکا تمہاری اللّٰهُ : اللہ بِبَدْرٍ : بدر میں وَّاَنْتُمْ : جب کہ تم اَذِلَّةٌ : کمزور فَاتَّقُوا : تو ڈروا اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر گزار ہو
اور خدا نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تم بےسروسامان تھے پس خدا سے ڈرو (اور ان احسانوں کو یاد کرو) تاکہ شکر کرو
وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاآ۔ نْتُمْ اَذِلَّۃٌ (الآیۃ) مسلمان بدر کی جانب محض قریش کے قافلہ پر جو غیر مسلح تھا چھاپہ مارنے نکلا تھا اس لیے کہ قریش مکہ نے یہ طے کیا تھا کہ اس قافلہ کی تجارت سے جو آمدنی ہوگی وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری میں صرف کی جائے گی اسی غرض کے پیش نظر اہل مکہ نے اس قافلہ کی تجارت میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ لگانے کی کوشش کی تھی، اسی لیے مسلمانوں نے اس قافلہ پر چھاپہ مار کر پورا مال ضبط کرنے کی کوشش کی اور یہ جنگی اصول کے عین مطابق ہے اور موجودہ دور میں بھی یہی سب کچھ ہوتا ہے، بلکہ صرف بہانہ بنا کر لوگوں اور حکومتوں کے غیر جنگی سامان کو، جنگی سامان بتا کر ضبط کرلیا جاتا ہے۔ غزوہ بدر کا خلاصہ اور اس کی اہمیت : بدر، مدینہ منورہ سے جنوب مغرب میں تقریباً بیس میل کے فاصلہ پر ایک کنویں کا نام ہے دراصل یہ کنواں بدر نامی ایک شخص کی ملکیت تھا اسی شخص کے نام سے اس کنویں کا نام بھی بدر ہوگیا، اس وقت اس کو اہمیت اس لیے حاصل تھی کہ یہاں پانی کی افراط تھی ساحل بحر احمر سے ایک منزل پڑاؤ اور منڈی کا نام ہے یہ مقام شام، مدینہ اور مکہ کی سڑکوں کا تراہا تھا اور قریش کے تجارتی قافلے اسی راستہ سے آمدورفت کرتے تھے۔ توحید اور شرک کے درمیان یہیں سے پہلا معرکہ 17 رمضان بروز جمعہ 6 ھ مطابق 11 مارچ 624 ء کو پیش آیا تھا۔ اس غزوہ نے دنیا کی تاریخ میں ایک عظیم الشان انقلاب پیدا کردیا۔ فرنگی مؤرخوں نے بھی اس کی اہمیت کا اقرار کیا ہے۔ ہسٹورنیس ہسٹری آف دی ورلڈ میں ہے ” فتوحات اسلامی کے سلسلہ میں جنگ بدر انتہائی اہمیت رکھتی ہے “ جلد 8 ص 122 (ماجدی) اور امریکی پروفیسر ہٹی (HATTI) کی ” ہسٹری آف دی عربس “ میں ہے، یہ اسلام کی سب سے پہلی فتح مبین تھی۔ (ص 117) مشرکین مکہ کے لشکر کی تعداد اور ان کے مسلح ہونے کی صورت حال کو سن کر مسلمانوں کی صفوں میں گھبراہٹ اور تشویش اور جوش کا ملا جلا ردعمل ہونا ایک قدرتی بات تھی اور ہوا بھی، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعاء اور فریاد کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک ہزار فرشتے اتارے اور مزید کا یہ وعدہ کیا کہ اگر تم صبر وتقویٰ پر قائم رہے تو فرشتوں کی یہ تعداد پانچ ہزار کردی جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ مشرکین کا جوش و غضب برقرار نہ رہ سکا اس لیے حسب بشارت تین ہزار فرشتے اتارے گئے اور پانچ ہزار کی تعداد پوری کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ مقدار پوری کی گئی فرشتوں کو نازل کرنے کا مقصد براہ راست لڑائی میں حصہ لینا نہیں تھا بلکہ محض حوصلہ افزائی مقصود تھی ورنہ اگر فرشتوں کے ذریعہ مشرکوں کو ہلاک کرانا ہوتا تو اتنے فرشتے نازل کرنے کی ضرورت نہیں تھے ایک فرشتہ ہی سب کو ختم کردیتا۔ ایک فرشتہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی پوری بستی کو تہس نہس کرکے ہلاک کردیا تھا، چونکہ یہ جہاد کا مسئلہ تھا اور جہاد انسانوں ہی کو کرنا ہوتا ہے کہ وہ اجر وثواب کے مستحق ہو سکیں فرشتوں کا کام صرف ہمت افزائی اور حوصلہ بڑھنا تھا جو پورا ہوا۔
Top