Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 88
فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْا١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
فَمَا لَكُمْ : سو کیا ہوا تمہیں فِي الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین کے بارے میں فِئَتَيْنِ : دو فریق وَاللّٰهُ : اور اللہ اَرْكَسَھُمْ : انہیں الٹ دیا (اوندھا کردیا) بِمَا كَسَبُوْا : اس کے سبب جو انہوں نے کمایا (کیا) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَهْدُوْا : کہ راہ پر لاؤ مَنْ : جو۔ جس اَضَلَّ : گمراہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَنْ تَجِدَ : پس تم ہرگز نہ پاؤ گے لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
تو کیا سبب ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو ہے ہو حالانکہ خدا نے ان کو ان کے کرتوتوں کے سبب اوندھا کردیا ہے ؟ کیا تم چاہتے ہو کہ جس شخص کو خدا نے گمراہ کردیا ہے اس کو راستے پر لے آؤ ؟ اور جس شخص کو خدا گمراہ کر دے تم اس کے لیے کبھی بھی راستہ نہ پاؤ گے
آیت نمبر 88 تا 91 ترجمہ : اور جب لوگ اُحُدْ سے لوٹے تو لوگوں نے ان کے بارے میں اختلاف کیا، ایک فریق نے کہا ان کو قتل کرو اور دوسرے فریق نے کہا مت قتل کرو، تو یہ آیت نازل ہوئی، (فَمَالکم) تمہارا کیا حال ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو جماعت ہوگئے اللہ نے ان کو ان کے کفر و معاصی کی ندولت واپس پھیر دیا کیا تم چاہتے ہو کہ جن کو اللہ نے گمراہ کردیا تم راہ راست پر لے آؤ یعنی تم ان کو من جملہ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کرتے ہو، استفہام دونوں جگہ انکاری ہے، اور جس کو اللہ گمراہ کردے اس کے لئے تو ہرگز ہدایت کا راستہ نہ پائیگا یہ لوگ تو دل سے چاہتے ہیں کہ تم بھی کفر کرو جس طرح یہ لوگ کفر کررہے ہیں تاکہ وہ اور تم کفر میں برابر ہوجاؤ سو تم ان میں سے کسی کو دوست نہ بنانا کہ ان سے دوستی کرنے لگو، اگرچہ وہ ایمان کا اظہار کریں، جب تک اللہ تعالیٰ کے راستہ میں صحیح طور پر ہجرت کریں جو ان کے ایمان کو محقق کردے، اور اگر وہ رو گردانی کریں اور اگر وہ موجودہ نفاق ہی پر قائم رہیں تو ان کو قید کرو اور کہیں انھیں پاؤ قتل کرو ان میں سے کسی کو دوست نہ بناؤ کہ ان سے دوستی کرنے لگو، اور نہ مددگار بناؤ کہ ان سے دشمن کے مقابلہ میں مدد لینے لگو، سوائے ان لوگوں کے جو ان لوگوں سے جا ملیں کہ ان کے اور تمہارے درمیان معاہدہ امن ہے اور ان کا جو ان سے جاملے ہیں جیسا کہ آپ ﷺ نے ہلال بن عویمر اسلمی سے معاہدہ فرمایا تھا، یا وہ لوگ اسطرح آتے ہیں کہ ان کے سینے اس سے تنگ ہو رہے ہیں کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ ہو کر تم سے لڑیں یا تمہارے ساتھ ہو کر اپنی قوم سے لڑیں، یعنی وہ تمہارے ساتھ اور ان کے ساتھ قتال کرنے سے رکے ہوئے ہیں، لہذا تم ان سے قید وقتل کرکے تعرض نہ کرو یہ حکم اور اس کا مابعد آیت سیف سے منسوخ ہے اور اگر اللہ کو تم پر ان کا غلبہ منظور ہوتا تو وہ ان کو ان کے دلوں کو قوی کرکے تمہارے اوپر غالب کردیتا تو وہ ضرور لڑتے لیکن اس کو منظور نہ ہوا جس کی وجہ سے اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈالدیا، پس اگر وہ تمہیں چھوڑے رہیں اور تم سے قتال نہ کریں اور تمہارے ساتھ سلامت روی رکھیں، یعنی تمہارے تابع فرمان رہیں، تو اللہ نے ان کے خلاف تمہارے لئے قیدوقتل کی کوئی راہ نہیں رکھی اور عنقریب تم کچھ اور لوگ بھی پاؤ گے جو چاہتے ہیں کہ تمہارے سامنے ایمان کا اظہار کرکے تم سے بھی امن میں رہیں، اور جب اپنی قوم کے پاس جائیں تو (اظہار) کفر کے ذریعہ اپنی قوم سے بھی سے بھی امن میں رہیں اور اَسَدْ اور غطفان ہیں، اور انھیں جب کبھی فتنہ شرک کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اس کی طرف پلٹ پڑتے ہیں یعنی اس میں شدت کے ساتھ واقع ہوجاتے ہیں، پس اگر ترک قتال کرکے تم کو چھوڑے نہ رکھیں اور نہ تم سے اپنے ہاتھوں کو روکے رکھیں، تو تم ان کو قید کرو اور انھیں جہاں کہیں پاؤ قتل کرو یہی لوگ تو ہیں کہ جن کے خلاف ہم نے تم کو کھلی گرفت دیدی ہے یعنی ان کے قتل وقید پر ان کی غداری کی وجہ سے کھلی اور وضح دلیل دیدی ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : مَاشَانُکُمْ ، دخولِ حرف علی الحرف سے بچنے کے لئے مفسرعلام نے شان مضاف محذوف مانا ہے۔ قولہ : صِرْتُمْ ، اس کے حذف میں اشارہ ہے کہ فِی المنفقین، صرتُمْ محذوف کے متعلق ہے اور فِئَتَیْنِ صِرتم کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور جملہ ہو کر مالکم مبتداء کی خبر ہے۔ قولہ : تَمنَّوا، وَدُّوا، کی تفسیر تَمنَّوْا سے کرکے بتادیا کہ اگر وَدُّ کے بعد لَوْ واقع ہو تو تمنا کے معنی میں ہوتا ہے، قولہ : یَلْجَأُوْنَ مفسرّ علاّم نے یَصِلون، کی تفسیر یَلْجَأن سے تصحیح صلہ کے لئے کی ہے۔ قولہ : اوالّذِیْنَ اس میں اشارہ ہے کہ جائُ وکم کا عطف یصلون پر ہے نہ کہ قوم کی صفت پر۔ قولہ : وقد حَصِرتْ ، قد محذوف مان کر ان لوگوں پر رد کرنا مقصود ہے جو حَصِرت کو قوماً محذوف کی صفت مانتے ہیں، اس لئے کہ اس میں بلا ضروت حذف لازم آتا ہے بلکہ حَصِرت جَاء وکم کی ضمیر سے حال ہے، اور ماضی جب حال واقع ہو تو قَدْ ضروری ہوتا ہے خواہ لفظاً ہو یا معنی اسی لئے مفسرّ علاّم نے قد مقدر مانا ہے۔ قولہ : عن، حصِرت چونکہ متعدی بنفسہ نہیں ہوتا اس لئے عَنْ محذوف ماننا ضروری ہے۔ تفسیر وتشریح فَمَالکم فی المنافقین فئتَیْنِ ، یہ استفہام انکاری ہے یعنی تمہارے درمیان ان منافقوں کے بارے میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا، ان منافقین سے وہ منافقین مراد ہیں جو غزوہ احد میں مدینہ سے کچھ دور جا کر واپس آگئے تھے، اور بہانہ یہ کیا تھا کہ مشورہ میں ہماری بات نہیں مانی گئی۔ (صحیح بخاری صحیح مسلم) ان منافقوں کے بارے میں مسلمانوں کے گروہ ہوگئے تھے، ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ہمیں ان منافقوں سے بھی لڑنا چاہیے دوسرا اسے مصلحت کے خلاف سمجھتا تھا۔ شان نزول : مذکورہ آیت میں تین فرقوں کے واقعات کی طرف اشارہ ہے جو مندرجہ ذیل روایت سے معلوم ہوں گے۔ پہلی روایت : عبداللہ بن حمید نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ بعض مشرکین مکہ سے مدینہ آئے اور ظاہر یہ کیا کہ ہم مسلمان اور مہاجر ہو کر آئے ہیں، پھر مرتد ہوگئے، رسول اللہ ﷺ سے اسباب تجارت لانیکا بہانہ کرکے مکہ چلے گئے اور واپس نہیں آئے، ان کے بارے میں مسلمانوں کی رائے مختلف ہوئی، بعض نے کہا یہ کافر ہیں بعض نے کہا مومن ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا کافر ہونا فَمَالکم فی المنافقین، میں بیان فرمایا اور ان کے قتل کا حکم دیا ہے۔ منافقین کو گو قتل نہیں کیا جاتا تھا مگر یہ اسی وقت تک تھا کہ ان کا نفاق ظاہر نہ ہو مگر جب یہ لوگ مکہ واپس چلے گئے اور ان کا ارتداد ظاہر ہوگیا تو ایک جماعت نے ان کے قتل کا مشورہ دیا، اور جنہوں نے مسلمان کہا شاہد حسن ظن کی وجہ سے کہا ہو اور ان کے دلائل ارتداد میں کوئی تاویل کی ہو اس لئے ان کے قتل نہ کرنے کا مشورہ دیا ہو۔ دوسری روایت : دوسری روایت ابن ابی شیبہ نے حسن سے روایت کی ہے کہ سراقہ بن مالک مدلجی نے واقعہ بدرواحد کے بعد رسول اللہ ﷺ کے حضور میں آکر درخواست کی کہ ہماری قوم بنی مدلج سے صلح کرلیجئے، آپ نے خالد بن ولید کو تکمیل کے لئے وہاں بھیجا مضمون صلح مندرجہ ذیل تھا۔ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے خلاف کسی کی مدد نہ کریں گے اور اگر قریش مسلمان ہوجائیں گے تو ہم بھی ہوجائیں گے اور جو قومیں ہم سے متحد ہوں گی وہ بھی اس معاہدہ میں ہمارے شریک ہیں۔ اس پر آیت وَدُّوالوتکفرون الخ نازل ہوئی۔
Top