Tafseer-e-Jalalain - An-Najm : 19
اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰىۙ
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ : کیا پھر دیکھا تم نے لات کو وَالْعُزّٰى : اور عزی کو
بھلا تم لوگوں نے لات اور عزٰی کو دیکھا
افرایتم الات والعزی اس سے مشرکین کی تو بیخ مقصود ہے بایں طور کہ اول اللہ تعالیٰ کی عظمت شان کا بیان ہے کہ وہ جبرئیل جیسے عظیم فرشتے کا خالق ہے اور محمد ﷺ جیسے اس کے رسول ہیں جنہیں اس نے آسمانوں پر بلا کر بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرایا اور ان پر وحی بھی نازل فرماتا ہے، کیا تم جن معبودوں کی عبادت کرتے ہو ان کے اندر بھی یہ یا اس قسم کی خوبیاں ہیں ؟ اس ضمن میں عرب کے تین بتوں کا بطور مثال ذکر کیا، ایک ان میں سے لات ہے، یہ لت یلت سے اسم فاعل ہے، اس کے معنی ہیں گھولنے والا، گوندھنے والا، یہ ایک نیک شخص تھا جو حج کے موسم میں حاجیوں کو ستوگھول کر پلایا کرتا تھا، جب اس کا انتقال ہوگیا تو لوگوں نے اس کی قبر کی پوجا شروع کردی بعد میں اس کے مجسمے تراش کر پوجا پاٹ شروع کردی، یہ طائف میں بنی ثقیف کا سب سے بڑا بت تھا، عزیٰ بعض نے کہا کہ یہ ایک درخت تھا جس کی پوجا کی جاتی تھی، بعض کہتے ہیں کہ یہ ایک جنیہ (بھوتنی) تھی جو بعض درختوں میں ظاہر ہوتی تھی، بعض کہتے ہیں کہ یہ ایک سنگ ابیض تھا جسے لوگ پوجتے تھے، یہ قریش اور بنی کنانہ کا خاص دیوتا تھا، مجاہد نے کہا کہ یہ ایک درخت تھا بنی غطفان اس کی پرستش کرتے تھے، جب مکہ فتح ہوا تو آنحضرت ﷺ نے حضرت خالد بن ولید کو حکم دیا کہ عزی کو خوار کریں چناچہ حضرت خالد ؓ نے وہ درخت کاٹ ڈالا ایک جنیہ بال بکھیرے سر پر ہاتھ رکھ کر خرابی خرابی چلاتی ہوئی نکلی حضرت خالد ؓ نے اس کو تلوار سے قتل کردیا، جب خالد ؓ آپ کی خدمت میں آئے تو واقعہ عرض کیا، آپ نے فرمایا ابھی عزیٰ کا قلع قمع نہیں ہوا، پھر حضرت خالد نے درخت جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا اس سے ایک عورت برہنہ نکلی، خالد ؓ نے اسے بھی قتل کردیا، حضور نے فرمایا یہی عزی تھی اب کبھی نہ پوجی جائے گی، مذاۃ یہ منی یمنی سے ماخوذ ہے جس کے معنی بہانے کے ہیں، چونکہ مشرکین عرب اس کے پاس بکثرت جانور ذبح کر کے خون بہا کر اس کا تقرب حاصل کرتے تھے اسی لئے اس کا نام مناۃ ہوگیا یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بنو خزاعہ کا خاص بت تھا، زمانہ جاہلیت میں اوس اور خزرج یہیں سے احرام باندھتے تھے اور اس کا طواف بھی کرتے تھے۔ (خلاصۃ التفاسیر، وابن کثیر) بحث :۔ وما ینطق عن الھوی ٰ کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ کے تمام کلمات اور جمیع مرویات وحی ہوں ابن کثیر کی مرویات سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا انی لا اقول الا بالحق اور حضرت عمر و ؓ نے فرمایا کہ میں جو آنحضرت ﷺ سے سنتا لکھ لیتا، قریش نے کہا آپ ﷺ بشر ہیں حالت غضب میں بھی بات کرتے ہیں، پھر جملہ کلمات قابل ضبط و تحریر کیونکر ہوسکتے ہیں ؟ میں نے آنحضرت سے عرض کیا، آپ نے فرمایا ” لکھ لیا کرو اس لئے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ حق ہی ہوتا ہے۔ “ شبہ : آپ ﷺ کو شاورھم فی الامر میں مشورہ کا حکم دیا گیا ہے جس کا مقتضی جواز اصلاح و ترمیم ہے اسی طرح ابارہ خرما (یعنی نر کھجور کے شگوفہ کو مادہ کھجور میں ڈالنا، جس کو تابیر کرنا کہتے ہیں) کا تقاضا بھی یہ ہے کہ آپ کا ہر قول وحی نہیں ہوتا تھا، یعنی صحابہ کرام اپنے کھجور کے درختوں میں عمل تابیر کیا کرتے تھے آپ نے ایک روز اس عمل کے بارے میں دریافت فرمایا، صحابہ نے عرض کیا اس طریقہ سے پھل خوب آتا ہے، آپ نے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو تو بہتر ہے، چناچہ صحابہ نے عمل تابیر ترک کردیا مگر اس سال پھل کم آئے صحابہ نے آپ ﷺ سے اس صورت حال کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا انما انا بشر اذا امرتکم بشیء من امر دینکم فخذوا بہ واذا امرتکم بشیء من رای فانما انا بشر (رواہ مسلم، مشکوۃ ص 28) ایک دوسری روایت میں ہے آپ نے ارشاد فرمایا ” جو مجھے چرب زبانی سے مغالطہ دیکر فیصلہ کرا لے گا قیامت میں اس کا وبال اس کے سر ہوگا، اسی طرح آپ ﷺ سے خطاء اجتہادی کا صدور ہوتا تھا، مذکورہ تمام امور کا مقتضی یہ ہے کہ آپ کے جمیع ارشادات وحی نہ ہوں، اس لئے کہ وحی الٰہی ہر قسم سے پاک ہوتی ہے۔ دفع : ارشادات نبوی کی چار قسمیں ہیں (1) ازواج و اطفال کے ساتھ مزاج (2) معاملات (3) تجویز و تدبیر (4) تبلیغ احکام من جانب اللہ، قسم رابع تو قطعاً وحی ہے، باقی اقسام ثلثہ بھی لغو و باطل و ہوائے نفس سے پاک اور بری ہیں، جیسا کہ آپ ﷺ نے ایک بوڑھی عورت سے مزاحاً فرمایا ” جنت میں بوڑھی عورتیں نہ جائیں گی “ مطلب یہ تھا کہ جوان ہو کر داخل جنت ہوں گی، ان معاملات میں کبھی کبھی رائے دقیاس کا صائب نہ ہونا جیسا کہ حدیث خرما میں گذاریا تجویز و تدبیر میں خطائے اجتہادی کا ہونا جیسا کہ بدر کے قیدیوں کے بارے میں ہوا، یہ نہ غیر حق ہے اور نہ ہوائے نفس لہٰذا احادیث میں کوئی تعارض نہیں، رہی آیت وما ینطق عن الھویٰ یہ مخصوص ہے ان کلمات اور ارشادات سے جو امور دین سے ہوں۔ مسئلہ : آپ ﷺ صغائر و کبائر سے معصوم ہیں جیسا کہ عدم ضلال و عدم غوایت مطلقہ سے ظاہر ہے۔ (خلاصۃ التفاسیر) علمہ شدید القویٰ بحث :۔ شدید القویٰ سے اکثر مفسرین کے نزدیک حضرت جبرئیل امین مراد ہیں۔ شبہ : اس سے شبہ لازم آتا ہے کہ جبرئیل آپ ﷺ کے معلم اور استاذہوں، اور آپ ﷺ متعلم اور شاگرد ہوں۔ دفع : حضرت جبرئیل امین مبلغ تھے نہ کہ استاذ و معلم اور فرق ان دونوں میں یہ ہے (1) معلم میں علم مقصود بالذات ہوتا ہے اور مبلغ میں مقصود بالغیر (2) معلم علم سے فائدہ اٹھانے کی مستقل صلاحیت رکھتا ہے اور مبلغ واسطہ اور ناقل ہوتا ہے (3) معلم میں علم قائم ہو کر متعلم کی طرف منعکس ہوتا ہے اور اس علم کا ظل اور مثل متعلم میں آجاتا ہے جیسے چراغ کا نور دوسرے چراغ میں اور مبلغ میں مقصود انتقال عین ہوتا ہے اور مبلغ واسطہ جیسے حرارت آتشی شیشے سے پس مبلغ میں اثر رہ سکتا ہے جیسے متعلم میں اثر جاسکتا ہے اور معلم میں عین باقی رہتا ہے جس طرح کہ مبلغ الیہ میں عین قائم ہوتا ہے (4) معلم معطی علم ہے اور مبلغ مئودی امانت، پس انہی وجوہ سے معلم کو متعلم پر شرف و فضل حاصل ہے مبلغ کو نہیں، اسی لئے جبرئیل ” رسول امین “ قرار پائے ہیں، گوا امین خود قابض اور واسطہ قبض صاحب امانت ہو مگر خادم و مامور ہے نہ کہ معطی ومالک، ملائکہ ذرائع ہوتے ہیں اور انبیاء مقاصد (خلاصۃ التفاسیر ملخصاً )
Top