Tafseer-e-Jalalain - An-Najm : 6
ذُوْ مِرَّةٍ١ؕ فَاسْتَوٰىۙ
ذُوْ مِرَّةٍ ۭ : صاحب قوت ہے فَاسْتَوٰى : پھر پورا نظر آیا۔ سیدھا کھڑا ہوگیا۔ درست ہوگیا
(یعنی جبرئیل) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے
ذومرۃ فاستوی یہ اور آئندہ کلمات اکثر مفسرین کے نزدیک حضرت جبرئیل کی صفات ہیں اور بعض دیگر مفسرین کے نزدیک مذکورہ صفات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہیں اور ان تمام آیات کا تعلق واقعہ معراج سے قرار دے کر حق تعالیٰ سے تعلیم بلاواسطہ اور رویت و قرب حق تعالیٰ پر محمول کرتے ہیں، یہ تفسیر صحابہ کرام میں سے حضرت انس ؓ اور ابن عباس ؓ سے منقول ہے، اور پہلی تفسیر جن صحابہ سے منقول ہے ان میں بہت سے حضرات صحابہ وتابعین شامل ہیں ان حضرات کے قول کے راجح ہونے کی کئی وجوہات میں تاریخ سے بھی اسی قول کی تائید ہوتی ہے، اس لئے کہ سورة نجم بالکل ابتدائی سورتوں میں سے ہے اور ظاہر یہی ہے کہ واقعہ معراج اس سے مئوخر ہے، دوسری اور اصل وجہ یہ ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ سے ان آیات کی تفسیر رویت جبرئیل سے منقول ہے، مسند احمد میں یہ روایت منقول ہے۔ شعبی حضرت مسروق سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ایک روز حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس تھے۔ (ردیت باری تعالیٰ کے مسئلہ میں گفتگو ہو رہی تھی) مسروق کہتے ہیں کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولقد راہ بالافق المبین، ولقد راہ نزلۃ اخری حضرت صدیقہ نے فرمایا کہ پوری امت میں سب سے پہلے میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا، آپ نے فرمایا کہ جس کے دیکھنے کا آیت میں ذکر ہے، وہ جبرئیل ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے صرف دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے آیت میں جس رویت کا ذکر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جبرئیل امین کو آسمان سے زمین کی طرف اترتے ہوئے دیکھا کہ ان کے جسم نے زمین و آسمان کے درمیان کی فضاء کو بھر دیا ہے (مسند احمد) صحیح مسلم میں بھی تقریباً انہی الفاظ سے منقول ہے، نووی نے شرح مسلم میں اور حافظ نے فتح الباری میں اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔
Top