Tafseer-e-Jalalain - An-Naml : 30
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ وَ یُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَا١ؕ قَالُوْا شَهِدْنَا عَلٰۤى اَنْفُسِنَا وَ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ
يٰمَعْشَرَ : اے گروہ الْجِنِّ : جنات وَالْاِنْسِ : اور انسان اَلَمْ يَاْتِكُمْ : کیا نہیں آئے تمہارے پاس رُسُلٌ : رسول (جمع) مِّنْكُمْ : تم میں سے يَقُصُّوْنَ : سناتے تھے (بیان کرتے تھے) عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتِيْ : میرے احکام وَيُنْذِرُوْنَكُمْ : اور تمہیں ڈراتے تھے لِقَآءَ : ملاقات (دیکھنا) يَوْمِكُمْ : تمہارا دن ھٰذَا : اس قَالُوْا شَهِدْنَا : وہ کہیں گے ہم گواہی دیتے ہیں عَلٰٓي : پر (خلاف) اَنْفُسِنَا : اپنی جانیں وَغَرَّتْهُمُ : اور انہیں دھوکہ میں ڈالدیا الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَشَهِدُوْا : اور انہوں نے گواہی دی عَلٰٓي : پر (خلاف) اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں (اپنے) اَنَّهُمْ : کہ وہ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ : کفر کرنے والے تھے
اے جن وانسانوں کی جماعت کیا تمہارے پاس پیغمبر نہیں آتے رہے جو میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر سناتے اور اس دن کے سامنے آموجود ہونے سے ڈراتے تھے ؟ وہ کہیں گے کہ (پروردگار) ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے۔ ان لوگوں کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا اور (اب) خود اپنے اوپر گواہی دی کہ کفر کرتے تھے۔
آیت نمبر 130 تا 140 ترجمہ : اے جن و انس کے گروہو ! کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے ؟ یعنی تمہارے مجموعہ میں سے جو کہ انسانوں پر صادق ہے، یا رسل جن سے وہ آگاہ کرنے والے جن مراد ہیں جو (انسانی) رسولوں کا کلام سنتے اور اپنی قوم کو پہنچاتے تھے، جو تم کو میری آیتیں پڑھ کر سناتے اور تم کو اس دن کے پیش آنے سے آگاہ کرتے، وہ کہیں گے (ہاں) ہم خود اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے ہمارے پاس پیغام پہنچایا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائیگا ان کو دنیوی زندگی نے دھوکے میں ڈالے رکھا جس کی وجہ سے وہ ایمان نہیں لائے، اور وہ اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے یہ رسولوں کو بھیجنا اس وجہ سے ہے کہ آپ کا رب کسی بستی والوں کو اس حال میں ہلاک کرنا نہیں چاہتا کہ وہ بیخبر ہوں کہ ان کے پاس کوئی رسول نہ بھیجا گیا ہو وہ ان کو آگاہ کرنے والا ہو، اور ہر نیک و بد عمل کرنے والے کو (اس کے عمل کی) جزاء ملے گی، اور آپ کا رب ان کے عمل سے بیخبر نہیں ہے (یعملون) یاء اور تاء کے ساتھ ہے اور آپ کا رب اپنی مخلوق اور اس کی عبادت سے مستغنی ہے، رحمت والا ہے اے اہل مکہ اگر وہ چاہے تو تم کو ہلاک کرکے نیست کر دے اور تمہارے بعد جس مخلوق کو چاہے تمہارا خلیفہ بنا دے جیسا کہ تم کو دوسری قوموں کی نسل سے پیدا کیا ہے جن کو اس نے ہلاک کردیا، لیکن محض اپنے فضل سے تم کو باقی رکھا، یقیناً تم سے جس قیامت اور عذاب کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ یقیناً آنیوالی ہے اور تم (ہم کو) عاجز کرنے والے نہیں ہو یعنی تم ہمارے عذاب سے بچ کر نہیں نکل سکتے، (اے محمد) آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اے میری قوم تم اپنے طریقہ پر عمل کرتے رہو میں اپنی طریقہ پر عمل کر رہا ہوں تم کو عنقریب معلوم ہوجائیگا کہ کس کا دار آخرت میں انجام بہتر ہے ؟ مَن موصولہ تعلمون کا مفعول ہے یعنی آخرت میں کون انجام کے اعتبار سے بہتر ہے ؟ ہم یا تم، یہ یقینی بات ہے کہ ظالم کافر کامیاب نہ ہوں گے اور کفار مکہ نے اللہ کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور مویشیوں سے ایک حصہ اس کیلئے مقرر کیا ہے جس کو وہ مہمانوں اور مسکینوں کیلئے خرچ کرتے ہیں اور ایک حصہ اپنے معبودوں کیلئے مقرر کیا ہے جس کو وہ کعبہ کے خدام کیلئے خرچ کرتے ہیں، اور بزعم خویش کہتے ہیں یہ اللہ کیلئے ہے (زعم) زاء کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ ہے اور یہ ہمارے معبودوں کیلئے ہے اگر اللہ کے حصہ میں بتوں کے حصے سے کچھ گر جاتا تو اٹھا لیتے اور اگر بتوں کے حصہ میں اللہ کے حصے میں سے کچھ گر جاتا تو چھوڑ دیتے اور کہتے کہ اللہ اس سے بےنیاز ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، پھر جو ان کے بتوں کا حصہ ہوتا ہے تو وہ اللہ کو نہیں پہنچتا اور جو اللہ کا حصہ ہوتا ہے وہ ان کے بتوں تک پہنچ جاتا ہے جو فیصلہ یہ لوگ کرتے ہیں کس قدر ناپسندیدہ ہے اور جس طرح مذکورہ چیزوں ان کے لئے خوشنما بنادی گئی ہیں اسی طرح بہت سے مشرکوں کیلئے زندہ درگور کے ذریعہ ان کی اولاد کا قتل کرنا ان کے جنی معبودوں نے خوشنما بنادیا ہے (شرکاء) کے رفع کے ساتھ زَیْنَ کا فاعل ہونے کی وجہ سے اور ایک قراءت میں (زُینَ ) مجہول کے صیغہ کے ساتھ اور قتل کے رفع اور (زین کی وجہ سے) الاولادَ کے نصب کے ساتھ اور شرکاء کے جر کے ساتھ، اس کی اضافت کی وجہ سے اور اس میں مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان مفعول کا فصل ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور قتل کی اضافت شرکاء کی جانب ان کے حکم کرنے کی وجہ سے ہے تاکہ وہ انھیں برباد کریں، اور تاکہ وہ ان کے دین کو ان پر مشتبہ بنادیں، اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو وہ ایسا نہ کرتے، لہٰذا انھیں اور ان کی افتراء پردازیوں کو چھوڑ دو اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کچھ جانور اور کھیت ہیں جن کا استعمال ممنوع ہے ان بتوں کے خدام میں سے صرف وہی کھا سکتا ہے جس کو ہم اجازت دیں (یہ پابندی) انکے اپنے گمان کے اعتبار سے ہے یعنی اس پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور کچھ جانور ہیں کہ جن پر سواری ممنوع قرار دے لی گئی ہے کہ ان پر سواری نہیں کی جاتی جیسا کہ سوائب اور حوامی، اور کچھ جانور ہیں کہ بوقت ذبح ان پر اللہ کا نام نہیں لیتے بلکہ ان پر اپنے بتوں کا نام لیتے ہیں اور اسکی نسبت وہ اللہ کی طرف کرتے ہیں محض اللہ پر افتراء کے طور پر عنقریب اللہ تعالیٰ ان کو اس پر افتراء پردازیوں کی سزا دے گا، اور وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ان حرام کردہ جانوروں کے پیٹ میں ہے اور وہ سوائب اور بحائر ہیں وہ ہمارے مردوں کیلئے خاص طور پر حلال ہے اور ہماری عورتوں کیلئے حرام ہے اور اگر وہ مردہ ہو (میتہ) رفع اور نصب کے ساتھ ہے فعل (یکن) کی تذکیر اور تانیث کے ساتھ تو اس میں سب برابر کے شریک ہیں عنقریب اللہ تعالیٰ انکی اس تحلیل و تحریم کی گھڑی ہوئی باتوں کی سزا دے گا، یقیناً وہ اپنی صنعت میں حکیم (اور) اپنی مخلوق کے بارے میں باخبر ہے یقیناً وہ لوگ خسارے میں پڑگئے جنہوں نے اپنی اولاد کو زندہ دفن کرکے جہالت اور بیوقوفی کی وجہ سے قتل کیا (قتلوا) تاء کی تشدید و تخفیف کے ساتھ ہے، اور اللہ کے دئیے ہوئے مذکورہ رزق کو اللہ پر افتراء پردازی کرکے حرام ٹھہرا لیا، یقیناً وہ گمراہ ہوگئے راہ راست پانے والے نہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : یقال لَھُمْ ، اس اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یا معشر الجن کا عامل محذوف ہے اور وہ یقال ہے نہ کہ ماقبل میں مذکور نحشرھم، المعشر بمعنی جماعت اس کی جمع مَعَاشِرَ ہے جنّ سے مراد شیاطین ہیں۔ قولہ : اِسْتَکْثَرْتُمْ ، سین، تاء، کثرت کی تاکید کے لئے ہیں۔ قولہ : باِغْوَائِکم اس میں حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے، ای باغواء الانس قولہ : من مَجْمُوْعِکُم الصَّادِقِ بالانْسِ ، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : رسول انسان ہوتا ہے نہ کہ جن حالانکہ رسُلٌ منکم، سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول جنوں میں سے بھی ہوتے ہیں اس لئے خطاب انس و جن دونوں کو ہے۔ جواب : خطاب میں جب ثقلین جمع ہوں جیسا کہ یہاں جمع ہیں تو منکم کہنا درست ہوتا ہے اگرچہ ماد ایک ہی ہوتا ہے جیسا کہ یخرج منھما اللُّوْلُوْ والمرجان میں دریائے شور مراد ہے اسلئے کہ دریائے شور سے موتی نکلتے ہیں نہ کہ شیریں سے مگر پھر بھی منھما کہنا درست ہے، منکم ای من مجموعکم الصادق بالانس، مطلب یہ ہے کہ منکم سے مراد مجموعہ مخاطبین ہے اور مجموعہ میں انس بھی داخل ہیں لہٰذا منکم اس وقت بھی صادق آئیگا جب صرف ایک ہی فریق مراد ہو اور وہ یہاں انس ہے، رسلٌ سے دوسرے جواب کی طرف اشارہ ہے رسُلٌ سے رسول اصطلاحی مراد نہیں ہے بلکہ لغوی بمعنی قاصد مراد ہے اور یہ وہ جنات تھے جنہوں نے آپ ﷺ کا قرآن سنا تھا گویا کہ وہ آپ ﷺ کے ان کی قوم کی طرف قاصد اور نذیر تھے۔ قولہ : ذلک، یہ مبتداء محذوف کی خبر ہے تقدیر عبارت یہ ہے الأمر ذلک، مبتداء محذوف کی وجہ ایک سوال کا جواب ہے سوال یہ ہے، ان لم یکن سے علت بیان ہو رہی اَنْ اصل میں لِاَنْ ہے اور علت حکم کی ہوا کرتی ہے، اور ذلک حکم نہیں ہے جواب کا حاصل یہ ہے ذلک مبتداء محذوف کی خبر ہے ای الأمر ذلک، اور اس میں حکم ہے، لہٰذا علت بیان کرنا صحیح ہوگیا لام مقدر ماننے سے عدم ربط کا اعتراض بھی ختم ہوگیا۔ قولہ : قوم آخرین، سے مراد سفینہ نوح (علیہ السلام) ہیں۔ قولہ : وَلایَضُرُّ ، اس کلمہ کے اضافہ کا مقصد صاحب کشاف اور ان حضرات پر رد کرنا ہے جو مصدر مضاف الی فاعل کے درمیان فصل مفعول بلا ضرورت شعری ناجائز کہتے ہیں۔ تفصیل : وکذلک زَیَّنَ لکثیر۔۔۔۔۔۔ الخ، اس آیت میں متعدد قراءتیں ہیں، مکتوبہ قراءت جمہور کی قراءت ہے، زَیَّنَ معروف اور شرکاؤھم اس کا فاعل ہے قَتْلَ ، زیَّنَ کا مفعول ہے اس قواءت پر کوئی اعتراض نہیں ہے ایک دوسری قراءت ابن عامر کی ہے یہ قراءت بھی قراءت سبعہ میں سے ہے، ابن عامر کی قراءت اس طرح ہے، ” وَکذلک زُیَّنَ لکثیر من المشرکین قتل اولادَھم شرکائھم “ زُیِّنَ فعل مجہول فَتْلُ ، زُیِّنَ فعل مجہول کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع اور اَوْلادَھم مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب اور شرکائِھم قَتْلُ کا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے مجرور ہے اس صورت میں قتل مضاف اور شرکاء مضاف الیہ کے درمیان اولادَھم مفعول کا فصل لازم آتا ہے جو کہ بلا ضرورت شعری کلام منثور میں جائز نہیں ہے اور وہ بھی قرآن میں جو کہ اپنے لفظ و معنی کے اعتبار سے فصاحت و بلاغت میں حد اعجاز کو پہنچا ہوا ہے اس کے نادرست ہونے کی وجہ حویین کے نزدیک یہ ہے کہ مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان بلا ضرورت شعری جائز نہیں ہے، اسلئے کہ مضاف الیہ مضاف کیلئے بمنزلہ جزء کے ہوتا ہے اسلئے کہ مضاف الیہ مضاف کی تنوین کی جگہ واقع ہوتا ہے لہٰذا جس طرح اجزاء اسم کے درمیان فصل جائز نہیں ہے اسی طرح مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان فصل درست نہیں ہے اور یہ بصریین کا قول ہے، البتہ کو فیین کے نزدیک اگر مضاف مصدر اور مضاف الیہ اس کا فاعل ہو اور فصل مفعول کا ہو جیسا کہ ابن عامر کی مذکورہ قراءت میں ہے جائز ہے، لا یضرہ کہہ کر مفسر علام نے اسی جواب کی طرف اشارہ کیا ہے، (اعراب القرآن) ابن مالک نے بھی کافیہ کی شرح میں اس فصل کو بلا ضرورت شعری جائز کہا ہے، قال، اضافۃ المصدر الی الفاعل مفعولاً بینھما بمفعول المصدر جائزۃ۔ قولہ : واَضَافَۃُ القَتْلِ اِلی شُرْھائِھِم لَامْرِھِمْ بہ، اضافۃُ القتل مبتداء ہے اور لأمرھم بہ اس کی خبر ہے، مطلب یہ ہے کہ قتل کی اضافت شرکاء کی جانب مجازی ہے، اصل قاتل تو مشرکین ہیں، مگر چونکہ قتل کا حکم دینے والے شرکاء ہیں اس لئے قتل کی اضافت شرکاء کی جانب ان کے آمر ہونے کی وجہ سے کردی گئی ہے اسی کو اسناد مجازی کہتے ہیں، جیسے بنی الامیرُ المدینۃ میں بناء کی اضافت امیر کی جانب مجازی ہے، اس کے بناء کا حکم دینے کی وجہ سے۔ قولہ : بالرَفْعِ والنَصْبِ ، اگر کان تامہ ہو تو میتۃ مرفوع ہوگا اور اگر ناقصہ ہو تو نصب ہوگا۔ تفسیر و تشریح جنات میں نبی ہوئے ہیں یا نہیں ؟ رُسُل مِنکم سے ایک بڑی بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا جنات میں بھی سلسلہ نبوت قائم رہا ہے یا نہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کے بارے میں اسلاف کی رائے بھی معلوم کرلی جائے کہ کیا جنوں کی ہدایت کیلئے ان ہی میں سے اسی طرح رسول آئے ہیں جس طرح انسانوں کی ہدایت و تبلیغ کیلئے خود انسانوں میں سے رسول آئے اس سلسلہ میں چار قول ملتے ہیں۔ دربارہ نبوت جن، اسلاف کی آراء : (1) جس طرح انسانوں کی ہدایت کیلئے انسان رسول آئے ہیں اسی طرح جنوں کی ہدایت کیلئے بھی جن رسول آئے، یہ رائے حضرت حضاک بن مزاحم سے منقول ہے ان سے کسی نے سوال کیا کہ کیا ہمارے رسول ﷺ سے پہلے جنوں میں بھی رسول گذرے ہیں موصوف نے اثبات میں جواب دیا اور دلیل میں یہی آیت پڑھی اسی کی تائید میں ایک قول اور نقل ہوا ہے کہ جن و انس میں پیغمبر ان ہی کے ہم جنس آئے ہیں۔ (بیضاوی، وعلیہ ظاھر النص، مدارک) (2) جناب رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے انسان بھی رسول ہوتے تھے اور جن بھی یہ شرف آپ ﷺ کو حاصل ہوا کہ آپ جن و انس دونوں کیلئے مبعوث کئے گئے، (یہ کلبی کا قول ہے) ۔ (3) تیرا قول یہ ہے کہ رسول صرف انسان ہی ہوتے رہے ہیں، البتہ جنوں کی ہدایت کے خصوصی نمایندے جنوں میں سے مقرر ہوتے تھے ان کا یہ کام ہوتا تھا کہ انبیاء کرام کے ارشادات سنیں اور پوری احتیاط سے جنوں کی برادری تک پہنچائیں ان کو منذر یا نذر کہا جاتا تھا۔ (یہ مجاہد کا قول ہے) (4) آیت الم یاتکم رسُلٌ مِنکم سے یہ بات تو صاف معلوم ہوتی ہے کہ جن و انس دونوں کی ہدایت کیلئے رسول آئے، یہ بھی ہوسکتا ہے انسان ہی رسول بنائے گئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بیکوقت جن اور انس دونوں رسول بنائے گئے ہوں، اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے جنوں کو بھی شرف نبوت سے نوازا گیا ہو مگر یہ سلسلہ آنحضرت کی بعثت کے بعد موقوف کردیا گیا ہو اس قول کی بناد دو باتوں پر ہے، اول یہ کہ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” لوکان فی الارض ملٰئکۃ یمشون مطمئنین لنزلنا علیہم من السماء ملکا رسولا “ ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اور مرسل الیہم میں یکجہتی ہونا ضروری ہے، اگر رسول اور مرسل الیہم میں مناسبت نہ ہو تو افادہ اور استفادہ دونوں دشوار ہوں گے اس اصول کے پیش نظر جنی رسولوں کو غالباً شرف نبوت و رسالت حاصل ہوا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ بات یقینی ہے کہ جنوں کی پیدائش انسانوں سے کہیں پہلے ہے اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ جنات بھی اپنے اعمال کے جواب دی ہیں اگر جن اپنے اعمال کے جواب دہ نہ ہوتے تو ارشاد ربانی لاملئن جھنم من الجنۃ والناس، نہ ہوتا۔ جمہور کا فیصلہ : جمہور کا فیصلہ یہ ہے کہ مستقل انبیاء صرف انسانوں میں ہوئے ہیں جنات میں صرف ان کے نائب اور نذیر ہوتے رہے ہیں (ابن جریر) البتہ اجماع اس قول پر بھی نہیں ہے اور جن لوگوں نے اجماع کا دعویٰ کیا ہے وہ محض دعویٰ بلا دلیل ہے کیف ینعقد الاجماع مع حصول الاختلاف۔ (کبیر)
Top