بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Al-Qalam : 1
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ
نٓ : ن وَالْقَلَمِ : قسم ہے قلم کی وَمَا يَسْطُرُوْنَ : اور قسم ہے اس کی جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں
ن قلم کی اور جو (اہل قلم) لکھتے ہیں اس کی قسم
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، ن، یہ حروف تہجی میں سے ایک ہے، اللہ تعالیٰ ہی اس سے اپنی مراد کو بہتر جانتا ہے اور قسم ہے اس قلم کی جس کے ذریعہ کائنات لوح محفوظ میں لکھی گئی، اور اس خیر و صلاح کی جس کو فرشتے لکھتے ہیں اے محمد ﷺ ! آپ ﷺ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں یعنی تیرے رب کے تیرے اوپر نبوت وغیرہ کے فضل کے سبب سے تجھ سے جنون منتقی ہے یہ ان (مشرکوں) کے ان قول کا رد ہے کہ آپ مجنون ہیں اور بیشک تیرے لئے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے اور آپ ﷺ بڑے (عمدہ خلق) دین پر ہیں اب آپ ﷺ بھی دیکھ لیں گے اور یہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کس کو جنون ہے ؟ مفتون مصدر ہے جیسا کہ معقول یعنی فتون بمعنی جنون یعنی (جنون) آپ ﷺ کو ہے یا ان کو ؟ بلاشبہ تیرا رب ان کو خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور وہ ان کو بھی بخوبی جانتا ہے جو راہ ہدایت پر ہیں اور اعلم بمعنی عالم ہے، تو آپ ﷺ ان تکذیب کرنے والوں کا کہنانہ مانتے، وہ چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو وہ بھی ڈھیلے ہوجائیں لو مصدر یہ ہے فیذھنون کا عطف تدھن پر ہے، اور اگر فیدھنون کو جواب تمنی قرار دیا جائے جو کہ ودوا سے مفہوم ہے تو یذھنون سے پہلے اور فاء کے بعد ھم مقدر مانا جائے گا، اور کسی ایسے شخص کا بھی کہنا نہ ماننا کہ جو جھوٹی بہت قسم کھانے والا بےوقار عیب گو یعنی غیبت کرنے والا چغل خور ہو یعنی لوگوں کے درمیان فساد برپا کرنے کی نیت سے ادھر کی ادھر لگانے کے لئے دوڑ دھوپ کرتا ہو، نیک کام سے روکنے والا ہو، یعنی حقوق کے معاملہ میں مال خرچ کرنے میں بخیل ہو، حد اعتدال سے گزرنے والا ظالم ہو، گناہ کا ارتکاب کرنے والا ہو، تند خو سخت مزاج ہو پھر اس کے ساتھ بےنسب بھی ہو (یعنی) قریش کے نسب میں داخل کیا گیا ہو، اور وہ ولید بن مغیرہ ہے اس کے والد نے اس کو اٹھارہ سال بعد متنبی بنایا تھا، ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ہمارے علم میں نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے علاوہ کسی کے ایسے اوصاف بیان کئے ہوں، اور اس کے ساتھ ایسے شرم (کے اوصاف) لاحق کردیئے ہوں کہ جو اس سے کبھی جدا نہ ہوں، زنیم سے اس کے ماقبل کا ظرف (یعنی ذالک) متعلق ہے (اور یہ سرکشی محض اس لئے ہے) کہ وہ مال اور اولاد والا ہے ان معنی میں لان کے ہے، اور لان اس سے متعلق ہے جس پر اذا تتلی علیہ دلالت کرتا ہے، اور وہ کذب بھا الخ ہے، جب اس کو ہماری آیتیں یعنی قرآن پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہہ دیتا ہے کہ یہ تو گزشتہ لوگوں کے قصے ہیں یعنی اس نے ہماری آیتوں کو جھٹلا دیا، ہمارے اس کے اوپر مذکورہ انعام (مال و اولاد) کی وجہ سے، اور ایک قرأت میں ان کان کے بجائے ا ان کان دو مفتوحہ ہمزوں کے ساتھ ہے ہم اس کی ناک پر عنقریب داغ لگا دیں گے یعنی عنقریب ہم اس کی ناک پر ایسی علامت لگا دیں گے کہ زندگی بھر اس کے ذریعہ اس کو عاردلائی جائے گی، چناچہ یوم بدر میں اس کی ناک پر تلوار کا زخم لگا دیا گیا، بیشک ہم نے ان اہل مکہ کو قحط اور بھوک کے ساتھ ایسے ہی آزمایا جیسا کہ ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جب کہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ وہ باغ کے پھلوں کو صبح تڑکے ضرور توڑ لیں گے، تاکہ مساکین کو ان کے پھل توڑنے کا علم نہ ہو سکے اور وہ مساکین کو پھلوں میں سے وہ حصہ نہ دیں گے جو حصہ ان کے والد ان پر صدقہ کیا کرتے تھے، مگر انہوں نے اپنی قسم میں استثناء نہیں کیا (یعنی) انشاء اللہ نہیں کہا، اور جملہ مستانفہ ہے ای شانھم لا یستثنون ذلک، پس اس باغ پر تیرے رب کی جانب سے ایک گھومنے والی (بلا) گھوم گئی، یعنی ایسی آگ کہ اس نے باغ کو راتوں رات جلا دیا، اور وہ پڑتے سوتے ہی رہے اور وہ باغ نہایت تاریک رات کے مانند ہوگیا یعنی خاک سیاہ ہوگیا، اب صبح ہوتے ہی انہوں نے ایک دوسرے کو آوازیں دیں کہ اگر تم کو پھل توڑنے ہیں تو صبح تڑکے اپنی کھیتی پر چلو، ان اغدوا، تنادوا کی تفسیر ہے (یعنی ان بمعنی ای ہے) یا ان مصدر یہ ہے ای بان اور جواب شرط (محذوف ہے) جس پر اس کا ماقبل یعنی ان اغدوا دلالت کر رہا ہے، پھر وہ چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے چلے کہ آج کے دن کوئی مسکین تمہارے پاس آنے نہ پائے یہ ما قبل کی تفسیر ہے (اور ان بمعنی ای ہے) یا ان مصدر یہ ہے اور معنی میں بان کے ہے اور وہ بزعم خویش فقراء کو نہ دینے پر خود کو قادر سمجھ کر چلے، جب انہوں نے اس باغ کو جلا ہوا سیاہ دیکھا تو کہنے لگے ہم یقینا باغ کا راستہ بھول گئے ہیں یعنی یہ ہمارا باغ نہیں ہے پھر جب ان کو معلوم ہوا تو کہنے لگے ہم تو فقراء کو پھلوں سے روکنے کی وجہ سے، پھلوں سے محروم ہوگئے، ان میں سے جو بہتر تھا اس نے کہا کہ کیا میں تم سے نہ کہتا تھا کہ تم اللہ کی طرف رجوع ہو کر اس کی پاکی بیان کیوں نہیں کرتے ؟ تو سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے فقراء سے ان کا حق روک کر ہم ہی ظالم تھے پھر وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر ملامت کرنے لگے، کہنے لگے : ہائے افسوس ! ہماری بدقسمتی یہ یقینا سرکش تھے کیا عجب کہ ہمارا رب اس سے بہتر بدلہ دے (یبدلنا) تشدیدو تخفیف کے ساتھ ہے، ہم تو اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں تاکہ وہ ہماری توبہ قبول فرمائے، اور ہمیں ہمارے بہتر باغ سے عطا فرما دے، روایت کیا گیا ہے کہ ان کو اس سے بہتر باغ بدلے میں عطا کردیا گیا، اسی طرح عذاب ہوا کرتا ہے یعنی ان لوگوں کے عذاب کے مانند اہل مکہ میں سے جنہوں نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی، اور آخرت کا عذاب اس سیب ڑھ کر ہے اگر یہ آخرت کے عذاب کو جان لیتے تو ہمارے حکم کی خلاف ورزی نہ کرتے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : سورة ن اس کا دوسرا نام سورة القلم بھی ہے۔ قولہ : احد حروف الھجاء اس عبارت کا مقصد ان لوگوں پر رد کرنا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ (ن) رحمن کا آخری حرف ہے یا نصر، ناصر، نور، کا پہلا حرف ہے۔ قولہ : وما یسطرون، ما مصدر یہ ہے یا موصولہ ما یسطرون ای بمسطورھم یعنی قسم ہے اس کی جو فرشتے لکھتے ہیں۔ قولہ : ما انت بنعمۃ ربک بمجنون یہ جواب قسم ہے اور بنعمۃ میں باء سبیہ ہے یعنی اپنے رب کے فضل کے سبب سے آپ ﷺ مجنون نہیں ہیں بنعمۃ جار مجرور سے مل کر اس فعل نفی کے متعلق ہے جس پر ما دلالت کرتا ہے ای انتفی بنعمۃ ربک عنک الجنون، بمجنون میں باء زائدہ ہے۔ (جمل) قولہ : بسبب انعامہ اس سے جس طرح اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ باء سببیہ ہے اسی طرح اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ انت، ما کا اسم اور بمجنون اس کی خبر ہے۔ قولہ : وان لک لاجرا الخ یہ اور اس کا مابعد جواب قسم پر معطوف ہے، گویا کہ مقسم علیہ دو ہیں ایک ما انت بنعمۃ ربک بمجنون اور دوسرا وان لک لاجرا غیر ممنون۔ قولہ : بابکم خبر مقدم ہے اور المنفتون مبتداء موخر ہے۔ قولہ : ھو معطوف علی تدھن یعنی فیدھنون کا عطف تدھن پر ہے اور جس طرح معطوف لو کے ماتحت ہونے کی وجہ سے متمنی ہے فیدھنون بھی متمنی ہوگا، اس طرح دو چیزیں متمنی ہوں گی مگر اس صورت میں یہ اعتراض ہوگا کہ فیدھنون جواب تمنی ہے لہٰذا منصوب ہونے کی وجہ سے اس کا نون اعرابی ساقط ہونا چاہیے، حالانکہ فیدھنون میں نون اعرابی باقی ہے ؟ جواب : یہ ہے کہ نون کے ساقط ہونے کے لئے فا کا سببیہ ہونا ضروری ہے اور یہاں فاعاطفہ ہے نہ کہ سببیہ۔ دوسرا جواب : مفسر علام نے قدر قبلہ بعد الفاء سے دیا ہے، اس جواب کا حاصل یہ ہے کہ فیدھنون کی فاء کے بعد ھم مبتداء مقدر مان لیا جائے اور یذھنون مبتداء کی خبر ہوگی، مبتداء خبر سے مل کر جملہ اسمیہ ہو کر جواب تمنی ہوگا، لہٰذا اس صورت میں حذف نون کی ضرورت نہیں ہوگی (ترویح الارواح، فتح القدیر، شوکانی) اور بعض قرأتوں میں فیدھنوا بھی ہے اس صورت میں فیدھنوا جواب تمنی ہوگا اور فاء سببیہ ہوگی جس کی وجہ سے نون اعرابی ساقط ہوگیا۔ (فتح القدیر) قولہ : ای مغتاب، ای حرف تفسیر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغتاب، عیاب کی تفسیر ہے حالانکہ مغتاب، عیاب کی تفسیر نہیں لہٰذا مفسر علام کے لئے مناسب تھا کہ ای کے بجائے او کہتے تاکہ ھماز کی دوسری تفسیر ہوجاتی۔ (صاوی) قولہ : بنعمیم یہ مشاء کے متعلق ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ شخص ادھر کی ادھر لگانے کے لئے بہت دوڑ دھوپ کرنے والا ہے۔ قولہ : غلیظ، تند خو، جاف خشک مزاج۔ قولہ : بعد ذلک یعنی مذکورہ تمام عیوب میں سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ وہ غیر ثابت النسب ہے۔ قولہ : زنیم، الزنمۃ سے ماخوذ ہے وہ چھلا جو بھیڑ بکری وغیرہ کے کان میں ڈال دیا جاتا ہے، مجاز اً اس شخص کو کہا جانے لگا جس کو نسب میں شامل کرلیا گیا ہو، حقیقت میں وہ نسب میں داخل نہ ہو، عربی میں اس کو مستحلق کہتے ہیں، ولید بن مغیرہ ایسا ہی تھا۔ قولہ : لان وھو متعلق بما دل علیہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کان ذا مال و بنین میں ان سے پہلے لام جارہ مقدر ہے اور وہ اذا تتلی علیہ آیاتنا کے مدلول سے متعلق ہے اور مدلول کذب بھا ہے جس کو مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے۔ قولہ : و فی قراءۃ ا ان دو ہمزوں کے ساتھ پہلا ہمزہ استفہام توبیخی ہے اور دوسرا ان مصدریہ کا ہے اس سے پہلے لام مقدر ہے اور معنی اکذب بھا لان ذا مال و بنین۔ قولہ : الخرطوم درندوں کی تھوتھڑی کو کہتے ہیں خاص طور پر ہاتھی اور خنزیر کی سونڈ اور تھوتھڑی کو، ولید بن مغیرہ کی ناک کو اسہزاء خرطوم کہا گیا ہے۔ قولہ : و جواب الشرط دل علیہ ما قبلہ یعنی ان کنتم شرط کا جواب شرط محذوف ہے، جس پر ما قبل یعنی ان اغدوا دلالت کر رہا ہے تقدیر عبارت یہ ہے ان کنتم صارمین اغدوا۔ تفسیر و تشریح ن والقلم و ما یسطرون نون اسی طرح حروف مقطعات میں سے ہے جیسے اس سے قبل صٓ، قٓ وغیرہ گزر چکے ہیں، اس میں قلم کی قسم کھا کر یہ بات کہی گئی ہے کہ آپ ﷺ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں، اور آپ ﷺ کے لئے ختم نہ ہونے والا اجر ہے، قلم کی اس لحاظ سے ایک اہمیت ہے کہ اس سے تبیین اور توضیح ہوتی ہے، بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ قلم سے خاص قلم مراد ہے جسے اللہ نے سب سے پہلے پیدا فرمایا، اور اسے تقدیر لکھنے کا حکم دیا، چناچہ اس نے قیامت تک ہونے والی ساری چیزیں لکھ دیں۔ (سنن ترمذی) مایسطرون میں ما مصدریہ ہے مطلب یہ کہ قلم کی قسم اور جو کچھ فرشتے لکھتے ہیں ان کے لکھنے کی قسم، مقسم بہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اس کے مناسب کسی چیز کی قسم کھائی جاتی ہے اور وہ قسم مضمون پر ایک شہادت ہوتی ہے، یہاں مایسطرون سے دنیا کی تاریخ میں جو کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے اس کو بطور شہادت پیش کیا جا رہا ہے کہ دنیا کی تاریخ کو دیکھو، ایسے اعلیٰ اخلاق و اعمال والے کہیں مجنون ہوتے ہیں ؟ وہ تو دوسروں کی عقل درست کرنے والے ہوتے ہیں نہ کہ خود مجنون۔
Top