بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Al-Anfaal : 1
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ١ؕ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ١۪ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَنْفَالِ : غنیمت قُلِ : کہ دیں الْاَنْفَالُ : غنیمت لِلّٰهِ : اللہ کیلئے وَالرَّسُوْلِ : اور رسول فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَصْلِحُوْا : اور درست کرو ذَاتَ : اپنے تئیں بَيْنِكُمْ : آپس میں وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗٓ : اور اس کا رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
(اے محمد ﷺ ! مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ کیا حکم ہے) کہہ دو کہ غنیمت خدا اور اس کے رسول کا مال ہے۔ تو خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو۔ اور اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو۔
آیت نمبر 1 تا 10 ترجمہ : میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے جب بدر کے مال غنیمت (کی تقسیم) کے بارے میں مسلمانوں میں اختلاف ہوا، تو جوانوں نے کہا یہ ہمارا حق ہے اسلئے کہ ہم نے براہ راست قتال کیا ہے اور بوڑھوں نے کہا پرچموں کے تحت ہم تمہارے مدگار تھے اگر (خدانخواستہ) تم کو شکست ہوجاتی تو تم ہمارے پاس پلٹ کر آتے لہٰذا تم مال غنیمت کے بارے میں ترجع کا دعوانہ کرو، اے محمد ﷺ لوگ آپ سے مال غنیمت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اس کا کون مستحق ہے آپ ان سے کہہ دو مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کا ہے وہ جس کو چاہیں دیں چناچہ آپ ﷺ نے اس مال غنیمت کو جوانوں اور بوڑھوں کے درمیان مساوی طریقہ پر تقسیم کردیا، اس کو حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے، تم لوگ اللہ سے ڈرو اور آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم سچے مومن ہو کامل اہل ایمان تو وہی لوگ ہیں جب ان کے سامنے اللہ کی وعید ذکر کی جاتی ہے تو ان کے دل خوف سے لرز جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان کی تصدیق میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب ہی پر توکل کرتے ہیں، یعنی اسی پر اعتماد کرتے ہیں نہ کہ اس کے علاوہ کسی اور پر جو نماز قائم کرتے ہیں یعنی نماز کو اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرتے ہیں، اور جو (مال) ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں سے اللہ کی اطاعت میں خرچ کرتے ہیں ایسے ہی لوگ جو مذکورہ صفات کے ساتھ متصف ہیں بلا شک سچے مومن ہیں ان کے لئے جنت میں ان کے رب کے پاس بڑے رتبے ہیں اور مغفرت ہے اور جنت میں بہترین رزق ہے (مال غنیمت کے بارے میں جو اختلاف ہے وہ ایسا ہی ہے) جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کو گھر (مدینہ) سے حق کے ساتھ نکالا (بالحق) اَخْرجَ کے مستحق ہے، اور واقعہ ہے کہ مومنین کی ایک جماعت اس نکلنے کو گراں سمجھ رہی تھی جملہ اَخْرَجَ کی ضمیر کاف سے حال ہے، اور کَمَا، ھذہ مبتداء محذوف کی خبر ہے، یعنی مال غنیمت کے معاملہ کی موجودہ حالت کراہت میں ویسی ہے جیسی کہ آپ کے (مدینہ) سے نکالنے کی حالت، اور جس طرح اس (نکلنے) میں ان کے لئے خیر تھی اسی طرح اس میں بھی خیر ہے، اور ان کا یہ (مدینہ سے) نکلنا اس وقت ہوا کہ جب ابو سفیان تجارتی قافلہ لیکر شام سے نکلا، تو آپ ﷺ اور آپ کے اصحاب اس (قافلہ) کا مال غنیمت لینے کے لئے نکلے، اس (کارروائی) کا علم قریش کو ہوگیا، تو ابو جہل اور مکہ کے جنگ باز نکلے تاکہ قافلہ کا دفاع کریں اور یہ جنگی لشکر تھا، اور ابوسفیان تجارتی قافلے کو ساحل کے راستہ سے نکال لے گیا چناچہ وہ (تجارتی قافلہ) بچ کر نکل گیا، ابو جہل سے کہا گیا کہ واپس چلو مگر اس نے انکار کردیا، اور بدر کی طرف روانہ ہوا، ادھر آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ سے مشورہ کیا اور آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا ہے لہٰذا اکثر جنگی لشکر سے مقابلہ کرنے کے لئے متفق ہوگئے، اور کچھ لوگوں نے اس رائے کو ناپسند کیا، اور عذر یہ پیش کیا کہ ہم نے اس کے لئے تیاری نہیں کی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آپ سے یہ لوگ حق یعنی قتال، کے بارے میں جھگڑتے ہیں بعد اس کے اس کا حق ہونا ان پر ظاہر ہوگیا گویا کہ وہ موت کی طرف کھینچ کرلے جائے جارہے ہیں حال یہ کہ وہ موت کو کھلی آنکھوں سء دیکھ رہے ہیں ان کے قتال کو ناپسند کرنے کی وجہ سے، اور اس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ تم سے دو جماعتوں میں عیر و نفیر (تجارتی قافلہ اور جنگی لشکر) سے ایک کا وعدہ کررہا تھا کہ ان میں سے ایک جماعت تمہارے ہاتھ لگے گی، اور تم یہ چاہتے تھے کہ کمزور جماعت تم کو ملے، ان کے تعداد اور ہتھیاروں میں کم ہونے کی وجہ سے یعنی بغیر قوت اور بغیر ہتھیار والی جماعت اور وہ تجارتی قافلہ تھا، بخلاف جنگی لشکر کے، مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنی سابقہ باتوں کے ذریعہ حق کو ظاہر کردے اسلام کو غلبہ دے کر اور کافروں کی جڑ بالکل کاٹ سے لہٰذا تم کو جنگی لشکر سے قتال کا حکم دیا تاکہ وہ حق کو محقق کرے اور باطل کفر کو مٹا دے اگرچہ مشرک اس کو ناپسند کریں اور اس وقت کو یاد کرو کب تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے یعنی اللہ سے مشرکین پر نصرت طلب کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے تم کو جواب دیا کہ میں مسلسل ایک ہزار فرشتوں سے مدد کردوں گا، جو مسلسل چلے آرہے ہوں گے، اولاً ان سے ہزار کا وعدہ کیا، پھر تین اور پھر پانچ ہزار ہوگئے جیسا کہ آل عمران میں ہے، اور (اَلْف) کو آلف پڑھا گیا ہے جیسا کہ فَلْس کی جمع اَفْلُس ہے، اور اس امداد کی اللہ تعالیٰ نے خوشخبری کے طور پر خبر دی اور تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے یقینا اللہ زبردست اور دانا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : سُوْرَةُ الْاَنفال بترکیب اضافی مبتداء ہے اس کی دو خبر ہیں اول مَدْنیّة اور دوسری خَمْس الخ، مبتداء خبر سے مل کر مستثی منہ اور اِلاَّ حرف استثنیٰ ویمکربک مستثنیٰ ، اور اَوْ بیان اختلاف کے لئے ہے، اگرچہ سورت کے عنوان میں سات آیتوں کو مکی کہا گیا ہے مگر صحیح بات یہ ہے کہ پوری سورت مدنی ہے۔ قولہ : عَنِ الاَنْفَالِ ، اَنْفَال نَفَل بروزن سَبَب کی جمع ہے بمعنی زائد، اور سکون فا کے ساتھ بھی کہا گیا ہے اس کے معنی بھی زائد کے ہیں، مال غنیمت چونکہ سابقہ امتوں کے لئے حلال نہیں تھا صرف اسی امت کے لئے بطور خصوصیت حلال کیا گیا ہے اس لئے نفل سے تعبیر کیا گیا ، سوال : یسئلونکَ عن الانفال، میں یسئلونک کا صلہ عَنْ لایا گیا ہے حالانکہ یہ فعل متعدی بنفسہ ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے سألتُ زیداً مالاً. جواب : اگر سوال تعیین و توضیح کے لئے ہو تو سوال متعدی عَنْ کے ساتھ ہوگا اور اگر بمعنی طلب ہوگا تو متعدی بنفسہ ہوگا، جو لوگ یہاں سوال کو طلب کے لئے مانتے ہیں وہ عن کو زائدہ قرار دیتے ہیں۔ قولہ : لَوِ انْکَشَفْتُمْ ، ای انھز مْتم وانتشرتم، اگر تم شکست کھاتے اور منتشر ہوتے۔ قولہ : فلا تَسْتَاثِرُوا، ای فلا تختاروا، یعنی تمہاری بیان کردہ دلیل کی وجہ سے تم کر ترجع نہیں دی جاسکتی، ایثار کے معنی ہیں ترجع دینا ، مال غنیمت کو نفل کہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ جہاد کا اصل مقصد اعلاء کلمتہ اللہ ہے، اور حصول مال شئی زائد ہے۔ قولہ : لِمَنْ ھِیَ اس میں اشارہ ہے مال غنیمت کا حکم معلوم کرنا مقصود ہے نہ کہ اس کی ذات اسلئے کہ ذات سب کو معلوم ہے۔ قولہ : ای حَقِیْقَةَ مَا بَیْنَکُمْ ، یہ ذات بینکم کی تفسیر ہے اس میں یہ بتایا گیا ہے ذات بمعنی حقیقت ہے اور بین بمعنی وصل ہے، اور لغت کے مطابق ہے، بخلاف اس کے کہ جنہوں نے حال یا حالت لیا ہے اسلئے کہ یہ معنی لغت اور استعمال دونوں کے خلاف ہیں، حاصل معنی یہ ہیں کونوا مجتمعین علی امر اللہ ورسولہ بالمؤ اساة والمسا عدة فیما رزقکم اللہ . قولہ : الکَامِلُوْنَ اس قید کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : اللہ تعالیٰ نے اِنَّما کلمہ حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ مومن وہی ہے کہ جن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے قلوب خوف خدا سے لرز اٹھیں، تو ایسے افراد تو بہت کم ہوں گے۔ جواب : یہ مومن کامل کی صفت ہے نہ کہ مطلق مومن کی۔ قولہ : تصدیقًا، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ آپ کا مسلک ہے کہ ایمان میں کمی زیادتی نہیں ہوتی حالانکہ زادتھم ایمانا، سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہاں ایمان سے مراد تصدیق وطمانینت قلب ہے اور اس میں کمی زیادتی ہوتی ہے۔ قولہ : بہ یَثِقُوْنَ لا بِغَیْرِہ اس اضافہ کا مقصد تقدیم متعلق کے قاعدہ کو بیان کرنا ہے جو کہ حصر ہے یعنی تجھ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں نہ کسی غیر پر۔ قولہ : الخُرُؤجَ ، ای خروجک وخروجَھُمْ ، یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے سوال یہ ہے کہ حال جملہ ہوتا ہے تو اس میں عائد کا ہونا ضروری ہوتا ہے حالانکہ یہاں کوئی عائد نہیں ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ تقدیر عبارت خروجک وخروجھم ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔ قولہ : کما، خبر مبتداء محذوف الخ اس جملہ کا مقصد دونوں جملوں میں مشابہت کو بیان کرنا ہے یعنی مال غنیمت کی تقسیم پر ناپسندیدگی کا اظہار ویسا ہی ہے جیسا کہ خروج الی النفیر (لشکر) کی طرف نکلنا ناپسندیدہ تھا، حالانکہ جس طرح ان کے حق میں خروج بہتر تھا اسی طرح مال غنیمت کی تقسیم میں بھی خیر ہے۔ قولہ : عُدَدُھا، ای اسبابُھا . قولہ : بالفٍ یعنی اَلْف کے ساتھ یعنی الف بھی پڑھا گیا الف پر مد اور لام پر ضمہ بروزن اَفْلُس، یعنی جس طرح فَلْس کی جمع اَفْلُس آتی ہے اسی طرح اَلْف کی جمع الف آتی ہے، الُف کی اصل أألُف تھی دوسرے ہمزاد کو الف سے بدل دیا الف ہوگیا۔ تفسیر وتشریح سورت کے مضامین : یہ پوری سورت تحقیقی قول کے مطابق مدنی ہے اگرچہ اس میں سات آیتیں اس واقعہ سے متعلق ہیں جو مکہ میں پیش آیا تھا مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مکی واقعہ کے متعلق آیات کا نزول بھی مکہ ہی میں ہو یہ ہوسکتا ہے کہ مکی واقعہ کی یاد دہانی کے لئے اس واقعہ سے متعلق آیات کا نزول مدینہ میں ہو، جن آیات سبع کو مکی کہا گیا ہے ان میں کی آخری آیت '' بما کنتم تکفرون '' ہے۔ ربط آیات : اس سے پہلی سورت یعنی سورة اعراف میں مشرکین اور اہل کتاب کے جہل وعناد اور کفر و فساد کا تذکرہ اور اس کے متعلق مباحث کا بیان تھا، اس سورت میں زیادہ تر مضامین غزوہ بدر کے موقع پر انھیں لوگوں کے انجام بد، ناکامی، اور ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کی کامیابی کے متعلق ہیں جو مسلمانوں کے لئے احسان و انعام اور کافروں کے لئے عذاب و انتقام تھا، اور چونکہ اس انعام کا بڑا سبب مسلمانوں کا خلوص اور لِلّٰہیت اور باہمی اتفاق تھا، اور یہ اخلاق و اتفاق نتیجہ ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت کا اسی لئے سورت کی ابتداء میں تقویٰ اور اطاعت حق اور ذکر اللہ اور توکل وغیرہ کی تعلیم دی گئی ہے۔ معلوم ہو کہ آیت میں تین باتوں پر عمل کے بغیر ایمان مکمل نہیں، اس سے تقویٰ ، اصلاح ذات البین اور اللہ اور رسول کی اطاعت کی اہمیت واضح ہے، خاص طور پر مال غنیمت کی تقسیم میں اب تینوں امور میں عمل نہایت ضروری ہے، اسلئے کہ مال کی تقسیم میں باہمی نزاع کا شدید اندیشہ رہتا ہے اس کی اصلاح کے لئے اصلاح ذات البین پر زور دیا اور چونکہ ہیرا پھیری کا امکان رہتا ہے اسلئے تقوے کا حکم دیا، اس کے باوجود کوئی کوتاہی ہوجائے تو اس کا حل اللہ اور اس کی اطاعت میں مضمر ہے۔
Top