Tafseer-e-Jalalain - Al-Anfaal : 68
لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
لَوْ : اگر لَا : نہ كِتٰبٌ : لکھا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے سَبَقَ : پہلے ہی لَمَسَّكُمْ : تمہیں پہنچتا فِيْمَآ : اس میں جو اَخَذْتُمْ : تم نے لیا عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اگر خدا کا حکم پہلے نہ ہوچکا ہوتا تو جو (فدیہ) تم نے لیا ہے اس کے بدلے تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔
لَوْلا کتاب مِن اللہ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ (الآیة) لولا کتاب من اللہ سبق (یعنی نوشتہ الہی) سے مراد کیا ہے ؟ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، صاحب روح المعانی نے اس کے چار معنی لکھے ہیں۔ (1) ان لا یعذب قوما قبل تقدیم ما یُبَیّنِ لھم امرًا او نھیًا، یعنی اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اسکے اوا مرونوا ہی کے احکام واضح کرنے سے پہلے عذاب نہیں دیں گے یعنی یہ بات لوح محفوظ پر لکھی ہیں۔ (2) او مخْطی فی مثل ھذا الا جتھاد، یعنی لوح محفوظ میں یہ بات بھی لکھی ہوئی ہے کہ اجتہادی مسائل میں مخطی (خطا کرنے والے) سے مؤاخذہ نہیں ہوگا جیسا کہ غزوہ کے مال غنیمت کے بارے میں اجتہادی غلطی ہوئی۔ (3) اس جماعت (قوم) کو (عمومی) عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائیگا جس میں آنحضرت ﷺ ہوں گے یہ بات لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے '' ان لا یعذبھم و رسول اللہ ﷺ فیھم ''. (4) اہل بدر کو عذاب نہیں دیا جوئیگا، ان لا یعذب اھل بدر ؓ عنھم قدروی الشیخان وغیر ھما، کما فی قصیة حاطب بن ابی بلتعہ وکان قد شھِدَ بدرًا . (5) وقیل ھو اَنَّ الفدیة الَّتی اخذو ھا ستصیر حلالاً لَھُم، یعنی لوح محفوظ میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ قیدیوں کا فدیہ لینا تمہارے لئے عنقریب حلال کردیا جوئیگا، واعترض بأن ھذا لا یصلح أن یعد من موانع مساس العذاب فانَّ الحِلّ اللاحق لا یرفع حکم الحرمة السابقة کما ان الحرمة اللاحقة، فی الخمر مثلاً لا یرفع حکم الا با حْةِ السابقةِ ، کما یدل علیہ قولہ سجانہ '' لَمَسَّکُمْ فیما اَخَذْتم عذاب عظیم ''.(روح المعانی ص 50 سورة الانفال) نمبر پانچ کی تاویل جس کو صاحب روح المعانی نے اخیز میں اور قیل سے بیان کیا ہے جو ضعف کی طرف مشیر یے، اکثر مفسرین نے مذکورہ آیت کی جو تاویل و تفسیر حضرت ابن عباس کی روایت کی بنا پر کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جنگ بدر میں قریشی لشکر کے جو لوگ گرفتار ہوئے تھے ان کے بارے میں بعد میں مشورہ ہوا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ حضرت ابوبکر ؓ اور دیگر بہت سے صحابہ ؓ کی رائے یہ تھی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے اور حضرت عمر اور سعد بن معاذ ؓ کی رائے یہ تھی کہ قتل کردیا جائے، نتیجہ یہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کی رائے کو پسند فرماکر فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں بطور عتاب نازل فرمائیں مگر یہ بات حل طلب رہ جاتی ہے کہ اس آیت کی تاویل کی صورت کیا ہوگی لولا کتٰب من اللہ سَبَقَ ، یعنی نوشتہ الہٰی اگر پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا '' کا کیا مطلب ہوگا ؟ روح المعانی نے اس جملہ کے پانچ مطلب بیان کئے ہیں کسی نے کہا کہ اس سے مراد تقدیر الہٰی ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ ارادہ کرچکا تھا کہ مسلمانوں کے لئے یہ غنائم حلال کردے گا۔ اس پر صاحب روح المعانی تحریر فرماتے ہیں '' واعترض بان ھذا لا یصلح ان یعد من موانع مساس العذاب الخ '' یعنی آئندہ حلال کا ارادہ فرمانا نزول عذاب کے لئے مانع نہیں ہوسکتا اسلئے کہ حل لا حق حرمت سابقہ کے حکم کو مرتفع نہیں کرسکتا (یعنی) ہونے والی بیوی (منگیتر) قبل از نکاح اسلئے حلال نہیں ہوسکتی کہ وہ آئندہ بیوی ہونے والی ہے، اور یہ ایسا ہی ہے کہ جیسا حرمت لاحقہ ( آئندہ حرام ہونے والی) اباحة سابقہ کو مرتفع نہیں کرسکتی یعنی شراب چونکہ حرام ہونے والی ہے لہٰذا حرمت کا حکم نازل ہونے سے پہلے اس کی اباحت ختم ہوجائے ایسا نہیں ہوتا، خلاصہ یہ ہے کہ آئندہ حلال ہونے والی شئی کا قبل الحلت استعمال موجب عذاب نہیں ہوسکتا جیسا کہ حرمت سے پہلے جن لوگوں نے شراب پی اس وجہ سے کہ شراب آئندہ حرام ہونے والی ہے مستحق عقاب نہیں ہوں گے صاحب روح المعانی نے اس اشکال کے چند جوابات لکھے ہیں جو تکلف سے خالی نہیں ہیں، مشہور تاویل کے مطابق صحابہ کرام کا ایسی چیز کو لینا لازم آتا ہے جس کی حلت کے لئے ابھی تشریعی حکم نہیں آیا اس تاویل کو اختیار کرنے کیلئے سب سے بڑی وجہ حضرت ابن عباس ؓ کی صحیح روایت ہے مگر خبرواحد ہے۔ لولا کتاب مِنَ اللہ سبق، کی ایک دوسری تاویل جس کی رو سے مندرجہ بالا قباحت لازم نہیں آتی، وہ یہ ہے کہ جنگ بدر سے پہلے سورة محمد میں جنگ کے متعلق جو ابتدائی ہدایات دی گئی تھیں ان میں فرمایا گیا تھا '' فاِذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب حتی اذا اثخنتموھم فشدوا الوثاق فاِمّا منّا بعد وَامّا فداء حتی تضع الحرب اوزارھا . (آیت ا 4) اس ارشاد میں جنگی قیدیوں سے فدیہ لینے کی اجازت تو دیدی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگائی گئی تھی کہ پہلے دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچل دیا جائے پھر دشمن کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے اس فرمان کی رو سے مسلمانوں کے بدر میں جو لوگ گرفتار کئے اور اس کے بعد ان سے جو فدیہ وصول کیا وہ تھا تو اجازت کے مطابق، مگر غلطی یہ ہوئی کہ دشمن کی طاقت کو کچل دینے کی جو شرط مقدم رکھی گئی تھی اسے پورا کرنے میں کوتاہی کی گئی، جب قریش کی فوج بھاگ نکلی تو مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑنے میں لگ گیا اور بہت کم آدمیوں نے دشمن کا کچھ دور تک تعاقب کیا حالانکہ اگر مسلمان پوری طاقت سے ان کا تعاقب کرتے تو قریش کی طاقت کا اسی روز خاتمہ ہوگیا ہوتا، اسی پر اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا اور یہ عتاب نبی ﷺ پر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں پر ہے، گویا کہ اس میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ تم لوگ ابھی نبی کی منشاء اچھی طرح نہیں سمجھے ہو، نبی کا اصل کام یہ نہیں کہ فدیئے اور غنائم وصول کرکے خزانے بھرے بلکہ اس کے نصب العین سے جو چیز براہ راست تعلق رکھتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ کفر کی طاقت ٹوٹ جائے مگر تم لوگوں پر بار بار دنیا کا لالچ غالب ہوجاتا ہے، پہلے دشمن کی اصل طاقت یعنی لشکر پر حملہ کرنے کے بجائے قافلہ پر حملہ کرنا چاہا، پھر دشمن کا سر کچلنے کے بجائے مال غنیمت لوٹنے میں اور قیدی پکڑنے میں لگے گئے، پھر غنیمت کی تقسیم پر جھگڑنے لگے، اگر پہلے فدیہ وصول کرنے کی اجازت نہ دے چکے ہوتے تو اس پر تمہیں سخت سزا دیتے، خیر اب جو کچھ تم نے کیا ہے وہ کھالو مگر آئندہ ایسی روش سے بچتے رہو جو خدا کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ ترمذی، نسائی وغیرہ کے حوالہ سے حضرت علی ؓ سے بھی اس حدیث کی تا ئید ہوتی ہے، کہ جب صحابہ کرام کا بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کا ارادہ مضبوط ہوگیا تو حضرت جبرئیل علیہ الصلوٰة والسلام آئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام سنایا کہ اگر ان ستر قیدیوں سے فدیہ لیا جا ئیگا تو اسلام کی پہلی لڑائی میں یہ فدیہ اللہ کی مرضی کے موافق نہیں ہے اسلئے اس فدیہ کا معاوضہ یہ ہوگا کہ آئندہ لڑائی میں لشکر اسلام کے ستر شہید ہوں گے چناچہ تیرہ مہینے بعد احد کی لڑائی میں اس کا ظہور ہوا کہ اس لڑائی میں لشکر اسلام کے ستر آدمی شہید ہوئے۔
Top