Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 110
وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
وَمَنْ : اور جو يَّعْمَلْ : کام کرے سُوْٓءًا : برا کام اَوْ يَظْلِمْ : یا ظلم کرے نَفْسَهٗ : اپنی جان ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ : پھر بخشش چاہے اللّٰهَ : اللہ يَجِدِ : وہ پائے گا اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرلے پھر خدا سے بخشش مانگے تو خدا کو بخشنے والا اور مہربان پائے گا
ومن یعمل سوءا جو شخص کوئی بدی کرے یعنی ایسا برا کام کرے جس سے دوسرے کو تکلیف ہو۔ (1) [ ابن راہویہ نے مسند میں لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا جب آیت مَنْ یَّعْمَلْ سُوْءً ا یُّجَزْبِہٖ وَلاَ یَجِدْلَہٗ مِنْ دُْون اللّٰہِ وَلِیًّا وَّلاَ نَصِیْرًا نازل ہوئی تو (غم کے مارے) ہمارے کھانے پینے کا فائدہ جاتا رہا ‘ آخر آیت وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءً ا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہِ غَفُوْرًا رَحِیْمًانازل ہوئی۔ متعدد طریقوں سے حضرت علی ؓ کی روایت سے حضرت ابوبکر ؓ کا بیان آیا ہے کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے جس شخص نے کوئی گناہ کرلیا ہو پھر اٹھ کر اچھی طرح وضو کر کے نماز پڑھنے کھڑا ہوجائے اور گناہ کی بخشش کا خواستگار ہو تو اللہ ضرور ہی معاف فرما دیتا ہے کیونکہ اس نے خود فرمایا ہے وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْءً ا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہِ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًارواہ ابن ابی حاتم و ابن السنی وابن مردویہ۔] او یظلم نفسہ یا اپنے اوپر ظلم کرے۔ یعنی ایسی برائی جس سے دوسرے کو ضرر نہ پہنچتا ہو صرف اپنے کو نقصان پہنچتا ہو۔ بعض علماء نے کہا سوء سے مراد ہے وہ گناہ جو شرک سے کم درجہ کا ہو اور ظلم سے مراد ہے شرک یا اوّل سے مراد ہے صغیرہ گناہ اور ظلم سے مراد ہے کبیرہ۔ ثم یستغفر اللہ پھر اللہ سے معافی کا طلب گار ہو یعنی اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے اور لوگوں کے حقوق لوٹا دے۔ یجد اللہ غفورا وہ اللہ کو گناہ بخشنے والا۔ رحیما . اور مہربان پائے گا۔ اس آیت میں ابن ابیرق اور اس کی قوم والوں کو توبہ و استغفار کی ترغیب ہے۔
Top