Tafseer-e-Jalalain - At-Tawba : 25
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ١ۙ وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ١ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ
لَقَدْ : البتہ نَصَرَكُمُ : تمہاری مدد کی اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں مَوَاطِنَ : میدان (جمع) كَثِيْرَةٍ : بہت سے وَّ : اور يَوْمَ حُنَيْنٍ : حنین کے دن اِذْ : جب اَعْجَبَتْكُمْ : تم خوش ہوئے (اترا گئے كَثْرَتُكُمْ : اپنی کثرت فَلَمْ تُغْنِ : تو نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں شَيْئًا : کچھ وَّضَاقَتْ : اور تنگ ہوگئی عَلَيْكُمُ : تم پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : فراخی کے باوجود ثُمَّ : پھر وَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے مُّدْبِرِيْنَ : پیٹھ دے کر
خدا نے بہت سے موقعوں پر تم کو مدد دی ہے۔ اور (جنگ) حنین کے دن جبکہ تم کو اپنی (جماعت کی) کثرت پر غرہّ تھا تو وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی۔ اور زمین باوجود (اتنی بڑی) فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی۔ پھر تم پیٹھ پھیر کر پھرگئے۔
آیت نمبر 25 تا 29 ترجمہ : بیشک اللہ تعالیٰ نے لڑائی کے بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کی ہے مثلاً بدرو (بنو) قریظہ اور (بنو) نضیر (کے مقابلہ میں) اور حنین کے دن کو یاد کرو، یہ مکہ اور طائف کے درمیان وادی ہے، یعنی اس دن میں ہوازن کے ساتھ جنگ کو یاد کرو، اور یہ شوال 8 ھ میں پیش آئی جبکہ تم کو تمہاری کثرت پر نازہو گیا تھا سو تم نے کہا تھا کہ آج ہم قلت کی وجہ سے مغلوب نہ ہوں گے، اور (مسلمانوں کی تعداد) بارہ ہزار تھی اور کفار چار ہزار تھے، اِذْ یَوْمَ سے بدل ہے، لیکن اس (کثرت نے تمہیں کوئی فائدہ نہ دیا، اور زمین اپنی کشادگی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، ما، مصدریہ ہے یعنی اپنی وسعت کے باوجود، تم کو کوئی ایسی جگہ نہ ملی کہ تم اس میں اس شدید خوف کی وجہ سے جو تم کو لاحق ہوگیا تھا پناہ لے سکو، پھر تم شکست خوردہ ہو کر پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے، اور نبی ﷺ اپنے سفید خچر پر اپنی جگہ جمے رہے حالانکہ آپ ﷺ کے ساتھ سوائے عباس ؓ کے اور ابو سفیان ؓ کے جو آپ ﷺ کے خچر کی رکاب تھامے ہوئے تھے کوئی باقی نہیں رہا تھا اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر سکینت (تسلی) نازل فرمائی چناچہ جب حضرت عباس ؓ نے آپ کے کہنے سے تم لوگوں کو آواز دی تو تم نبی ﷺ کی طرف لوٹ آئے اور (مشرکین سے) قتال کیا اور فرشتوں کا وہ لشکر نازل فرمایا جو تم کو نظر نہیں آرہا تھا اور (اللہ نے) کافروں کو قتل و قید کی سزا دی اور یہی کافروں کی سزا ہے، پھر اس کے بعد ان میں سے اللہ جس کو چاہے اسلام کی توفیق دے کر توبہ نصیب کر دے اللہ بڑا مغفرت والا رحم والا ہے، اے ایمان والوں مشرکین اپنی خبث باطن کی وجہ سے سراپا نجس ہیں لہٰذا اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ پھٹکیں یعنی مسجد حرام میں داخل نہ ہوں اور 9 ھ میں یہ حکم نازل ہوا، اور اگر تم کو ان کے ساتھ تجارت منقطع ہوجانے کی وجہ سے فقر کا اندیشہ ہو سو اگر اللہ چاہے گا تو اپنے فضل سے تم کو ان سے عنقریب بےنیاز کر دے گا، چناچہ (اللہ نے) مسلمانوں کو فتح اور جزیہ کے ذریعہ بےنیاز کردیا، اللہ خوب جاننے والا بڑا حکمت والا ہے، ان لوگوں سے قتال کرو جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اگر وہ (اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے) تو نبی ﷺ پر ایمان لے آتے اور نہ اس چیز کو حرام سمجھتے ہیں جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے مثلاً شراب (نوشی) اور نہ سچے دین کو قبول کرتے ہیں جو کہ دائمی اور دیگر ادیان کے لئے ناسخ ہے اور وہ اسلام ہے اور وہ اہل کتاب یہودونصاریٰ ہیں مِنْ ، بیانیہ ہے، اَلّذین کا بیان ہے، تا آں کہ وہ عائد کردہ سالانہ ٹیکس (جزیہ) تابع ہو کر بدست خود بغیر کسی کو سپرد کئے ادا کریں حال یہ کہ وہ ذلیل ہوں (یعنی) اسلام کے حکم کے تابع ہوں۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : مَوَاطِنَ ، مَوْطِن کی جمع ہے بمعنی موقع، مقامات، مفسر علام نے للحرب کا اضافہ کر کے اشارہ کردیا کہ موطن سے مراد جائے سکونت نہیں ہے بلکہ میدان حرب ہے، قولہ : اذکر، مفسر علام نے اذکر فعل محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ یَوْمَ فعل محذوف کا مفعول ہے نہ کہ مواطن پر عطف جیسا کہ کہا گیا ہے اس لئے کہ یَوْمَ حُنَیْن ظرف زمان ہے اور مَوَاطِنَ ظرف مکان ہے اور زمان کا عطف مکان پر درست نہیں ہے دوسری وجہ یہ کہ اِذْ اعجبتکم، یَوْمَ حنین سے بدل ہے اگر یَوْمَ حُنَیْنٍ کا عطف مواطن پر کیا جائے تو اِذْ اَعْجَبَتْکم کو بھی مواطن سے بدل ماننا ہوگا اور یہ باطل ہے اس لئے کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام مواقع پر عجب ہوا تھا۔ قولہ : ھوازن، تیر اندازی میں مشہور ایک قبیلہ کا نام ہے جو کہ حلیمہ سعدیہ کا قبیلہ ہے۔ قولہ : حُنَیْن مکہ اور طائف کے درمیان۔ مکہ سے اٹھارہ میل کے فاصلہ پر ایک وادی کا نام ہے۔ قولہ : بما رَحُبَتْ ، رُحبة بضم الراء، بمعنی کشادگی وسعت، اور رَحبة بالفتح کشادہ مکان، اور باء بمعنی مع '' مَا '' مصدریہ ہے لہٰذا عدم عائد کا اعتراض نہیں ہوگا۔ قولہ : فَلَمْ تَجِدُوا مکاناً اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ ضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین اپنی کشادگی کے باوجود تنگ ہوگئی حالانکہ زمین اپنی حالت پر باقی تھی۔ جواب : یہ ہے کہ زمین کی تنگی سے مراد عجازاً عدم وجود المکان المطمئن ہے۔ قولہ : لخُبث باطِنِھم یہ ایک سوال کا مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ نَجَس مصدر ہے اور مصدر کا حمل ذات پر درست نہیں ہے۔ جواب : کا حاصل یہ ہے کہ نَجَس سے مراد ذونجس ہے یا بطور مبالغہ حمل ہے بیان نجاست میں مبالغہ کرنے کے لئے، گویا کہ مشرک عین نجاست ہیں۔ دوسرا سوال : یہ ہے کہ المشرکون جمع ہے اور نجس مفرد ہے جس کی وجہ سے مبتداء خبر میں مطابقت نہیں ہے۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ نجس مصدر ہونے کی وجہ سے واحد تثنیہ اور جمع سب پر بولا جاتا ہے یقال رَجُل نجس رجلان نجس، رجال نجس، بعض ظاہر یہ اور زید یہ مشرک کو نجس العین مانتے ہیں۔ قولہ : عَیْلَة، الفقر، یہ عَالَ یَعیلُ (ض) کا مصدر ہے محتاج ہونا۔ قولہ : واِلاّ لامنوا بالنبی ﷺ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤمِنُوْنَ بِا اللہ وَلاَ بِا لْیَوْمِ الاٰخِرِ اس سے اہل کتاب سے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرة کی نفی کی گئی ہے حالانکہ یہ دونوں فرقے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ جواب : کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر یہ لوگ صحیح معنی میں اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے تو محمد ﷺ پر ضرور ایمان لاتے جب آپ ﷺ پر ایمان نہیں لائے تو ان کا ایمان اللہ اور یوم آخرت پر بھی نہیں ہے۔ قولہ : دین الحق ای الدین الحق اس میں اضافت الموصوف الی الصفت ہے۔ قولہ : عَنْ یَّدٍ حال، یُعْطُوْا کی ضمیر سے حال ہے، یَد کی تفسیر منقادین سے تفسیر باللاَّ زم ہے کہا جاتا ہے اعطی فلان بیدہ ای اَسْلَمَ وانقاد۔ قولہ : بایدیکم، اس میں اشارہ ہے کہ عن ید میں عن بمعنی باء ہے اور یہ عن ید کی دوسری تفسیر ہے۔ قولہ : یُوکَّلُونَ یہ توکیل سے مضارع جمع مذکر غائب ہے بمعنی سپرد کرنا وکیل بنانا۔ قولہ : وَھم صاغرون اس حال میں کہ وہ اپنی زیر دستی کا احساس رکھتے ہوں، الصاغر الراضی بالمنزلة الدنیة (راغب) امام شافعی (رح) تعالیٰ نے فرمایا ہے صغار قانون اسلام کی بالا دستی قبول کرنا ہے۔ تفسیر وتشریح لَقَدْ نَصَرَ کُمُ اللہ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَةٍ اس سے پہلے سورت انفال میں فتح مکہ اور اسکے متعلقات کا ذکر تھا، اس سورت میں غزوہ حنین کے واقعات، شکست وفتح کا اور ان کے ضمن میں بہت سے اصولی اور فروعی مسائل اور فوائد کا بیان ہے اس رکوع کی پہلی آیت میں حق تعالیٰ نے اپنے انعام و احسان کا ذکر فرمایا ہے عمومی احسان کا ذکر فرمانے کے بعد خصوصی انعام و احسان کے طور پر غزوہ حنین میں اپنی نصرت کا ذکر فرمایا، مسلمان اس سے پہلے بار بار نصرت غیبی اور تائید ایزدی کا مشاہدہ کا مشاہدہ کرچکے تھے جن کی تعداد علماء تاریخ و سیرت اسّی تک گناتے ہیں۔ غزوہ حنین کو خاص طور پر ذکر کرنے کی وجہ : غزوہ حنین کو خصوصیت کے ساتھ اس وجہ سے ذکر فرمایا کہ اس میں بہت سے واقعات اور حالات خلاف توقع عجیب انداز سے ظاہر ہوئے جن میں غور کرنے سے انسان کے ایمان میں قوت اور عمل میں ہمت پیدا ہوتی ہے۔ غزوہ حنین کا تفصیلی ذکر : حنین مکہ مکرمہ اور طائق کے درمیان مکہ سے اٹھارہ میل سے زیادہ فاصلہ پر واقع ہے لیکن ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے حال ہی میں موقع پر جا کر جو تحقیق کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حنین اوطاس کی ایک وادی کا نام ہے اور اوطاس طائف کے شمال مشرق میں تقریباً 30، 40 میل کے فاصلہ پر ہے بہرحال اس کا محل وقوع جو بھی ہو، رمضان 8 ھ میں مکہ فتح ہوجانے اور قریش مکہ کے ہتھیار ڈالدینے کے دو ہفتہ کے بعد قدیم جاہلی نظام نے آخری حرکت مذبوحی حنین کے میدان میں کی اس کی صورت یہ پیش آئی کہ عرب کا ایک بہادر اور تیر اندازی میں مشہور، جنگجو اور مالدار قبیلہ ہوازن جس کی ایک شاخ طائف کے رہنے والے بنو ثقیف بھی تھے ان میں ہل چل مچ گئی انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ مکہ فتح ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو کافی قوت حاصل ہوگئی ہے اس سے فارغ ہونے کے بعد لازمی ہے کہ ان کا رخ ہماری طرف ہوگا اس لئے دانشمندی کی بات یہ ہے کہ ان کے حملہ آور ہونے سے پہلے پہلے ہم خود ان پر حملہ کردیں، اس کام کے لئے قبیلہ ہوازن نے اپنی سب شاخوں کو جو مکہ سے طائف تک پھیلی ہوئی تھیں جمع کرلیا، قبیلہ ہوازن کی تمام شاخیں جن کی تعداد سو کے قریب تھی سوائے بنو کعب اور بنو کلاب کے جو قبیلہ ہوازن کے خیال سے متفق نہیں تھے جمع ہوگئے، بنو کعب اور بنو کلاب کو اللہ تعالیٰ نے کچھ بصیرت عطا فرمادی تھی انہوں نے کہا اگر مشرق سے مغرب تک ساری دنیا محمد ﷺ کے خلاف جمع ہوجائے گی تو وہ ان سب پر غالب آجائیں گے ہم خدائی طاقت کے ساتھ جنگ نہیں کرسکتے، حنین کے معرکہ میں قبیلہ ہوازن اور اس کے حلیفوں نے اپنی پوری قوت جھونک دی تاکہ اس اصلاحی انقلاب کو روک دیں جو فتح مکہ کے بعد تکلمیل کے مرحلہ میں پہنچ چکا تھا لیکن یہ حرکت بھی ناکام ہوئی اور حنین کی شکست کے ساتھ عرب کی قسمت کا قطعی فیصلہ ہوگیا کہ اب اسے دارالاسلام بن کر رہنا ہے۔ مشرکین کی فوج کی کمان مالک بن عوف کے ہاتھ میں تھی جو بعد میں مسلمان ہوگئے، مالک بن عوف نے ان سب کو پوری قوت سے جنگ پر قائم رکھنے کی یہ تدبیر کی کہ ہر شخص کے تمام اہل و عیال بھی ساتھ چلیں اور اپنا تمام مال بھی ساتھ لے کر نکلیں جس کا مقصد یہ تھا کہ اگر وہ میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے لگیں تو بیوی بچے ان کے پیروں کی زنجیر بن جائیں مشرکین کی فوج کی تعداد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں علامہ ابن حجر نے 24 یا 28 ہزار کی تعداد کو راجح قرار دیا ہے بعض حضرات نے 4 ہزار تعداد بتائی ہے ممکن ہے کہ باقاعدہ فوجی چار ہزار ہوں اور ان کے اہل وغیرہ سب مل کر ان کی تعداد 24 یا 28 ہزار تک پہنچ گئی ہو۔ آنحضرت ﷺ کو ان کے خطرناک عزائم کی اطلاع : جب آنحضرت ﷺ کو قبیلہ ہوازن اور اس کے حلیفوں کے خطرناک عزائم کی اطلاع ملی تو آپ ﷺ نے ان کے مقابلہ پر جانے کا عزم فرما لیا، مکہ مکرمہ پر حضرت عتاب بن اسید ؓ کو امیر بنایا اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کو ان کے ساتھ اسلامی تعلیمات سکھانے کے لئے چھوڑا اور قریش مکہ سے کچھ اسلحہ اور سامان جنگ عاریت پر لیا، امام زہری کی روایت کے مطابق آنحضرت ﷺ چودہ ہزار صحابہ کا لشکر لے کر حنین کی طرف متوجہ ہوئے جن میں بارہ ہزار انصار مدینہ تھے جو فتح مکہ کے لئے آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے، اور دو ہزار وہ نو مسلم تھے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوگئے تھے جن کو طلقاء کہا جاتا ہے 6 شوال بروز ہفتہ 8 ھ مطابق یکم فروری آپ اس غزوہ کے لئے روانہ ہوئے اور آپ نے فرمایا کل انشاء اللہ ہمارا قیام خیف بنی کنانہ کے اس مقام پر ہوگا جہاں جمع ہو کر قریش مکہ نے مسلمانوں کے خلاف مقاطعہ کے لئے عہد نامہ لکھا تھا، بہت سے نو مسلم اور منافقین بھی تماشائی کے طور پر اسلامی لشکر کے ساتھ ہو لئے ان کا مقصد صورت حال کے مطابق حالات سے فائدہ اٹھانا تھا۔ حنین کے مقام پر اسلامی لشکر کا ورود : مقام حنین پر پہنچ کر اسلامی لشکر نے پڑائو ڈالا تو حضرت سہیل بن حنظلہ ؓ نے آپ ﷺ کو یہ خبر دی کہ ایک گھوڑسوار شخص ابھی دشمن کی طرف سے آیا ہے، وہ بتلا رہا ہے کہ قبیلہ ہوازن مسلح ہو کر مع اپنے سازو سامان کے مقابلہ پر آگیا ہے آپ ﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا '' پرواہ نہ کرو یہ پورا سازو سامان مسلمانوں کے لئے ہے جو مال غنیمت ہو کر تقسیم ہوگا ''۔ عبد اللہ بن ابی حدرد ؓ کی بطور جاسوس روانگی : اس مقام پر ٹھہر کر آپ ﷺ نے عبد اللہ بن ابی حدرد ؓ کو بطور جاسوس دشمن کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجا عبد اللہ بن ابی حدرد ؓ نے اس قوم میں جا کردو روز رہ کر حالات کا جائزہ لیا ان کے لیڈر مالک بن عوف کو دیکھا کہ وہ اپنے لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ محمد ﷺ کو اب تک کسی بہادر تجربہ کار قوم سے سابقہ نہیں پڑا مکہ کے بھولے بھالے قریشیوں کا مقابلہ کر کے ان کو اپنی طاقت کا زعم ہوگیا ہے اب ان کو پتہ چلے گا، تم صبح ہوتے ہی اس طرح سف بندی کرو کہ ہر ایک کے پیچھے اسکے بیوی بچے اور مال ہو اور اپنی تلواروں کی میانوں کو توڑ ڈالو اور سب مل کر یکبارگی ہلہ بول دو یہ لوگ چونکہ جنگی معاملات کے بڑے تجربہ کار تھے اسلئے اپنی فوج کے چند دستوں کو مختلف گھاٹیوں میں چھپا دیا تھا۔ مسلمانوں کے لشکر کی صورت حال : یہ تو لشکر کفار کی تیاریوں کا ذکر تھا، اسلامی لشکر کی صورت حال یہ تھی کہ یہ پہلا موقع تھا کہ چودہ ہزار مجاہد مقابلہ کے لئے نکلے تھے، اور سامان جنگ بھی ہمیشہ کی بہ نسبت زیادہ تھا مسلمان یہ دیکھ چکے تھے کہ بدر میں صرف تین سو تیرہ لوگوں نے ایک ہزار کے لشکر جرار پر فتح پائی تو آج اپنی کثرت اور تیاری پر نظر کرتے ہوئے بعض لوگوں کی زبان سے یہ نکل گیا کہ '' آج تو ممکن نہیں کہ ہم کسی سے مغلوب ہوجائیں '' چناچہ اول اول مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو مشرکوں میں بھگ دڑ مچ گئی اور مسلمان مال غنیمت حاصل کرنے میں لگ گئے معاً نصرت الٰہی نے مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیا مشرکین موقع دیکھ کر پلٹ پڑے۔ خداوند قدوس کو مسلمانوں کی یہ بات ناپسند آئی کہ مسلمان خدا کی ذات پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنی کثرت تعداد اور تیاری پر بھروسہ کریں چناچہ مسلمانوں کو اس کی سزا اس طرح ملی کہ جب قبیلہ ہوازن نے طے شدہ پروگرام کے مطابق یکبارگی ہلہ بولا اور گھا ٹیوں میں چھپے ہوئے دستوں نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال دیا اور گرد و غبار نے دن کو رات بنادیا تو صحابہ کرام کے عام طور پر پیر اکھڑ گئے اور بھاگنے پر مجبور ہوگئے صرف نبی ﷺ اپنی سواری پر سوار پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھ رہے تھے، اور صرف چند صحابہ جمے رہے، وہ بھی یہ چاہتے کہ آپ ﷺ آگے نہ بڑھیں، حضرت عباس ؓ آپ کی سواری کی رکاب تھامے ہوئے تھے آپ ﷺ کے ساتھ رہنے والوں میں حضرت ابوبکر حضرت عمر وعباس اور ابوسفیان بن حارث ؓ اجمعین، آپ کے چچا زاد بھائی حضرت علی، عبد اللہ بن مسعود مغیرہ ؓ میدان جنگ میں رہ گئے، آپ ﷺ تھے کہ اپنی صداقت پر مطمئن دشمن کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے اور بار بار پکار کر فرما رہے تھے، اَنا النَبِیَ لا کَذِب اَنا ابْن عَبد المطلب، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں اس میں ذرہ برابر جھوٹ نہیں الیَّ عباد اللہ انی رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے حضرت عباس ؓ کو حکم دیا کہ بآواز بلند صحابہ کو پکاریں آپ نے مہاجرین وانصار کو پکارا اور راہ فرار پر غیرت دلائی آخر کار مسلمانوں کو غیرت آئی دوبارہ سب نے جمع ہو کر بےجگری کے ساتھ مقابلہ شروع کیا، آسمان سے فرشتوں کی مدد نازل ہوئی مشرکوں کی فوج کے سپہ سالار نے اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی اور طائف کے قلعہ میں رو پوش ہوگیا، یہ صورت حال دیکھ کر دشمن کی فوج میں بھگڈر مچ گئی اس معرکہ میں دشمن کے ستر آدمی مارے گئے، بعض مسلمانوں کے ہاتھ سے کچھ بچے زخمی ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے سختی سے منع فرمایا، غرضیکہ دشمن کو بڑی ذلت آمیز شکست ہوئی جس میں چھ ہزار قیدی بنائے گئے 24 ہزار اونٹ 40 ہزار بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی ہاتھ آئی، اس معرکہ میں 12 مسلمان شہید ہوئے۔ وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا اس سے مراد عمومی رویت کی نفی ہے احادوافراد کی رویت اس کے منافی نہیں ہے اوپر کافروں کی دنیوی سزا کا ذکر تھا آئندہ آیت میں اخروی سزا کا بیان ہے۔ ہوازن اور ثقیف کے سرداروں کا مسلمان ہو کر حاضر ہونا اور قیدیوں کی رہائی : جیسا کہ سابق میں بیان کیا گیا ہے کہ قبیلہ ہوازن کے کچھ سردار تو مارے گئے تھے اور کچھ بھاگ کھڑے ہوئے تھے، ان کے جو اہل و عیال اور اموال تھے وہ مسلمانوں کے قیدی اور مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ آئے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو سفیان بن حرب ؓ کو مال غنیمت کا نگران مقرر فرمایا۔ شکست خوردہ ہواز اور ثقیف نے مختلف مقامات پر مسلمانوں کے خلاف اجتماع کیا مگر ہر مقام پر شکست ہوئی، بےحد خوف زدہ اور مرعوب ہو کر طائف کے ایک مضبوط قلعہ میں بند ہوگئے، رسول اللہ ﷺ نے پندرہ بیس روز اس قلعہ کا محاصرہ کیا محصور دشمن قلعہ کے اندر ہی سے تیر برساتے تھے مگر سامنے آنے کی کسی کی ہمت نہیں ہوئی، صحابہ کرام ؓ نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ ان کے لئے بدعاء فرما دیں مگر آپ نے بد دعا کے بجائے ان کے لئے ہدایت کی دعا فرمائی، صحابہ سے مشورہ کے بعد آپ نے واپسی کا قصد فرمایا، مسلمانوں کی فتح و کامرانی دیکھ کر وہ لوگ بھی جو تماشائی بن کر آئے تھے اور موقع سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں تھے مسلمان ہوگئے۔ جعرانہ کے مقام پر مال غنیمت کی تقسیم کا انتظام کیا گیا، ابھی مال غنیمت تقسیم ہو ہی رہا تھا کہ اچانک قبیلہ ہوازن کے چودہ سرداروں کا ایک وفد زہیر بن صرد کی قیادت میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ان میں آپ ﷺ کے رضاعی چچا ابو یرقان بھی تھے انہوں نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہم مسلمان ہوچکے ہیں، اور یہ درخواست بھی کی ہمارے اہل و عیال اور اموال ہمیں واپس کر دئیے جائیں۔ آپ کے لئے دوہری مشکل : رحمة للعالمین کے لئے یہ موقع دوہری مشکل کا تھا، ایک طرف ان لوگوں پر رحم و کرم کا تقاضہ یہ تھا کہ ان کے سب قیدی رہا اور تمام اموال انہیں واپس کر دئیے جائیں، اور دوسری طرف یہ کہ اموال غنیمت میں مجاہدین کا حق ہوتا ہے ان سب کو ان کے حق سے محروم کردینا ازروئے انصاف درست نہیں اس لئے صحیح بخاری کی روایت کے مطابق آپ ﷺ نے ان کے جواب میں فرمایا میرے ساتھ کس قدر مسلمانوں کا لشکر ہے جو ان اموال کا حقدار ہے، میں سچی اور صاف بات پسند کرتا ہوں اس لئے آپ لوگوں کو اختیار دے رہا ہوں کہ یا تو اپنے قیدی واپس لے لو یا مال غنیمت، ان دونوں میں سے جس کو تم اختیار کرو گے وہ تمہیں دے دیا جائے گا۔ سب نے قیدیوں کی واپسی کو پسند کیا تو آپ ﷺ نے تمام صحابع کو جمع کر کے ایک خطبہ دیا جس میں حمد وثناء کے بعد فرمایا۔ یہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آئے ہیں میں چاہ رہا ہوں کہ ان کے قیدی ان کو واپس دے دئیے جائیں تم میں سے جو لوگ خوش دلی کے ساتھ اپنا حصہ واپس دینے کے لئے تیار ہوں وہ احسان کریں اور جو اس کے لئے تیار نہ ہوں تو ہم ان کو آئندہ اموال فئی میں سے اس کا بدلہ دے دیں گے ہر طرف سے آواز آئی کہ ہم خوش دلی سے تیار ہیں۔ حقوق العباد کے معاملہ میں رائے عامہ معلوم کرنے کے لئے عوامی جلسوں کی آوازیں کافی نہیں ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ رائے معلوم کرنا چاہیے، جب آپ ﷺ نے لوگوں کو قیدی آزاد کرنے کی ترغیب کی تو ہر طرف سے آواز آئی کہ ہم سب قیدی آزاد کرنے کے لئے تیار ہیں مگر عدل و انصاف اور حقوق کے معاملہ میں احتیاط کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کی مختلف آوازوں کو کافی نہ سمجھا اور فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ کون لوگ اپنا حق چھوڑنے کے لئے خوش دلی سے تیار ہیں اور کون ایسے ہیں کہ شرما شرمی خاموش رہے، معاملہ حقوق العباد کا ہے اس لئے ایسا کیا جائے کہ ہر جماعت اور خاندان کے سردار اپنی اپنی جماعت کے لوگوں سے الگ الگ صحیح بات معلوم کر کے مجھے بتائیں، اس کے مطابق سرداروں نے ہر ایک سے الگ الگ اجازت حاصل کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو بتلایا کہ سب لوگ خوش دلی سے اپنا حق چھوڑنے کے لئے تیار ہیں تب رسول اللہ ﷺ نے یہ سب قیدی ان کو واپس کر دئیے۔ یہی لوگ ہیں جن کی توبہ کی طرف '' ثُمَّ یَتوب اللہ من بعد ذلک '' میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔ احکام و مسائل : آیات مذکورہ میں سب سے بڑی ہدایت تو یہ دی گئی ہے کہ مسلمانوں کو کسی وقت بھی اپنے طاقت پر نازو غرور نہیں ہونا چاہیے نظر ہرحال میں اللہ کی نصرت پر رہنی چاہیے۔ غزوہ حنین میں مسلمانوں کی عددی کثرت اور سازو سامان حرب کے کافی ہونے کی وجہ سے بعض صحابہ کرام کی زبان پر جو بڑا بول آگیا تھا کہ آج تو کسی کی مجال نہیں کہ جو ہم سے بازی لے جاسکے اللہ کو اپنی اس محبوب جماعت کی زبان سے ایسے کلمات پسند نہ آئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابتدائی ہلہ کے وقت مسلمانوں کے پائوں اکھڑ گئے اور پشت پھیر کر بھاگنے لگے، پھر اللہ ہی کی غیبی مدد سے یہ میدان فتح ہوا۔
Top