Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 42
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ١٘ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِدْرِيْسَ : ادریس اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور (اے پیغمبر اسلام ! ) کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا بھی ذکر کر بلاشبہ وہ (اپنے وقت کا) مجسم سچائی اور نبی تھا
اے پیغمبر اسلام ! ال کتاب میں ادریس کا ذکر کیجئے وہ صدیق نبی تھا : 56۔ سیدنا اسمعیل (علیہ السلام) کے ذکر کے بعد ادریس (علیہ السلام) کا ذکر کرنے کی ہدایت ہو رہی ہے اور ادریس (علیہ السلام) کی بھی سچائی کی صفت ہی اجاگر کی گئی ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے متعلق یقینا قوم میں اس وقت کوئی غلط نظریہ قائم تھا جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق تین جھوٹ کی بات بنائی گئی تھی ، ادریس (علیہ السلام) کے متعلق آج بھی مشہور ہے کہ وہ ایک منجم تھے اور علم تنجیم میں جھوٹ کی آمیزش اس وقت بھی تھی آج بھی ہے اور کسی نبی کا منجم ہونا نہ روایتا صحیح ہے اور نہ ہی درایتا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہی جھوٹ آپ کی طرف منسوب ہوگا جس کے باعث قرآن کریم نے آپ کی صفت ” صدیقیت ‘ کو اجاگر کیا ۔ ادریس (علیہ السلام) کا ذکر قرآن کریم میں صرف دو جگہ پر آیا ہے ایک زیر نظر آیت میں اور دوسری جگہ سورة الانبیاء میں جہاں ادریس (علیہ السلام) کے ساتھ ذالکفل کا ذکر بھی کام گیا ہے ۔ ادریس (علیہ السلام) بھی ان انبیاء کرام (علیہم السلام) میں سے ایک ہیں جن کے نام ‘ نسب اور زمانہ کے متعلق مورخین ومفسرین میں بہت اختلاف پایا گیا ہے اور یہ اختلاف بھی ایسا ہے کہ ان ساری باتوں کو سامنے رکھا جائے جو ان کے متعلق بیان ہوئیں تو بھی کوئی فلہت کرنا ممکن نہیں ہے کہ کس کو صحیح کہا جائے اور کس کو غلط ، کیوں ؟ اس لئے کہ سارے بیان ایک نوعیت کے ہیں اور پختہ دلیل کسی کو بھی قرار نہیں دیا جاسکتا ہمارے لئے یہ راہ صحیح ہے کہ ان کے متعلق ساری باتوں سے الگ رہ کر صرف ان کی نبوت اور رفعت مرتبت اور ان کی صفات عالیہ ہی پر اکتفا کریں اور اسرائیلی روایات کے پیچھے نہ جائیں خواہ وہ افواہیں اسلامی لٹریچر کی زینت بھی ہوئی ہوں جیسے آپ کے منجم ہونے روایت ابن حبان میں بھی موجود ہے اگرچہ وہ آپ کے نام سے نہیں لیکن بعد میں آنے والوں نے اس پر آپ ہی کا نام استعمال کیا ہے چناچہ کہا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے کسی نے علم رمل کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ علم ایک نبی کو دیا گیا تھا ۔ پس اگر کسی شخص کے نقوش اس کے مطابق آجائیں تو نشانہ صحیح بیٹھ جاتا ہے ‘ ورنہ نہیں ۔ یہ روایت ابن حبان میں ہے اور اس کے پیش نظر ” کسی نبی “ کی جگہ ادریس (علیہ السلام) کا نام دے دیا گیا حالانکہ یہ روایت وہ درجہ نہیں رکھتی کہ اس کی نسبت کسی نبی ورسول کی طرف کی جائے اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ نبی سے مراد شرعی نبی ہی نہ لی گئی بلکہ بعض اوقات دوسرے علوم کے ماہرین کو بھی ان علوم کا نبی کہہ دیا جاتا ہے جیسے یہ کہ ارسطو علم فلسفہ کا نبی تھا یا بوعلی سینا علم طب کا نبی مانا جاتا ہے اور علم ہندسہ میں فیثا غورث کا نام لیا جاتا ہے ، درزی کے کام کی نسبت بھی آپ کی طرف کی جاتی ہے ، حافظ ابن کثیر (رح) نے ایسی تمام روایات بیان کرکے ان لوگوں کے نظریات کی سخت تردید کی ہے جو ان روایات کو ادریس نبی اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اس طرح جن لوگوں آپ کو ” ھر مس الھرامسہ “ کا لقب دیا ہے ان کی بھی خوب خبر لی ہے ۔ حافظ (رح) نے البدایہ والنہایہ ج اول ص 99 پر اس کو خوب بیان فرمایا ہے ۔ اسی طرح بعض روایات میں ادریس (علیہ السلام) کا زندہ آسمان کی طرف چلے جانا بھی بیان ہوا ہے لیکن وہاں زندہ رہنے نہیں دیا گیا بلکہ چوتھے آسمان پر انکی جان قبض کرلینے کی کہانی بیان کی جاتی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کی قبر وہیں چوتھے آسمان پر بنائی گئ یا فرشتہ ان کے نعش مبارک کو واپس چھوڑ گیا بہرحال اس میں شبہ نہیں کہ یہ روایات ہماری تفاسیر میں بھری گئیں اور ایسی تمام روایات کو کعب احبار کی طرف ہی منسوب کیا گیا لیکن ایسی بےسروپا باتوں کا تعلق اسرائیلیات ہی سے ہے ۔ اسلام کا چہرہ بحمدللہ ایسے داغوں سے بالکل پاک وصاف ہے ، ہاں ! بطور کہانی کسی چیز کو بیان کردینا جو حیثیت رکھتا ہے وہ سب پر روشن ہے ۔
Top