Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 106
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَا١ؕ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
مَا نَنْسَخْ : جو ہم منسوخ کرتے ہیں مِنْ آيَةٍ : کوئی آیت اَوْ نُنْسِهَا : یا اسے بھلا دیتے ہیں نَأْتِ : لے آتے ہیں بِخَيْرٍ : بہتر مِنْهَا : اس سے اَوْ مِثْلِهَا : یا اس جیسا اَلَمْ : کیا نہیں تَعْلَمْ : جانتے تم اَنَّ اللہ : کہ اللہ عَلٰى : پر كُلِّ شَیْءٍ : ہر شے قَدِیْرٌ : قادر
جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا بھلا دیتے ہیں204 تو بھیج دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے برابر کیا تجھ کو205 معلوم نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے
204 نسخ سے مراد یہ ہے کہ آیت کا حکم اٹھ جائے لیکن اس کی تلاوت باقی رہ جائے۔ اور انسائ سے مراد یہ ہے کہ حکم اور تلاوت دونوں اٹھ جائیں (بحر ص 343 ج 1) یہ راعنا کو منسوخ کر کے اس کی جگہ انظرنا کہنے کے حکم کی طرف اشارہ ہے، نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَآ اَوْ مِثْلِهَا۔ یعنی اگر ہم کسی حکم کو منسوخ کردیتے ہیں تو وہ بھی ہماری حکمت اور مصلحت کے عین مطابق ہوتا ہے اور ہم منسوخ شدہ حکم کی جگہ اس سے زیادہ مفید اور زیادہ آسان یا نفع اور سہولت میں اس کے برابر دوسرا حکم نازل کردیتے ہیں۔ ای بما ھو انفع لکم واسھل علیکم و اکثر لاجرکم او مثلھا فی المنفعۃ والثواب الخ (معالم ص 81 ج 1) ۭ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۔ یہاں استفہام تقریری ہے اور اس کا مخاطب ہر سامع ہے۔ ھذا استفہام معناہ التقریر۔۔۔ والاولی ان یکون المخاطب السامع (بحر ص 344 ج 1) مطلب یہ ہے کہ اے مخاطب تو اچھی طرح جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اپنے بندوں پر احکام میں ردو بدل اور محو و اثبات کا اسے پورا پورا اختیار ہے۔ لہذا اس پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں۔ اس سے اصل دعویٰ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب اللہ ہی ہر چیز پر قادر ہے اور وہ انسانوں کی تمام حاجتیں اور ضرورتیں پوری کرسکتا اور ان کی تمام مشکلات آسان کرسکتا ہے۔ تو پھر اس کے سوا کیوں کسی اور کو پکارا جائے اور کیوں کسی اور سے استعانت کی جائے۔ اس آیت کا دوسرا ربط یہ ہے کہ اگر ہم کوئی ایسی رسم منسوخ کردیں جو موہم شرک ہو تو اس کی جگہ اس سے بہتر طریقہ رائج کردیتے ہیں جس طرح راعنا کا لفظ منسوخ کر کے اس کی جگہ انظرنا کا لفظ کہنے کا حکم دیا ہے۔ فائدہ : متقدمین حضرات نسخ کو اس کے وسیع معنوں میں لیتے تھے۔ یعنی وصف آیت کے مطلق تغیر کو نسخ کہتے تھے۔ اس لیے ان کے نزدیک پانچ سو سے بھی زیادہ آیتیں منسوخ ہیں۔ لیکن متاخرین نے نسخ کو محدود معنی میں استعمال کیا۔ یعنی آیت کا حکم مع التلاوۃ یا بدون التلاوۃ اٹھا دینے کو نسخ کہتے ہیں۔ اس لیے اس مفہوم کے پیش نظر بیس سے زیادہ آیتیں منسوخ نہیں ہیں۔ جیسا کہ علامہ سیوطی نے اتقان میں بسط و تفصیل سے ذکر کیا ہے لیکن امام ولی اللہ دہلوی الفوز الکبیر کے باب دوم فصل دوم میں اس مفہوم کے تحت صرف پانچ آیتوں کو منسوخ مانتے ہیں اور باقی تمام آیتوں کی توجیہ فرماتے ہیں لیکن حضرت شیخ (رح) ان پانچ آیتوں کو بھی منسوخ نہیں مانتے تھے اور حضرت شاہ صاحب کی طرز پر ان پانچوں آیتوں کی ایسی توجیہ فرماتے تھے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پانچوں آیتوں کا حکم بھی تا قیامت باقی ہے۔ ان پانچوں آیتوں کی توجیہ اپنی اپنی جگہ آئے گی انشائ اللہ تعالی۔ بعض لوگ نسخ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پہلے ایک حکم دے کر پھر اسے واپس کیوں لیتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نسخ کے معنی پہلا حکم واپس لینے کے نہیں بلکہ اس سے پہلے حکم کی مدت کی انتہا کا بیان مقصود ہوتا ہے کہ یہ حکم صرف اس مدت تک تھا۔ اس کے بعد کے لیے نہیں۔
Top