Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 107
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ
اَلَمْ تَعْلَمْ : کیا نہیں جانتے تم اَنَّ اللہ : کہ اللہ لَهُ : اس کے لئے مُلْكُ : بادشاہت السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَا : اور نہیں لَكُمْ : تمہارے لئے مِنْ : سے دُوْنِ اللہِ : اللہ کے سوا مِنْ : کوئی وَلِيٍّ : حامی وَ لَا : اور نہ نَصِیْرٍ : مددگار
کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے سلطنت آسمان اور زمین کی اور نہیں تمہارے واسطے اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور نہ مددگار
205 یہاں بھی استفہام تقریر کے لیے ہے اور خطاب ہر سامع کو ہے۔ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔ ملک السموت والارض مبتدا موخر اور لہ خبر مقدم ہے۔ اور اس کی تقدیم افادہ حصر کے لیے ہے یعنی زمین و آسمان کی سلطنت اور زمین و آسمان میں ہونے والے تمام امور کا اختیار صرف اللہ ہی کو حاصل ہے وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْر۔ یہ جملہ اَنَّ کی خبر پر معطوف ہے۔ پہلا مِنْ ابتدائیہ اور استغراق عموم نفی کے لیے ہے (روح ص 354 ج 1، ابو سعود ص 675 ج 1) ۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی بھی تمہارا حمایتی اور یارومددگار نہیں۔ نہ کوئی نوری نہ ناری نہ خاکی۔ یہ آیت اصل دعویٰ یعنی اعبدوا ربکم سے متعلق ہے اور اس پر عقلی دلیل ہے یعنی جب زمین و آسمان کی سلطنت اللہ ہی کے قبضہ میں ہے اور اس کے سوا کوئی حمایتی اور مددگار نہیں تو حاجات مشکلات میں غائبانہ طور پر صرف اسے ہی پکارو اور اس کی عبادت اور دعا میں کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ نیز اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا کوئی حافظ وناصر اور نگہبان نہیں۔ اس لیے غیر اللہ کے لیے کوئی ایسا لفظ مت استعمال کرو جس سے اس قسم کے شرک کا وہم بھی ہو۔ مثلاًحضور ﷺ کو راعنا سے خطاب کرنا وغیرہ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پیغمبر خدا ﷺ پر بےجا سوالات کرنے سے منع فرمایا ہے بعض مفسرین کا خیال ہے کہ مشرکین مکہ ایک درخت کو مقدس مانتے تھے۔ اس درخت پر کھانے پینے کی اشیا کے چڑھاوے چڑھاتے تھے۔ اور اس کی تعظیم بجالاتے اور پوجا کرتے تھے اور اسے ذات انواط کہتے تھے۔ بعض مسلمانوں نے بھیحضور ﷺ کی خدمت میں عرض کی۔ یارسول اللہ آپ ہمارے لیے بھی ایک ایسا درخت مقرر فرمادیں تاکہ ہم بھی اس پر نذریں منتیں ڈالا کریں۔ مسلمانوں کا یہ سوال بعینہ ان اسرائیلیوں کی طرح تھا۔ جنہوں نے ایک بت پرست قوم کو بتوں کی پوجا کرتے دیکھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے سفارش کی تھی کہ آپ ہمارے لیے بھی ایک ایسا بت بنا دیں تاکہ ہم اس کی پوجا کریں۔ اس لا یعنی سوال پر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں تنبیہ فرمائی (من الکبیر ص 665 ج 1 والنیشاپوری ص 358 ج 1) مگر اس روایت میں ایک بات کھٹکتی ہے اور وہ یہ کہ جن صحابہ کرام کا خود پیغمبر خدا ﷺ نے سالہا سال تزکیہ فرمایا ہو۔ اور جنہوں نے براہ راست شمع محمدی سے اپنے سینے نور توحید سے روشن کیے ہوں۔ ان سے یہ سوال بہت بعید معلوم ہوتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے یہ آیت چونکہ مدنی ہے اس لیے ظاہر ہے کہ یہ واقعہ مدینہ ہی میں پیش آیا۔ مدینہ میں سینکڑوں یہود منافقانہ طور پر مسلمان تھے۔ کیونکہ ان کا اصل مقصد اسلام کا جامہ اوڑھ کر اسلام کی تخریب کرنا تھا۔ اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ان یہودیوں نے راعنا کا لفظ رائج کر کے مسلمانوں میں شرک داخل کرنے کی ناپاک کوشش کی تھی اسی طرح ان منافقین یہود نے ہیحضور ﷺ سے یہ ذات انواط مقرر کرنے کا سوال کیا تھا۔ گویا کہ مسلمانوں میں شرک داخل کرنے کے لیے انہوں نے یہ ایک اور حربہ استعمال کیا۔ جو اس وقت کامیاب نہ ہوسکا۔
Top