Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 62
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِیْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِیْنَ : اور جو لوگ هَادُوْا : یہودی ہوئے وَالنَّصَارَىٰ : اور نصرانی وَالصَّابِئِیْنَ : اور صابی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰہِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْآخِرِ : اور روز آخرت پر وَعَمِلَ صَالِحًا : اور نیک عمل کرے فَلَهُمْ : تو ان کے لیے اَجْرُهُمْ : ان کا اجر ہے عِنْدَ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے پاس وَلَا خَوْفٌ : اور نہ کوئی خوف ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ هُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
جو لوگ مسلمان ہوئے اور وہ لوگ جو یہودی ہوئے اور جو نصرانی ہوئے اور صابی ، جو شخص بھی ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر اور اچھی کام کیے ۔ پس ان کے لیے ان کا اجر ہے۔ ان کے رب کے پاس اور ان پر کچھ خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے
قانون نجات : اس سے پہلی آیات میں بنی اسرائیل کی نافرمانیوں ، فساد فی الارض ، اس کے نتیجے میں ان پر مسلط کی جانے والی ذلے اور مسکنت کا ذکر تھا۔ آیت زیر درس کے بعد بنی اسرائیل کی یکے بعد دیگرے خرابیوں کا ذکر ہوگا۔ اس درمیانی آیت میں اللہ تعالیٰ نے وہ قانون بتلا دیا ہے جس کی پابندی اختیار کرکے اور جس پر عمل پیرا ہو کر انسان کو نجات حاصل ہوسکتی ہے۔ تہ قانون کسی خاص فرقے یا گروہ کے لیے نجات مختص نہیں کرتا ۔ بلکہ جو بھی شخص اس میں دیے گئے اصول کی پابندی کرے گا۔ وہ نجات پا جائے گا ۔ خواہ وہ کسی خاندان کسی نسل یا کسی فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ دراصل بنی اسرائیل کے نسبی تفاخر اور مذہبی فوقیت کی تردید ہے۔ جس میں وہ مبتلا تھے۔ اور اسی نام نہاد برتری کی وجہ سے اپنے آپ کو نجات یافتہ سمجھتے تھے۔ مذہب عالم : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے چار گروہوں یعنی مؤمنین ، یہود ، نصاریٰ اور صائبین کا ذکر فرمایا ہے۔ البتہ سورة حج میں پانچویں گروہ مجوسیوں کا ذکر بھی آیا ہے۔ نزول قرآن کے وقت جو فرقے پائے جاتے تھے۔ ان میں مشرکین ۔ یہود ، نصاریٰ اور صابی ہیں۔ حضرت مولانا شیخ الہند (رح) اپنی تفسیر کے حاشیہ پر لکھتے ہیں (1 ۔ قرآن مجید مترجم ص 13 مطبوعہ دار التصنیف کراچی) کہ یہود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کو اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت کو کہتے ہیں البتہ صابی ایک ایسا فرقہ ہے جس نے مختلف ادیان سے بعض ایسی چیزوں کو اختیار کرلیا ہے۔ جنہیں وہ اچھا سمجھتے تھے۔ اس فرقہ کے پیروکار حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مانتے ہیں۔ فرشتوں کی پرستش کرتے ہیں۔ زبور پڑھتے اور کعبے کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ لوگ بہت سی جائز باتوں میں اختلاف بھی کرتے ہیں۔ اہل ایمان : اس آیت میں جن مذاہب کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ ان میں سرفہرست اہل ایمان ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے۔ “ ان الذین امنوا ” بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے یعنی مسلمان ہوئے صرف “ امنوا ” میں وہ تمام لوگ آجاتے ہیں جو بظاہر ایمان لے آئے۔ اور ان میں منافقین بھی شامل ہیں کیونکہ بظاہر تو وہ بھی کلمہ پڑھتے تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ نمازیں بھی ادا کرتے تھے۔ نبی (علیہ السلام) کی مجلس میں بھی بیٹھتے تھے۔ اور پھر آپ کی اطاعت کا دعویٰ بھی کرتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ “ امنوا ” کی فہرست میں داخل نہیں ہوسکتے۔ یہاں “ امنوا ” سے مراد وہ اہل ایمان ہیں۔ جو صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ پر اس کے رسولوں پر ، اس کی کتابوں پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس کظاب کے مصداق ایسے ہی لوگ ہیں۔ محض زبانی دعوے ایمان سے نجات ممکن نہیں ہے۔ ھادوا کا مفہوم : دوسرے نمبر پر فرمایا ۔ “ والذین ھادوا ” اور وہ لوگ جو یہودی ہوئے۔ یہاں پر مطلقاً یہودی نہیں فرمایا۔ بلکہ فرمایا جو یہودی ہوئے۔ اس میں امتیاز یہ ہے کہ یہود ایک نسلی مذہب ہے ۔ یہ تبلیغی مذہب نہیں ہے۔ یہودی وہ ہیں۔ جو نسلی طور پر بنی اسرائیل ہیں۔ اور یہودی ہونے سے مراد وہ لوگ بھی ہیں جو اگرچہ نسلی طور پر یہودی نہیں ہیں۔ مگر انہوں نے یہودی مذہب قبول کرلیا۔ نزول قرآن کے وقت مدینہ کے گردونواح میں بنی طی وغیرہ ایسے قبائل تھے۔ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دور یا اس سے بھی پہلے جب بڑے بڑے حوادثات پیش آئے۔ تو یہ لوگ اپنے اس وطن سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوگئے تھے۔ یہاں پر ان کے قلعے اور آبادیاں تھیں یہ لوگ صاحب علم کہلاتے تھے۔ یہ لوگ اصل یہودی تھے۔ مگر بعض لوگ ایسے بھی تھے۔ جو اصلاً عربی النسل تھے۔ مگر یہودیوں سے متاثر ہو کر اس مذہب میں داخل ہوگئے تھے۔ انہیں کے متعلق کہا گیا ہے کہ جو یہودی ہوئے۔ یہودی کی وجہ تسمیہ : یہودیوں کو یہود کہنے کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 102) کہ پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ نام حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے چوتھے بیٹے یہودا کے نام پر ہے۔ اس نام کی دوسری توجیہہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ سورة اعراف میں آتا ہے “ انا ھدنا الیک ھاد ”۔ ھوداکا معنی ہوتا ہے رجوع کرنا ۔ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کا دعائیہ کلمہ ہے۔ جب بنی اسرائیل نے سخت گستاخی کی اور کہا کہ ہم ہرگز اس کتاب کو نہیں مانیں گے۔ جب تک اللہ تعالیٰ خود ہم سے ہم کلام ہو کر اس کتاب کی تصدیق نہ کرے۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) قوم کے ستر آدمیوں کو ساتھ لے کر کوہ طور پر گئے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے ان کا مطالبہ پورا کردیا مگر یہ پھر بھی ایمان نہ لائے۔ تو اللہ تعالیٰ کا قہر بجلی کی صورت میں نازل ہوا۔ اور وہ ستر آدمی ہلاک ہوگئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) سخت رنجیدہ خاطر ہوئے۔ کہ مولا کریم ! میں قوم کو جا کر کیا بتاؤں گا۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے آدمی وہاں لے جا کر مروا دیے۔ اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ دعا کی تھی ۔ اور عرض کیا تھا۔ “ انا ھدنا الیک ” اے مولا کریم ! ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا تھا۔ تو بعض فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 268 ، ابن کثیر ج 1 ص 103) کہ یہودیوں کو یہود کا لقب اس ھدنا کے مادے سے دیا گیا تھا۔ یہودی عقائد : اس وقت پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد دو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ برخلاف اس کے نصاری کم و بیش دو ارب کی تعداد میں ہیں۔ یہودی اپنے آپ کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر کاربند کہتے ہیں۔ مگر ان میں ابتدائے زمانہ ہی میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوگئیں۔ ان میں سرکشی کا مادہ وافر مقدار میں موجود تھا۔ بعد میں یہ عادی مجرم بن گئے۔ عصیان ان کی سرشت میں داخل ہوگیا۔ اور یہ لوگ حقوق العباد کو ضائع کرنے لگے۔ حتیٰ کہ انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کیا۔ یہ لوگ اپنے آباؤ اجداد کے شنیع افعال پر نادم ہونے کی بجائے۔ ان پر فخر کرتے تھے ۔ کہ وہ بہت اچھا کام کرتے رہے ہیں۔ ان کے عقائد اعمال اور اخلاق میں بیشمار قبائح پیدا ہوچکے تھے۔ اور آج تک موجود ہیں۔ یہودیوں کا ایک عقیدہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جسمانی صورت کے معتقد ہیں۔ اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ کو جسمانیت سے مبرا سمجھتے ہیں۔ مگر کہتے ہیں کہ اس کا تعلق جسم کے ساتھ بھی ہے۔ اس جسم کو وہ مثالی اور نورانی مانتے ہیں ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی جسمانیت شعاع کی طرح ہے۔ جو پھیل جاتی ہے۔ اور سکڑ جاتی ہے۔ اسی لیے انہوں نے رؤیت الٰہی کا مطالبہ پیش کردیا۔ “ لن نؤمن لک حتی نری اللہ جھرۃ ” ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو ظاہری طور پر نہ دیکھ لیں۔ اسکے علاوہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر گریہ ، ہنسی ، حزن اور غم کا بھی اطلاق کرتے ہیں ۔ یہودی انبیاء (علیہم السلام) کے بارے میں بھی بڑی بدگمانی رکھتے ہیں۔ بلکہ ان پر تہمتیں لگاتے ہیں۔ توارۃ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے انبیاء (علیہم السلام) پر کیا کیا بہتان باندھے انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تہمت لگائی کہ آپ ہارون (علیہ السلام) سے حسد کرتے تھے اس لیے آپ نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو قتل کیا (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 268) (العیاذ باللہ) حالانکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو حضرت ہارون (علیہ السلام) کے بارے میں سفارشی تھے۔ کہ “ واشر کہ فی امری (22) کی نسبحک کثیرا ” اے پروردگار ! میرے بھائی کو میرے ساتھ تبلیغ میں شریک فرما۔ آپ نے یہی تو دعا کی تھی۔ “ ھو افصح منی لسانا ”۔ وہ مجھ سے زبان میں زیادہ فصیح ہے۔ اے اللہ میری زبان میں لکنت ہے “ ردا یصدقنی ” اسے میرا معاون بنا دے جو میری تصدیق کرے۔ کہیں فرمایا اسے میرا وزیر بنا دے۔ ہم مل کر تیرے دین کی تبلیغ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ اوتیت سؤلک یموسی ” اے موسیٰ تیرا سوال پورا کردیا گیا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے مگر یہ بدبخت یہودی کہتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون (علیہ السلام) کو قتل کردیا تھا۔ یہودیوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبی نہیں مانتے بلکہ ولی مانتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ نبی تو محض ایلچی ہوتا ہے۔ مگر ولی نبی سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ اس میں تقرب الی اللہ کا مادہ زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ عقیدہ بالکل باطل ہے۔ ان بدبختوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ سونے کا بچھڑا خود حضرت ہارون (علیہ السلام) نے بنایا تھا یا انہوں نے بنانے کا مشورہ دیا تھا (العیاذ باللہ) اسی طرح انہوں نے حضرت داؤد (علیہ السلام) پر یہ تہمت لگائی۔ کہ انہوں نے اپنے کمانڈر انچیف اور یا کو قتل کردیا اور اس کی بیوی کو گھر میں رکھا (العیاذ باللہ) انہیں لوگوں نے سحر کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کیا۔ کہ یہ جادو گر اور طلسمات کا ماہر ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے بارے میں بہت بڑا جھوٹ ہے۔ یہودی یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت دائمی ہے۔ جو کبھی منسوخ نہیں ہوگی۔ یہ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بھی منکر ہیں جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دنیا میں تشریف لائے تو انہوں نے سخت مخالفت کی۔ اور ان کو دجال تک کہا۔ ان بدبختوں نے ان کے منہ پر تھوکا اور انہیں سولی پر لٹکانے کی کوشش کی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ پر زنا کی تہمت انہی ظالموں نے لگائی (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 268) (العیاذ باللہ) یہودیوں کی بد اخلاقی ، بد عقیدگی اور ان کی بری خصلتوں کی تفصیلات قرآن پاک میں موجود ہیں۔ بعض چیزیں تفاسیر میں ملتی ہیں۔ اور بعض تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ نصاریٰ کی وجہ تسمیہ : مؤمنین اور یہود کے تذکرہ کے بعد تیسرے گروہ کے متعلق فرمایا “ والنصری ” اور نصرانی جو اپنے آپ کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ لفظ نصاریٰ ، نصرانی کی جمع ہے۔ اور نصرت کے معنی مدد کرنے کے ہوتے ہیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 268 ، تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 103) کہ یہ لوگ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اذیت پہنچاتے تو آپ لوگوں کو مخاطب کرکے فرماتے ۔ “ من انصاری الی اللہ ” اللہ تعالیٰ کے راستے میں کون میرا مددگار ثابت ہوگا۔ “ قال الحواریون نحن انصار اللہ ” تو حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں مدد کے لئے تیار ہیں چناچہ اسی لفظ سے ان کو نصاریٰ کا نام دیا گیا ۔ یعنی نصرت کرنے والے۔ مدد کرنے والے بعض دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں (3 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 30 ، درمنثور ج 1 ص 75) کہ جس بستی میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) رہتے تھے۔ اس بستی کا نام ناصرہ تھا۔ چناچہ اس بستی کی نسبت سے اس گروہ کو نصرانی کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے بالکل اسی طرح جس طرح مدینہ کی نسبت کرکے مدنی کہا جاتا ہے۔ یا کسی کو مکی یا شامی وغیرہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ واللہ اعلم ۔ نصاری کے عقائد باطلہ : نصاری بھی عجیب و غریب عقائد رکھتے تھے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق ان کا عقیدہ بالکل بگڑ چکا ہے۔ آج کل کے مسیحی پولس نامی ایک شخص کے بگاڑے ہوئے ہیں۔ یہ شخص مسیحیت کا مبلغ تھا۔ اس نے دین مسیحی کا بالکل حلیہ بگاڑ دیا۔ پولس نے بھی عیسائیت کو اس طرح خراب کیا۔ جس طرح عمرو بن نحی نے دین ابراہیم کو بگاڑ دیا تھا۔ عرب اقوام تقریباً دو ہزار سال تک حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کے مذہب پر قائم رہے۔ اتنے عرصہ تک یہ توحید پرست رہے مگر حضور ﷺ کی بعثت سے تقریباً ساڑھے چار سو سال قبل اس شخص نے عربوں میں بت پرستی کا طریقہ ایجاد کیا۔ نتیجہ یہ ہوا۔ کہ نزول قرآن کے وقت سارا عرب شرک میں غرق ہوچکا تھا۔ حتیٰ کہ خانہ کعبہ کے اندر تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ پولس نے مسیحیت کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بندہ اور رسول ماننے والے لوگ آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔ اور ثلیث کا مسئلہ ان میں رواج پا گیا۔ آگے سورة مائدہ میں آرہا ہے کہ انہوں نے “ ان اللہ ثالث ثلثۃ ” کا عقیدہ بنا لیا۔ اور اس طرح گمراہی میں مبتلا ہوگئے۔ اس وقت انہوں نے چار گروہ بنا لیے۔ مگر اس وقت کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں گروہ مشرک ہیں۔ دونوں میں سے کوئی بھی توحید پر قائم نہیں رہا۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا ۔ یا خدا کا بیٹا یا تیسرا خدا یا ابن اللہ کہا انہوں نے یہ عقیدہ بھی قائم کرلیا۔ کہ خدا عیسیٰ (علیہ السلام) میں حلول کر گیا ہے۔ یہودیوں نے بھی یہی کہا تھا۔ کہ خدا بچھڑے میں حلول کر گیا ہے۔ اس طرح کا باطل عقیدہ عیسائیوں نے وضع کرلیا ۔ سید علی ہجویری صاحب ، کشف المحجوب میں لکھتے ہیں (1 ۔ کشف المحجوب فارسی ص 183 ، مطبوعہ دائرۃ المعارف پنجاب یونیورسٹی لاہور) کہ صوفیائے کرام کے بارہ فرقے ہیں۔ ان میں سے دو فرقے مردود ہیں۔ اور باقی دس فرقے مقبول ہیں۔ دو مردود فرقے یہی حلول والے فرقے ہیں۔ “ وحدت الوجود ” کا عقیدہ بھی انہی لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بندے کے اندر داخل ہوگیا ہے (العیاذ باللہ) تو ہر حال یہ لوگ بھی اسی قسم کی بدعقیدگی کا شکار ہوچکے ہیں “ والصابئین اور صابی صابی کون ہیں ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 269 ، تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 104) کہ صابی کا عام فہم معنی بےدین ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص ایک دین چھوڑ کر دوسرے دین میں داخل ہوجائے تو اسے صابی کہتے ہیں۔ اسی بنا پر عرب کے مشرکین حضور ﷺ کو صابی کہتے تھے۔ یعنی انہوں نے پرانا دین چھوڑ کر نیا دین اختیار کرلیا ہے تاہم اس مقام پر جس صابی فرقہ کا تذکرہ ہے۔ مفسرین نے اس کی بہت سی تفصیلات بیان کی ہیں۔ شاہ عبد العزیزی محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر عزیزی پارہ 1 ص 269) کہ اس فرقہ کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ نیک بختی اور سعادت حاصل کرنے کے لیے انسان کسی نبی کا محتاج نہیں ہے۔ بلکہ اگر وہ روحانیت اور فرشتوں کے ساتھ رابطہ قائم کرے تو اس کے لیئے یہی کافی ہے۔ انہیں سے انسان فیض حاصل کرسکتا ہے۔ یہ لوگ مختلف قسم کے ہیکل بناتے ہیں۔ مثلاً آفتاب ، ماہتاب ، ستاروں اور ملائکہ کے نام کے ہیکل بنائے جاتے ہیں۔ جس طرح ہم لوگ قبلہ کی طرف منہ کر کے سجدہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ ستاروں کو مسجود بناتے ہیں۔ اور انہیں قبلہ تصور کرتے ہیں۔ صابیوں کے عقائد : اس فرقہ کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ یہ تین نمازیں پڑھتے تھے۔ اس زمانہ میں صابیوں کے جانشین پرویزی اور چکڑالوی ہیں۔ چکڑالوی بھی تین نمازوں کے قائل ہیں ان کے بعض لوگ دو نمازیں پڑھتے ہیں اور بعض صرف ایک۔ یہ سب گمراہ فرقے ہیں اسی طرح پرویز کا عقیدہ یہ ہے کہ موجودہ نماز کی کوئی حقیقت نہیں۔ صحیح نماز وہ ہوگی جو حکومت مقرر کریگی۔ صابیوں کی اور بھی بہت سی تفصیلات ملتی ہیں۔ مثلاً ان کا عقیدہ ہے کہ مردے کو کوئی شخص ہاتھ لگا دے۔ تو اس کے لیے غسل ضروری ہوجاتا ہے یہ لوگ گدھے اور کتے کے گوشت کو تو نہیں کھاتے مگر اس کے ساتھ ساتھ اونٹ اور پنجے دار جانور کے گوشت کو بھی یہودیوں کی طرح حرام سمجھتے ہیں۔ یہ پیاز اور باقلی کو بھی حرام سمجھتے ہیں۔ مار ماہی ، یا مار مچھلی یعنی سانپ کی مانند مچھلی بھی ان کے ہاں حرام ہے۔ یہ لوگ شراب کو حلال اور جائز سمجھتے ہیں۔ مگر نشے کو حرام گردانتے ہیں۔ طلاق کے متعلق ان کا شرعی مسئلہ یہ ہے کہ حاکم وقت کی اجازت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی۔ ان کے ہاں ایک سے زیادہ نکاح بھی جائز نہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک وقت میں صرف ایک عورت سے ہی نکاح ہو سکتا ہے۔ شاہ عبد العزیز (رح) نے صابیوں کے مختلف ہیکلوں کی شکل و صورت کا بھی تذکرہ کیا ہے مثلاً وہ فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی ص 269 پارہ 1) کہ یہ لوگ ملت اولیٰ (First Cause) یعنی تخلیق پر بھی ہیکل بناتے ہیں۔ عقل کا ہیکل الگ ہوتا ہے۔ سیاست کا الگ۔ اسی طرح صورت کا ہیکل بناتے ہیں اور پھر نفس کا ہیکل گول شکل کا بناتے ہیں۔ زحل سیارے کا ہیکل مسدس شکل کا ہوتا ہے۔ اور مشتری کا ہیکل مثلث کا۔ آفتاب کا ہیکل مربع شکل کا ہوتا ہے۔ اور مہتاب کا ہیکل مثمن یعنی آٹھ پہلو کا ہوتا ہے۔ یہ لوگ قیامت کا بالکل انکار کرتے ہیں۔ اس کی بنائے ان کا عقیدہ یہ ہے کہ چھتیس ہزار چار سو پچیس سال کا ایک دور ہوتا ہے جب ایک دور ختم ہوجاتا ہے تو پھر ہر ذی روح کا ایک ایک جوڑا پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً انسان ، چرند ، پرند ، کیڑے مکوڑے وغیرہ ہر ایک کا ایک جوڑا پیدا ہوتا ہے۔ جس سے آئندہ نسل چلتی ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ موجودہ دور جب تک موجود ہے یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ اس کے بعد یہ تناسخ کی شکل میں تبدیل ہوجائے گا۔ اور پھر دوسرا دور شروع ہوجائے گا۔ علی ہذا القیاس ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں کلدانیوں کی ایک بہت بڑی تہذیب گندی ہے اس کا مرکز بابل شہر تھا۔ جو کہ ہم و بیش ایک سو میل کے رقبے میں پھیلا ہوا تھا۔ یہ شہر بغداد سے قریباً ستر یا سو میل دور تھا۔ اس سے پہلے آشوریوں کی تہذیب کا دور دورہ تھا۔ وہ ختم ہوئی ہو تو کلدانی تہذیب کو عروج حاصل ہوا۔ انہیں کے مقابلے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھیجا تھا۔ آپ وہاں تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ مگر مجبور ہو کر وہاں سے ہجرت کی اور شام و فلسطین کو مرکز بنایا۔ پھر خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے مکر مکرمہ آئے۔ تو صابیوں کی طرح یہ کلدانی بھی ستاروں اور روحیانیت کے قائل تھے۔ اور ان کا قبلہ بنا کر ان کی طرف سجدہ کرتے تھے ۔ حنیفی بمقابلہ صابی : حضرت مولانا عبید اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں (1 ) کہ دنیا میں دو قسم کے مذاہب ہیں۔ ایک حنیفی اور دوسرا صابی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک صابی دور تھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد دور حنیفیت شروع ہوچکا ہے اب حنیفیت کی آگے تین شاخیں ہیں۔ یعنی مسلمان یہود اور نصاری۔ ان میں سے صرف مسلمان حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین (ملت) پر قائم ہیں ۔ باقی دونوں گروہ اصل دین سے ہٹ چکے ہیں۔ دور ابراہیمی سے پہلے جو صابی گروہ تھا۔ وہ اب بھی موجود ہے۔ آگے اس کی بھی تین شاخیں ہیں۔ یعنی مجوس ، برہمن اور بدھ ، مجوسیوں کو زیادہ تر عروج ایران میں ہوا۔ وہاں ان کی تاریخی حیثیت مسلم ہے۔ تاریخ کی ایک مشہور کتاب ایران بعہد ساسانیاں میں موجود ہے۔ کہ مجوس کی بھی دو قومیتیں ہیں ایک کا نام ایرج ہے۔ اور دوسری کا طور۔ قدیم زمانے میں ایران کے بادشاہ فرید ون کے دو بیٹے ایرج اور طور تھے۔ انہیں کے نام پر مجوس کی دو شاخیں پھیل گئیں ۔ مجوسی بھی دراصل اہل کتاب تھے۔ مگر ہندوؤں کی طرح انہوں نے بھی مذہب کو بگاڑ دیا۔ حضرت علی ؓ کی روایت میں آتا ہے (2 ۔ تحفۃ الاحوزی ج 2 ص 393 ، بحوالہ مصنف عبد الرزاق) کہ مجوسیوں کے کسی بادشاہ نے اپنی بہن کے ساتھ زنا کیا۔ اور پھر اسے جائز قرار دینے کے لیے وقت کے علماء کو ساتھ ملایا۔ خود غرض مفتیوں اور عالموں نے بادشاہ کے حق میں فتویٰ دے دیا کہ ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ آدم (علیہ السلام) کی شریعت میں بھی تو بہن کے ساتھ نکاح جائز تھا۔ گویا مجوسیت میں اس قسم کی بےحیائی بھی روا تھی حتی کہ ماں کے ساتھ نکاح بھی جائز سمجھتے ہیں مجوسیوں کی دوسری شاخ برہمن ہے۔ جو ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور تیسرے بدھ ہیں جو چین اور جاپان میں آباد ہیں۔ یہ سب کی سب صابی امتیں ہیں۔ ایمان باللہ : ان چار گروہوں یعنی اہل ایمان ، یہود ، نصاریٰ اور صابی کا تذکرہ کرکے اب وہ اصول بتائے جا رہے ہیں ۔ جن پر عمل پیرا ہو کر نجات حاصل ہو سکتی ہے تو فرمایا ان چاروں گروہوں میں سے “ من امن باللہ ” جو شخص بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا۔ یعنی کوئی شخص کسی بھی گروہ سے تعلق رکھتا ہو۔ کتنا بڑا کافر اور مجرم ہو۔ بدترین قسم کا ظالم ہو۔ اگر اس نے صدق دل سے توبہ کرلی۔ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان لے آیا۔ تو اس کی توبہ قبول ہوجائے گی۔ اور وہ نجات حاصل کرلے گا۔ ایمان میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانا کافی نہیں۔ بلکہ اس کی صفات۔ اس کی تقدیر وحدانیت۔ اس کے انبیاء (علیہم السلام) اور اس کے فرشتوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ حجۃ اللہ البالغۃ ) کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ خدا نبی نہیں بھیجتا یا حکم جاری نہیں کرتا تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص اگر بغیر توبہ کے مرگیا ، تو وہ جہنمی ہے۔ نبی بھیجنا ، حکم جاری کرنا ، شریعت دینا یہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کا انکار بھی دوسرے معنوں میں اللہ تعالیٰ کی صفت کا انکار ہے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیض پہنچانے والی مخلوق ہے۔ یہ لطیف اجسام والی نورانی ، پاک اور منزہ مخلوق ہے۔ ان پر ایمان لانا بھی ضروری ہے ایمان بالاخرۃ : فرمایا ایمان حاصل کرنے کا دوسرا قانون ایمان بالاخرۃ ہے۔ “ والیوم الاخر ” یہ وہی دن ہے جو اس جہان کا آخری دن (Last Day of the World) ہوگا پچاس ہزار سال کے اس دن میں تمام انسانوں کا حساب کتاب ہوگا۔ اور اس کے بعد دوسرا دور شروع ہوجائے گا۔ گویا قیامت کے دن کو ماننا بھی اتنا ہی لازم ہے ۔ جتنا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا۔ جو شخص روز جزا کا انکار کرے گا۔ وہ بھی کفر میں داخل ہوجائے گا۔ اعمال صالحہ : ایمان باللہ اور ایمان بالاخرۃ کے بعد تیسرا قانون “ وعمل صالحا ” ہے ۔ یعنی نجات کا حق دار وہ شخص ہوگا۔ جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ بھی انجام دیتا ہو۔ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فرماتے ہیں کہ بنیادی طور پر اعمال صالحہ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج ہیں۔ فقہائے کرام البتہ جہاد کو بھی بنیادی اعمال میں شمار کرتے ہیں۔ تو جو لوگ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے ساتھ ان بنیادی اعمال کو بھی انجام دیں گے۔ ان کے متعلق فرمایا “ فلہم اجرھم عند ربھم ” ان کو ان کے رب کے پاس بدلہ ملے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا “ ولا خوف علیہم ولاھم یحزنون ” ان پر مستقبل میں کوئی خوف نہیں ہوگا۔ اور نہ وہ سابقہ اعمال پر غمگین ہوں گے۔ جیسا کہ روایات میں آتا ہے۔ کہ قیامت کے دن سب لوگ خوفزدہ ہوں گے۔ مگر یہ طبعی اور عارضی ہوگا۔ بالآخر وہ ہر قسم کے خوف سے بچ جائیں گے۔ بعض اوقات دنیا میں بھی بعض نیک لوگوں کو مصائب برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اور وہ حلال و حزن سے دو چار ہوتے ہیں مگر یہ عارضی چیز ہے۔ نتیجے کے اعتبار سے ایسے لوگوں کو خوف نہیں ہوگا۔ حتیٰ کہ حشر والے دن کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ لایحزنھم الفزع الاکبر ” بڑے دن کی گھبراہٹ بھی انہیں خوفزدہ نہیں کرے گی ۔ اللہ ان کے دل کو سکون کی دولت سے مالا مال کرے گا۔ “ وتتلقھم الملئکۃ ” فرشتے ملاقات کریں گے تو انہیں تسلی دیں گے۔ کہ گھبراؤ مت اب تمہارے لیے امن ہی امن ہے۔ اور آئندہ بھی کوئی خوف نہیں ہوگا۔ کہ ہم سے کسی وقت کوئی نعمت چھن جائے گی۔ یا کوئی تکلیف پہنچے گی۔ وہ لوگ دنیا میں انجام دیے گئے اپنے کسی عمل پر بھی غمگین نہیں ہوں گے۔ الغرض ! اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نجات کا یہ قانون سمجھا دیا کہ نجات کسی خاص فرقہ گروہ کے لیے مختص نہیں ہے۔ ایمان کا دعویدار ہو یا یہودیت کا۔ کوئی عیسائی مذہب رکھتا ہے یا صابی۔ نجات کے لیے واحد قانون یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے۔ آخرت کے دن پر ایمان لائے ۔ اللہ تعالیٰ کے نبیوں ، کتابوں اور فرشتوں پر ایمان لائے اور عمل صالحہ انجام دے۔ اس کے بغیر نجات نہیں ہے۔ ہر گروہ اپنے ہی فرقے کو افضل اور حق پر سمجھتا ہے۔ مگر نجات کا دارومدار اسی قانون پر ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا۔ آگے قانون کی مزید تشریح آرہی ہے۔
Top