Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 61
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَ قِثَّآئِهَا وَ فُوْمِهَا وَ عَدَسِهَا وَ بَصَلِهَا١ؕ قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ هُوَ اَدْنٰى بِالَّذِیْ هُوَ خَیْرٌ١ؕ اِهْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْ١ؕ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ١ۗ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۠ ۧ
وَاِذْ قُلْتُمْ
: اور جب تم نے کہا
يَا مُوْسٰى
: اے موسیٰ
لَنْ نَصْبِرَ
: ہم ہرگز صبر نہ کریں گے
عَلٰى طَعَامٍ
: کھانے پر
وَاحِدٍ
: ایک
فَادْعُ
: دعا کریں
لَنَا
: ہمارے لئے
رَبَّکَ
: اپنا رب
يُخْرِجْ
: نکالے
لَنَا
: ہمارے لئے
مِمَّا
: اس سے جو
تُنْبِتُ
: اگاتی ہے
الْاَرْضُ
: زمین
مِنْ
: سے (کچھ)
بَقْلِهَا
: ترکاری
وَقِثَّائِهَا
: اور ککڑی
وَفُوْمِهَا
: اور گندم
وَعَدَسِهَا
: اور مسور
وَبَصَلِهَا
: اور پیاز
قَالَ
: اس نے کہا
اَتَسْتَبْدِلُوْنَ
: کیا تم بدلنا چاہتے ہو
الَّذِیْ
: جو کہ
هُوْ اَدْنٰی
: وہ ادنی
بِالَّذِیْ
: اس سے جو
هُوْ
: وہ
خَيْرٌ
: بہتر ہے
اهْبِطُوْا
: تم اترو
مِصْرًا
: شہر
فَاِنَّ
: پس بیشک
لَكُمْ
: تمہارے لئے
مَّا سَاَلْتُمْ
: جو تم مانگتے ہو
وَضُرِبَتْ
: اور ڈالدی گئی
عَلَيْهِمُ
: ان پر
الذِّلَّةُ
: ذلت
وَالْمَسْکَنَةُ
: اور محتاجی
وَبَآءُوْا
: اور وہ لوٹے
بِغَضَبٍ
: غضب کے ساتھ
مِنَ اللہِ
: اللہ کے
ذٰلِکَ
: یہ
بِاَنَّهُمْ
: اس لئے کہ وہ
کَانُوْا يَكْفُرُوْنَ
: جو انکار کرتے تھے
بِاٰيَاتِ اللہِ
: اللہ کی آیتوں کا
وَيَقْتُلُوْنَ
: اور قتل کرتے
النَّبِيِّیْنَ
: نبیوں کا
بِغَيْرِ الْحَقِّ
: ناحق
ذٰلِکَ
: یہ
بِمَا
: اس لئے کہ
عَصَوْا
: انہوں نے نافرمانی کی
وَّکَانُوْا
: اور تھے
يَعْتَدُوْنَ
: حد سے بڑھنے والوں میں
اور جب کہا تم نے اے موسیٰ ! ہم ہرگز صبر نہیں کریں گے ایک ہی قسم کے کھانے پر۔ پس اپنے پروردگار سے ہمارے لیے دعا کر کہ وہ ہمارے لیے وہ چیزیں نکالے جن کو زمین اگاتی ہے۔ اپنی تر کاریوں سے اور اپنی ککڑیوں سے اور اپنے گندم سے اور اپنے مسور سے اور اپنے پیاز سے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ، کیا تم بدل میں لیتے ہو اس چیز کو جو ادنیٰ ہے اس سے جو بہتر ہے۔ کسی شہر میں اتر جاؤ بیشک تمہارے لیے وہی کچھ ہوگا۔ جو تم نے مانگا۔ اور ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کی گئی۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کا عذاب لیکر لوٹے اس وجہ سے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے۔ اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے۔ یہ بات اس وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے نافرمانی کی۔ اور وہ حد سے آگے نکل جاتے تھے
ربط آیات : اللہ تعالیٰ کے بنی اسرائیل پر انعامات ، ان کی سرکشی اور تمرد اور پھر ان پر اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کا تذکرہ گزشتہ دروس سے چلا آرہا ہے۔ فرعون کے مظالم ، بنی اسرائیل کا مصر سے خروج ۔ پھر چالیس سال تک صحرائے سینا میں سرگردانی۔ شام و فلسطین میں داخلہ۔ من وسلویٰ اور پانی کی فراہمی کے تمام واقعات تفصیلاً آچکے ہیں۔ اب اس آیت میں جس واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ وہ بھی بنی اسرائیل کو صحرائے سینا میں ہی پیش آیا۔ غلامی کے اثرات : دراصل مسلسل غلامی کی وجہ سے بنی اسرائیل کی اخلاقی قدریں بالکل ختم ہوچکی تھیں۔ ان میں طرح طرح کی کمزوریاں پیدا ہوچکی تھیں۔ اسی غلامی کے متعلق ڈاکٹر اقبال مرحوم نے کہا تھا ۔ ؎ غلامی میں بدل جاتا ہے ۔ قوموں کا ضمیر مقصد یہ کہ جب کوئی قوم کسی دوسری قوم کی غلام بن جاتی ہے۔ تو پھر نہ ان کا جسم اپنا ہوتا ہے۔ اور نہ ان کا ذہن اپنا ذہن ہوتا ہے۔ بلکہ یہ دونوں چیزیں غالب قوم کی تابع ہوجاتی ہیں۔ قرآم پاک میں بھی موجود ہے “ عبدا مملوکا لایقدر علی شیء ” غلام مملوک کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ اس کا ضمیر تک بدل جاتا ہے۔ اس کی رائے اپنی رائے نہیں رہتی۔ اس کے اخلاق کا جنازہ نکل جاتا ہے چونکہ بنی اسرائیل لمبے عرصے تک فرعون کے غلام رہ چکے تھے۔ لہٰذا مذکورہ ساری کمزوریاں ان میں پائی جاتی تھیں بنی اسرائیل کو صحرا میں رکھنے میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی کہ وہاں رہ کر ان میں جفاکشی پیدا ہو۔ بھوک پیاس اور مشقت برداشت کرنے کی قوت پیدا ہو۔ اور غلامی کے دور کی کمزوریاں دور ہوجائیں۔ تاکہ یہ لوگ آئندہ زمانے میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ کسی ملک کے وارث بن کر نظم و نسق چلانے کے اہل بن سکیں۔ مگر ستر سال تک یہ لوگ غلامی کے اثرات میں گرفتار رہے۔ اپنے اصلی مقام سے غافل رہے۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے باربار کہنے کے باوجود ذہنی غلامی کے خول سے باہر نہ نکل سکے۔ جب پرانی نسل ختم ہوئی تو نئی نسل نے کروٹ لی۔ خواب غفلت سے بیدار ہوئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد یوشع (علیہ السلام) نبی ہوئے۔ تو ان کی قیادت میں بنی اسرائیل کی نئی نسل نے شام و فلسطین کو فتح کیا “ مشارق الارض ومغاربھا ” مشرق اور مغرب کے سارے علاقے اللہ تعالیٰ نے ان کو دلا دیے۔ طعام کی تبدیلی : ارشاد ہوتا ہے “ واذا قلتم یموسی لن نصبر علی طعام واحد ” اے بنی اسرائیل اس واقعہ کو یاد کرو۔ جب تم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا۔ کہ ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے۔ صحرائے سینا میں بلا مشقت من وسلویٰ کھاتے کھاتے بنی اسرائیل کے مزاج بھر چکے تھے۔ اور وہ کھانے میں تبدیلی چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شکایت کی کہ ہم ایک کھانے پر ہرگز صبر نہیں کرسکتے۔ حالانکہ حقیقت میں من اور سلویٰ دو مختلف کھانے تھے۔ مگر مسلسل یہی کھانا کھانے کی وجہ سے انہوں نے انہیں ایک ہی کھانا کہا۔ کہ اب ہم زیادہ دیر تک اس کھانے سے شکم پر ہی نہیں کرسکتے۔ اسرائیلی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے (1 ۔ تفسیر حقانی ج 2 ص 156 مطبوعہ دہلی) وہ کہنے لگے کہ ہمیں تو مصر کی مچھلی یاد آرہی ہے۔ وہاں ہمیں مختلف قسم کی سبزیاں اور تر کاریاں میسر آتی تھیں۔ اور یہاں پر ایک ہی قسم کا کھانا کھا کھا کر تنگ آچکے ہیں۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) “ فادع لنا ربک ” آپ ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کریں۔ “ یخرج لنا ” کہ وہ نکالے ہمارے لئے “ مما تنبت الارض ” وہ چیزیں جن کو زمین اگاتی ہے۔ “ من بقلھا ” اپنی تر کاریوں سے “ وقثائھا ” اور اپنی ککڑیوں سے “ وفومھا ” اور گندم سے “ وعدسھا ” اور مسور سے “ وبصلھا ” اور اپنے پیاز سے۔ یعنی اے موسیٰ ! ہمیں تو ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ اپنے رب سے کہہ کر ہمیں یہ دلوایے۔ من وسلویٰ جیسی قوت بخش غذا سے ان کا جی بھر گیا تھا۔ اور وہ اس قسم کی چٹ پٹی چیزوں سے اپنے منہ کا ذائقہ بدلنا چاہتے تھے۔ بنی اسرائیل کی اس فرمائش پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی سرزنش کی۔ قال اور فرمایا “ اتستبفلون الذی ھو ادنی بالذی ھو خیر ” کیا تم ایک ادنیٰ اور گھٹیا چیز کو اعلیٰ اور بڑھیا چیز سے بدلنے کے خواہش مند ہو۔ تم کتنے بیوقوف ہو۔ کہ اللہ تعالیٰ تو تمہیں من وسلویٰ جیسی بہترین غذا فراہم کر رہا ہے۔ اور تم سبزی تر کاری اور لہسن پیاز کے پیچھے پھر رہے ہو۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر مظہری ج 1 ص 76) کہ اللہ تعالیٰ نے بالکل مفت من وسلویٰ دے رکھا تھا۔ اور پھر وہ حساب و کتاب سے بری تھے۔ ان چیزوں کا کوئی حساب کتاب نہیں تھا۔ پھر ان کے مطلوبہ لہسن پیاز پر تو حساب کتاب بھی ہوگا۔ یہ بھی ان کے گھاٹے کا سودا تھا۔ مگر وہ اسی پر مصر تھے ۔ کاشتکاری مشقت طلب کام ہے : جب بنی اسرائیل کا اصرار حد سے بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے کہلوایا۔ کہ اگر تم یہی چاہتے ہو ۔ “ اھبطوا مصرا ” تو کسی شہر میں اتر جاؤ۔ وہاں جاکر کھیتی باڑی کرو۔ ہل چلاؤ۔ آبپاشی کرو۔ اور اپنے لیے اپنی مرضی کی چیزیں کاشت کرو۔ “ فان لکم ما سالتم ” پس جو کچھ تم چاہتے ہو ۔ تمہیں مل جائے گا۔ البتہ ذرا محنت مشقت کرنی پڑے گی۔ بعض فرماتے ہیں (1 ۔ ) کہ اعمش (رح) کی قراءۃ میں “ اھبطوا مصر ” واپس مصر چلے جاؤ وہاں جاکر اسی طرح کھیتی باڑی کرو۔ جس طرح فرعونی کرتے تھے اور سبزیاں وغیرہ حاصل کرلو۔ مگر دوسری قراءۃ یعنی “ مصرا۔ ر ” کی تنوین کے ساتھ زیادہ راجح ہے ۔ یعنی کسی شہر یا قصبے میں اتر جاؤ۔ اور کاشتکاری کرو۔ تم اپنی مطلوبہ چیزیں حاصل کرلو گے۔ تم ایک اعلیٰ چیز چھوڑ کر اس کے بدلے میں معمولی چیزیں چاہتے ہو۔ یہ چیزیں تمہیں محنت و مشقت کے بعد حاصل ہوں گی۔ پیشے بلحاظ فضیلت : حضرت ابو امامہ ؓ کی روایت میں آتا ہے (2 ۔ ) کہ حضور ﷺ نے کسی گھر میں ہل کا پھال دیکھا تو فرمایا۔ یہ جہاں بھی ہو ، وہاں ذلت کا دور دورہ ہوتا ہے کاشتکاری بذات خود ایک مشقت طلب کام ہے۔ اس کے علاوہ مالیہ اور آبیانہ وغیرہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے شہری تہذیب سے دور انسان بہت سی اچھی چیزوں سے محروم رہتا ہے۔ “ اھبطوا مصرا ” تو کسی شہر میں اتر جاؤ۔ وہاں جاکر کھیتی باڑی کرو۔ ہل چلاؤ آبپاشی کرو۔ اور اپنے لیے اپنی مرضی کی چیزیں کاشت کرو۔ “ فان لکم ما سالتم ” پس جو کچھ تم چاہتے ہو ۔ تمہیں مل جائے گا۔ البتہ ذرا محنت مشقت کرنی پڑے گی۔ بعض فرماتے ہیں (1 ۔ ابن کثیر ج 1 ص 102 ، درمنثور ج 1 ص 73) کہ اعمش (رح) کی قراءۃ میں “ اھبطوا مصر ” واپس مصر چلے جاؤ۔ وہاں جاکر اسی طرح کھیتی باڑی کرو۔ جس طرح فرعونی کرتے تھے۔ اور سبزیاں وغیرہ حاصل کرلو۔ مگر دوسری قراءۃ یعنی “ مصرا۔ ر ” کی تنوین کے ساتھ زیادہ راجح ہے۔ یعنی کسی شہر یا قصبے میں اتر جاؤ۔ اور کاشتکاری کرو۔ تم اپنی مطلوبہ چیزیں حاصل کرلو گے۔ تم ایک اعلیٰ چیز چھوڑ کر اس کے بدلے میں معمولی چیزیں چاہتے ہو۔ یہ چیزیں تمہیں محنت و مشقت کے بعد حاصل ہوں گی۔ پیشے بلحاظ فضیلت : حضرت ابو امامہ ؓ کی روایت میں آتا ہے (2 ۔ بخاری ج 1 ص 312) کہ حضور ﷺ نے کسی گھر میں ہل کا پھال دیکھا تو فرمایا ۔ یہ جہاں بھی ہو ، وہاں ذلت کا دور دورہ ہوتا ہے کاشتکاری بذات خود ایک مشقت طلب کام ہے۔ اس کے علاوہ مالیہ اور آبیانہ وغیرہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ شہری تہذیب سے دور انسان بہت سی اچھی چیزوں سے محروم رہتا ہے۔ کاشتکاری ایک اچھا پیشہ بھی شمار ہوتا ہے۔ اس کی تعریف بھی آئی ہے۔ اس پیشے کو فضیلت کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔ بہترین پیشہ جہاد ہے۔ اس کے ذریعے حاصل ہونے والا مال پاکیزہ ترین ہوتا ہے۔ دوسرے نمبر پر تجاوت کا پیشہ ہے۔ رزق کا زیادہ تر حصہ اللہ تعالیٰ نے تجارت میں ہی رکھا ہے۔ اس کے بعد کاشتکاری یا کھیتی باڑی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا (3 ۔ بخاری ج 1 ص 312 ، مسلم ج 1 ص 16) کہ کوئی شخص کوئی فصل کاشت کرتا ہے۔ کوئی دانہ بوتا ہے یا پودا یا درخت لگاتا ہے۔ اس کے پھل میں سے اگر کوئی جانور وغیرہ کھائے گا تو بونے والے کو صدقے کا ثواب ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے کاشتکاری کو یہ فضیلت بخشی ہے۔ اس طرح فرمایا چوتھے نمبر پر صنعت و حرفت کا پیشہ ہے۔ دینی نقط نگاہ سے مختلف پیشوں کی یہ درجہ بندی ہے۔ یہودیوں کی ذلت ورسوائی : بنی اسرائیل کے جتنے بھی واقعات ذکر کئے جا رہے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ اسی ترتیب کے ساتھ واقع ہوئے ہوں جس ترتیب کے ساتھ انہیں بیان کیا گیا ہے۔ بلکہ ان کا بیان محض عبرت اور تنبیہ کے لیے ہے کہ نوع انسانی ان واقعات سے سبق حاصل کرے۔ اور برائیوں سے اجتناب کرے۔ ان کے ضمن میں یہودیوں کو بار بار خطاب کیا جا رہا ہے کہ دیکھو تمہارے آباؤ اجداد میں یہ یہ خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ ان سے عبرت حاصل کرو۔ اور ایسی برائیوں سے باز آجاؤ ۔ انکی انہی نافرمانیوں کی وجہ سے “ وضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ ” ان پر ذلت اور محتاجی مسلط کردی گئی۔ مسکنت مال کی کمی کو کہا جاتا ہے۔ چناچہ ذلت ورسوائی کی لعنت ان پر اس وقت مسلط کی گئی کب وہ بحیثیت قوم عادی مجرم بن گئے۔ یہ عام مشہور بات ہے کہ یہودی دنیا میں امیر ترین قوم ہیں۔ مگر یہ درست نہیں مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عثمانی ص 12 مطبوعہ دار التصنیف کراچی ، تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 265) کہ یہودیوں میں بھی مال و دولت تھوڑے لوگوں کے پاس ہوتی ہے۔ ورنہ اکثریت ان کی بھی محتاج ہی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر یہودی مالدار بھی ہوں تو پھر بھی ان کی حالت خستہ ہی ہوتی ہے۔ اور وہ اپنے آپ کو مسکین ہی ظاہر کرتے ہیں۔ حکومت سے محرومی بھی ذلت و رسوائی کی نشانی ہے۔ یہ قوم دو تین ہزار سال تک حکومت سے محروم رہی۔ دنیا میں کسی جگہ ان کی سلطنت نہیں تھی۔ یہ لوگ اتنے لمبے عرصہ تک دربدر مارے مارے پھرتے رہے۔ ان کو کسی دوسری حکومت نے بھی برداشت نہ کیا۔ جرمنی والے ان کے دشمن۔ اٹلی والے ان کے دشمن۔ یہ سازشی ذہن کے لوگ ہیں۔ انہیں کوئی بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ آج اعتراض ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا دعوے تھا کہ دنیا میں یہودیوں کو کبھی اقتدار نصیب نہیں ہوگا۔ ان کا کوئی ملک نہیں ہوگا۔ مگر ان کی سلطنت قائم ہوچکی ہے۔ “ معاذ اللہ قرآن پاک کا دعویٰ غلط ہوگیا ہے۔ ہرگز نہیں۔ چوتھے پارے میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس قوم کو کبھی اقتدار نصیب نہیں ہوگا۔ مگر دو شرطوں کے ساتھ “ الا بحبل من اللہ وحبل من الناس ” یعنی یا تو اللہ تعالیٰ کی رسی کو پکڑ لینے سے یا پھر لوگوں کی رسی کو تھام لینے کی وجہ سے ہاں قرب قیامت میں دجال کے ظہور کے وقت ان کو عروج حاصل ہوگا۔ تو اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کے تو یہ قریب بھی نہیں جاتے۔ البتہ انہوں نے لوگوں کی رسی کو پکڑ رکھا ہے۔ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس وغیرہ کے دامن سے چمٹے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان کو وطن بھی حاصل ہوگیا ہے۔ اور باقی دنیا کو آنکھیں بھی دکھانے لگے ہیں۔ ان کی سلطنت کا قیام محض امریکہ کی بےایمانی کا نتیجہ ہے۔ آج امریکہ اگر اپنا ہاتھ اٹھالے تو یہودی سلطنت دو دن بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ الغرض ! اگر آج یہودیوں کو کسی خطہ زمین پر عروج حاصل ہوے تو وہ بھی قرآن پاک کے بیان کردہ اصول کے مطابق ہی ہے۔ ورنہ اس قوم کی حقیقت یہی ہے۔ “ وباء وبغضب من اللہ ” کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہی لے کر لوٹے۔ آیات الٰہی کا انکار : فرمایا “ ذلک بانھم کانوا یکفرون بایت اللہ ” بنی اسرائیل کی ذلت و رسوائی کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ جب کوئی انسان نافرمانی کرتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی ہے۔ ابلیس کا بھی یہی حال ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ ان علیک لعنتی الی یوم الدین ” جاؤ تم پر قیامت تک میری لعنت پرستی رہے گی اسی طرح کافروں کے متعلق فرمایا کہ جو کفر کی حالت میں مرگیا “ اولئک علیھم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین ” ان پر اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت مسلط ہوگئی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ خدا تعالیٰ کے احکام کو ٹھکراتے تھے۔ چناچہ اس کا نتیجہ ذلت و رسوائی کے سوا اور کیا ہوگا۔ انبیاء (علیہم السلام) کا قتل : بنی اسرائیل پر لعنت مسلط ہونے کی دوسری وجہ یہ بیان فرمائی کہ “ ویقتلون النبین بغیر الحق ” کہ وہ انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ میں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 266 ، ابو السعود ج 1 ص 85 ، تفسیر مدارک ج 1 ص 53) ملتا ہے کہ انہوں نے پر میا نبی شعیا نبی۔ حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا (علیہم السلام) اور اللہ تعالیٰ کے دیگر سینکڑوں نبیوں کو قتل کیا۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے (2 ۔ درمنثور ج 1 ص 73 ، ابن کثیر ج 1 ص 102) کہ بنی اسرائیل نے ایک دن میں خدا تعالیٰ کے تین سو انبیاء (علیہم السلام) کو شہید کیا۔ جب اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں نے ایسا کرنے سے منع کیا اور انہیں طعن و ملامت کی تو ان کو بھی شہید کردیا گیا۔ یہ قوم اس قسم کی عادی مجرم بن چکی تھی جس کی وجہ سے یہ مغضوب اور طعون ٹھہری۔ یہاں پر “ بغیر الحق ” پر اعتراض وارد ہوتا ہے۔ کہ نبیوں کے ناحق قتل کا کیا مطلب ہے ؟ جب کہ نبی کا قتل تو بلاشبہ ناحق ہی ہوگا ۔ نبی کا قتل برحق تو ہو ہی نہیں سکتا۔ تو مفسرین کرام اس اشکال کا یہ جواب دیتے ہیں (1 ۔ ابو السعودج 1 ص 85 ، مدارک ج 1 ص 52 ، مظہری ج 1 ص 76) کہ یہاں پر ناحق کا لفظ اس لیے استعمال ہوا ہے کہ قاتل خود سمجھتے تھے کہ وہ غلط کام کر رہے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے (2 ۔ مسند احمد ج 1 ص 407 ، ابن کثیر ج 1 ص 103 ، تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 266) کہ سخت عذاب روز قیامت اس شخص کو ہوگا جس نے کسی نبی کو قتل کیا ہوگا یا جس کو کسی نبی نے قتل کیا ہوگا ۔ دونوں قسم کے اشخاص سخت ترین سزا کے مستحق ہوں گے۔ امیر بن خلف کی مثال موجود ہے کہ حضور ﷺ نے خود اپنے نیزے سے اس ملعون کو مارا تھا۔ مشرکین مکہ میں سے یہ بڑا خرانٹ قسم کا کافر تھا ؟ نافرمانی اور حد سے تجاوز : بغرض ! سابقہ بنی اسرائیل کی خرابیاں اور ان کی سزائیں بیان کرکے حضور نبی کریم ﷺ کے زمانے کے بنی اسرائیل کو سمجھایا جا رہا ہے۔ کہ اب بھی سمجھ جاؤ۔ خدا کا آخری نبی آگیا ہے۔ “ امنوا بما انزلت ” جو کچھ میں نے نازل کیا ہے۔ اس پر ایمان لے آؤ معافی کا دروازہ اب بھی کھلا ہے اگر تم ٹھیک ہوجاؤ ۔ اپنے اخلاق و اعمال درست کرلو۔ تو تم آج بھی عروج حاصل کرسکتے ہو۔ مگر وہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی کو تسلیم کرنے والے نہیں تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر ہمیشہ کے لیے لعنت مسلط کردی گئ ۔ انکار آیات اور قتل انبیاء کے بعد تیسری وجہ یہ بیان فرمائی۔ “ ذلک بما عصوا ” کہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔ عصیان کا معنی اللہ تعالیٰ کے حقوق کو ضائع کرنا ہے۔ وہ لوگ حقوق اللہ کی بالکل پرواہ نہیں کرتے تھے۔ اس کے کسی حکم کی تعمیل کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ نیز یہ کہ “ وکانوا یعتدون ” وہ حد سے نکل جاتے تھے۔ تعدی کا معنی انسانوں کی جانوں اور مالوں کا تلف کرنا ہے۔ بنی اسرائیل کا ذوق ہی بدل چکا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ صحیح مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ نیکی اور بدی میں تمیز کرتا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے (1 ۔ جامع صغیر مع شرح فیض القدیر ص 374 بحوالہ مستدرک ابن حبان و طبرانی و بیہقی شعب الایمان و مسند احمد ج 5 ص 250) “۔۔۔ حسنتک وسآء تک سیئتک ” جب تمہاری نیکی تمہیں اچھی لگے۔ اور برائی سے نفرت ہو۔ تو سمجھ لو کہ تم مومن ہو اور اگر نیکی اور بدی میں تمیز باقی نہیں رہی تو سمجھ لو کہ تمہیں روحانی بیماری لاحق ہوگئی ہے۔ اس کی مثال انسان جسم کے ساتھ دی جاسکتی ہے۔ جب آدمی تندرست ہوتا ہے تو اس کی زبان کا ذائقہ درست ہوتا ہے۔ اسے میٹھی چیز میٹھی لگتی ہے اور کڑوی چیز کڑوی لگتی ہے مگر جب جسم بیمار ہوجاتا ہے تو اس کی زبان کا ذائقہ بھی بدل جاتا ہے۔ اسے میٹھی چیز بھی کڑوی محسوس ہوتی ہے۔ مقصد یہ کہ اگر کوئی شخص نیکی اور بدی میں تمیز کرتا ہے تو وہ صحیح مومن ہے۔ ورنہ وہ بیمار ہے۔ بنی اسرائیل کے لوگ بیمار تھے۔ وہ تعدی کی بیماری میں مبتلا تھے۔ نہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کا پاس رکھتے تھے۔ اور نہ بندوں کے حقوق کا خیال کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے معصوم نبیوں کو قتل کیا۔ جو خدا تعالیٰ کی رحمت اور انسانوں کے لیے نمونہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی کھلی خلاف ورزی ، اس کے احکام کو حیلوں ، بہانوں یا تاویلوں کے ذریعے ٹھکرانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ ان کی برائیوں کی تفصیلات سورة بقرہ ، سورة ال عمران ، سورة نساء اور مائدہ وغیرہ میں آرہی ہیں۔ ان کی برائیاں بیان کرکے مسلمانوں کو تنبیہہ کی جارہی ہے کہ کہیں تم بھی اسی قسم کی خرابیوں میں مبتلا نہ ہوجانا۔ “ ولا تکونوا کالذین قالوا سمعنا وھم لا یسمعون ” تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے کہا کہ ہم نے سن لیا۔ حالانکہ وہ انکار ہی کرتے رہے۔ اے مسلمانو ! اگر تم بھی انہیں لوگوں کی روش پر چلو گے تو تباہ ہوجاؤ گے۔ تمہاری صحت ایمانی بھی جاتی رہے گی۔ اور ذائقہ ایمانی بھی تبدیلی ہوجائے گا۔
Top