Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 61
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَ قِثَّآئِهَا وَ فُوْمِهَا وَ عَدَسِهَا وَ بَصَلِهَا١ؕ قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ هُوَ اَدْنٰى بِالَّذِیْ هُوَ خَیْرٌ١ؕ اِهْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْ١ؕ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ١ۗ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۠   ۧ
وَاِذْ قُلْتُمْ : اور جب تم نے کہا يَا مُوْسٰى : اے موسیٰ لَنْ نَصْبِرَ : ہم ہرگز صبر نہ کریں گے عَلٰى طَعَامٍ : کھانے پر وَاحِدٍ : ایک فَادْعُ : دعا کریں لَنَا : ہمارے لئے رَبَّکَ : اپنا رب يُخْرِجْ : نکالے لَنَا : ہمارے لئے مِمَّا : اس سے جو تُنْبِتُ : اگاتی ہے الْاَرْضُ : زمین مِنْ : سے (کچھ) بَقْلِهَا : ترکاری وَقِثَّائِهَا : اور ککڑی وَفُوْمِهَا : اور گندم وَعَدَسِهَا : اور مسور وَبَصَلِهَا : اور پیاز قَالَ : اس نے کہا اَتَسْتَبْدِلُوْنَ : کیا تم بدلنا چاہتے ہو الَّذِیْ : جو کہ هُوْ اَدْنٰی : وہ ادنی بِالَّذِیْ : اس سے جو هُوْ : وہ خَيْرٌ : بہتر ہے اهْبِطُوْا : تم اترو مِصْرًا : شہر فَاِنَّ : پس بیشک لَكُمْ : تمہارے لئے مَّا سَاَلْتُمْ : جو تم مانگتے ہو وَضُرِبَتْ : اور ڈالدی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الذِّلَّةُ : ذلت وَالْمَسْکَنَةُ : اور محتاجی وَبَآءُوْا : اور وہ لوٹے بِغَضَبٍ : غضب کے ساتھ مِنَ اللہِ : اللہ کے ذٰلِکَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لئے کہ وہ کَانُوْا يَكْفُرُوْنَ : جو انکار کرتے تھے بِاٰيَاتِ اللہِ : اللہ کی آیتوں کا وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے النَّبِيِّیْنَ : نبیوں کا بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق ذٰلِکَ : یہ بِمَا : اس لئے کہ عَصَوْا : انہوں نے نافرمانی کی وَّکَانُوْا : اور تھے يَعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھنے والوں میں
اور جب کہا تم نے اے موسیٰ ! ہم ہرگز صبر نہیں کریں گے ایک ہی قسم کے کھانے پر۔ پس اپنے پروردگار سے ہمارے لیے دعا کر کہ وہ ہمارے لیے وہ چیزیں نکالے جن کو زمین اگاتی ہے۔ اپنی تر کاریوں سے اور اپنی ککڑیوں سے اور اپنے گندم سے اور اپنے مسور سے اور اپنے پیاز سے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ، کیا تم بدل میں لیتے ہو اس چیز کو جو ادنیٰ ہے اس سے جو بہتر ہے۔ کسی شہر میں اتر جاؤ بیشک تمہارے لیے وہی کچھ ہوگا۔ جو تم نے مانگا۔ اور ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کی گئی۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کا عذاب لیکر لوٹے اس وجہ سے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے۔ اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے۔ یہ بات اس وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے نافرمانی کی۔ اور وہ حد سے آگے نکل جاتے تھے
ربط آیات : اللہ تعالیٰ کے بنی اسرائیل پر انعامات ، ان کی سرکشی اور تمرد اور پھر ان پر اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کا تذکرہ گزشتہ دروس سے چلا آرہا ہے۔ فرعون کے مظالم ، بنی اسرائیل کا مصر سے خروج ۔ پھر چالیس سال تک صحرائے سینا میں سرگردانی۔ شام و فلسطین میں داخلہ۔ من وسلویٰ اور پانی کی فراہمی کے تمام واقعات تفصیلاً آچکے ہیں۔ اب اس آیت میں جس واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ وہ بھی بنی اسرائیل کو صحرائے سینا میں ہی پیش آیا۔ غلامی کے اثرات : دراصل مسلسل غلامی کی وجہ سے بنی اسرائیل کی اخلاقی قدریں بالکل ختم ہوچکی تھیں۔ ان میں طرح طرح کی کمزوریاں پیدا ہوچکی تھیں۔ اسی غلامی کے متعلق ڈاکٹر اقبال مرحوم نے کہا تھا ۔ ؎ غلامی میں بدل جاتا ہے ۔ قوموں کا ضمیر مقصد یہ کہ جب کوئی قوم کسی دوسری قوم کی غلام بن جاتی ہے۔ تو پھر نہ ان کا جسم اپنا ہوتا ہے۔ اور نہ ان کا ذہن اپنا ذہن ہوتا ہے۔ بلکہ یہ دونوں چیزیں غالب قوم کی تابع ہوجاتی ہیں۔ قرآم پاک میں بھی موجود ہے “ عبدا مملوکا لایقدر علی شیء ” غلام مملوک کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ اس کا ضمیر تک بدل جاتا ہے۔ اس کی رائے اپنی رائے نہیں رہتی۔ اس کے اخلاق کا جنازہ نکل جاتا ہے چونکہ بنی اسرائیل لمبے عرصے تک فرعون کے غلام رہ چکے تھے۔ لہٰذا مذکورہ ساری کمزوریاں ان میں پائی جاتی تھیں بنی اسرائیل کو صحرا میں رکھنے میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی کہ وہاں رہ کر ان میں جفاکشی پیدا ہو۔ بھوک پیاس اور مشقت برداشت کرنے کی قوت پیدا ہو۔ اور غلامی کے دور کی کمزوریاں دور ہوجائیں۔ تاکہ یہ لوگ آئندہ زمانے میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ کسی ملک کے وارث بن کر نظم و نسق چلانے کے اہل بن سکیں۔ مگر ستر سال تک یہ لوگ غلامی کے اثرات میں گرفتار رہے۔ اپنے اصلی مقام سے غافل رہے۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے باربار کہنے کے باوجود ذہنی غلامی کے خول سے باہر نہ نکل سکے۔ جب پرانی نسل ختم ہوئی تو نئی نسل نے کروٹ لی۔ خواب غفلت سے بیدار ہوئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد یوشع (علیہ السلام) نبی ہوئے۔ تو ان کی قیادت میں بنی اسرائیل کی نئی نسل نے شام و فلسطین کو فتح کیا “ مشارق الارض ومغاربھا ” مشرق اور مغرب کے سارے علاقے اللہ تعالیٰ نے ان کو دلا دیے۔ طعام کی تبدیلی : ارشاد ہوتا ہے “ واذا قلتم یموسی لن نصبر علی طعام واحد ” اے بنی اسرائیل اس واقعہ کو یاد کرو۔ جب تم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا۔ کہ ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے۔ صحرائے سینا میں بلا مشقت من وسلویٰ کھاتے کھاتے بنی اسرائیل کے مزاج بھر چکے تھے۔ اور وہ کھانے میں تبدیلی چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شکایت کی کہ ہم ایک کھانے پر ہرگز صبر نہیں کرسکتے۔ حالانکہ حقیقت میں من اور سلویٰ دو مختلف کھانے تھے۔ مگر مسلسل یہی کھانا کھانے کی وجہ سے انہوں نے انہیں ایک ہی کھانا کہا۔ کہ اب ہم زیادہ دیر تک اس کھانے سے شکم پر ہی نہیں کرسکتے۔ اسرائیلی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے (1 ۔ تفسیر حقانی ج 2 ص 156 مطبوعہ دہلی) وہ کہنے لگے کہ ہمیں تو مصر کی مچھلی یاد آرہی ہے۔ وہاں ہمیں مختلف قسم کی سبزیاں اور تر کاریاں میسر آتی تھیں۔ اور یہاں پر ایک ہی قسم کا کھانا کھا کھا کر تنگ آچکے ہیں۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) “ فادع لنا ربک ” آپ ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کریں۔ “ یخرج لنا ” کہ وہ نکالے ہمارے لئے “ مما تنبت الارض ” وہ چیزیں جن کو زمین اگاتی ہے۔ “ من بقلھا ” اپنی تر کاریوں سے “ وقثائھا ” اور اپنی ککڑیوں سے “ وفومھا ” اور گندم سے “ وعدسھا ” اور مسور سے “ وبصلھا ” اور اپنے پیاز سے۔ یعنی اے موسیٰ ! ہمیں تو ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ اپنے رب سے کہہ کر ہمیں یہ دلوایے۔ من وسلویٰ جیسی قوت بخش غذا سے ان کا جی بھر گیا تھا۔ اور وہ اس قسم کی چٹ پٹی چیزوں سے اپنے منہ کا ذائقہ بدلنا چاہتے تھے۔ بنی اسرائیل کی اس فرمائش پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی سرزنش کی۔ قال اور فرمایا “ اتستبفلون الذی ھو ادنی بالذی ھو خیر ” کیا تم ایک ادنیٰ اور گھٹیا چیز کو اعلیٰ اور بڑھیا چیز سے بدلنے کے خواہش مند ہو۔ تم کتنے بیوقوف ہو۔ کہ اللہ تعالیٰ تو تمہیں من وسلویٰ جیسی بہترین غذا فراہم کر رہا ہے۔ اور تم سبزی تر کاری اور لہسن پیاز کے پیچھے پھر رہے ہو۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر مظہری ج 1 ص 76) کہ اللہ تعالیٰ نے بالکل مفت من وسلویٰ دے رکھا تھا۔ اور پھر وہ حساب و کتاب سے بری تھے۔ ان چیزوں کا کوئی حساب کتاب نہیں تھا۔ پھر ان کے مطلوبہ لہسن پیاز پر تو حساب کتاب بھی ہوگا۔ یہ بھی ان کے گھاٹے کا سودا تھا۔ مگر وہ اسی پر مصر تھے ۔ کاشتکاری مشقت طلب کام ہے : جب بنی اسرائیل کا اصرار حد سے بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے کہلوایا۔ کہ اگر تم یہی چاہتے ہو ۔ “ اھبطوا مصرا ” تو کسی شہر میں اتر جاؤ۔ وہاں جاکر کھیتی باڑی کرو۔ ہل چلاؤ۔ آبپاشی کرو۔ اور اپنے لیے اپنی مرضی کی چیزیں کاشت کرو۔ “ فان لکم ما سالتم ” پس جو کچھ تم چاہتے ہو ۔ تمہیں مل جائے گا۔ البتہ ذرا محنت مشقت کرنی پڑے گی۔ بعض فرماتے ہیں (1 ۔ ) کہ اعمش (رح) کی قراءۃ میں “ اھبطوا مصر ” واپس مصر چلے جاؤ وہاں جاکر اسی طرح کھیتی باڑی کرو۔ جس طرح فرعونی کرتے تھے اور سبزیاں وغیرہ حاصل کرلو۔ مگر دوسری قراءۃ یعنی “ مصرا۔ ر ” کی تنوین کے ساتھ زیادہ راجح ہے ۔ یعنی کسی شہر یا قصبے میں اتر جاؤ۔ اور کاشتکاری کرو۔ تم اپنی مطلوبہ چیزیں حاصل کرلو گے۔ تم ایک اعلیٰ چیز چھوڑ کر اس کے بدلے میں معمولی چیزیں چاہتے ہو۔ یہ چیزیں تمہیں محنت و مشقت کے بعد حاصل ہوں گی۔ پیشے بلحاظ فضیلت : حضرت ابو امامہ ؓ کی روایت میں آتا ہے (2 ۔ ) کہ حضور ﷺ نے کسی گھر میں ہل کا پھال دیکھا تو فرمایا۔ یہ جہاں بھی ہو ، وہاں ذلت کا دور دورہ ہوتا ہے کاشتکاری بذات خود ایک مشقت طلب کام ہے۔ اس کے علاوہ مالیہ اور آبیانہ وغیرہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے شہری تہذیب سے دور انسان بہت سی اچھی چیزوں سے محروم رہتا ہے۔ “ اھبطوا مصرا ” تو کسی شہر میں اتر جاؤ۔ وہاں جاکر کھیتی باڑی کرو۔ ہل چلاؤ آبپاشی کرو۔ اور اپنے لیے اپنی مرضی کی چیزیں کاشت کرو۔ “ فان لکم ما سالتم ” پس جو کچھ تم چاہتے ہو ۔ تمہیں مل جائے گا۔ البتہ ذرا محنت مشقت کرنی پڑے گی۔ بعض فرماتے ہیں (1 ۔ ابن کثیر ج 1 ص 102 ، درمنثور ج 1 ص 73) کہ اعمش (رح) کی قراءۃ میں “ اھبطوا مصر ” واپس مصر چلے جاؤ۔ وہاں جاکر اسی طرح کھیتی باڑی کرو۔ جس طرح فرعونی کرتے تھے۔ اور سبزیاں وغیرہ حاصل کرلو۔ مگر دوسری قراءۃ یعنی “ مصرا۔ ر ” کی تنوین کے ساتھ زیادہ راجح ہے۔ یعنی کسی شہر یا قصبے میں اتر جاؤ۔ اور کاشتکاری کرو۔ تم اپنی مطلوبہ چیزیں حاصل کرلو گے۔ تم ایک اعلیٰ چیز چھوڑ کر اس کے بدلے میں معمولی چیزیں چاہتے ہو۔ یہ چیزیں تمہیں محنت و مشقت کے بعد حاصل ہوں گی۔ پیشے بلحاظ فضیلت : حضرت ابو امامہ ؓ کی روایت میں آتا ہے (2 ۔ بخاری ج 1 ص 312) کہ حضور ﷺ نے کسی گھر میں ہل کا پھال دیکھا تو فرمایا ۔ یہ جہاں بھی ہو ، وہاں ذلت کا دور دورہ ہوتا ہے کاشتکاری بذات خود ایک مشقت طلب کام ہے۔ اس کے علاوہ مالیہ اور آبیانہ وغیرہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ شہری تہذیب سے دور انسان بہت سی اچھی چیزوں سے محروم رہتا ہے۔ کاشتکاری ایک اچھا پیشہ بھی شمار ہوتا ہے۔ اس کی تعریف بھی آئی ہے۔ اس پیشے کو فضیلت کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔ بہترین پیشہ جہاد ہے۔ اس کے ذریعے حاصل ہونے والا مال پاکیزہ ترین ہوتا ہے۔ دوسرے نمبر پر تجاوت کا پیشہ ہے۔ رزق کا زیادہ تر حصہ اللہ تعالیٰ نے تجارت میں ہی رکھا ہے۔ اس کے بعد کاشتکاری یا کھیتی باڑی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا (3 ۔ بخاری ج 1 ص 312 ، مسلم ج 1 ص 16) کہ کوئی شخص کوئی فصل کاشت کرتا ہے۔ کوئی دانہ بوتا ہے یا پودا یا درخت لگاتا ہے۔ اس کے پھل میں سے اگر کوئی جانور وغیرہ کھائے گا تو بونے والے کو صدقے کا ثواب ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے کاشتکاری کو یہ فضیلت بخشی ہے۔ اس طرح فرمایا چوتھے نمبر پر صنعت و حرفت کا پیشہ ہے۔ دینی نقط نگاہ سے مختلف پیشوں کی یہ درجہ بندی ہے۔ یہودیوں کی ذلت ورسوائی : بنی اسرائیل کے جتنے بھی واقعات ذکر کئے جا رہے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ اسی ترتیب کے ساتھ واقع ہوئے ہوں جس ترتیب کے ساتھ انہیں بیان کیا گیا ہے۔ بلکہ ان کا بیان محض عبرت اور تنبیہ کے لیے ہے کہ نوع انسانی ان واقعات سے سبق حاصل کرے۔ اور برائیوں سے اجتناب کرے۔ ان کے ضمن میں یہودیوں کو بار بار خطاب کیا جا رہا ہے کہ دیکھو تمہارے آباؤ اجداد میں یہ یہ خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ ان سے عبرت حاصل کرو۔ اور ایسی برائیوں سے باز آجاؤ ۔ انکی انہی نافرمانیوں کی وجہ سے “ وضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ ” ان پر ذلت اور محتاجی مسلط کردی گئی۔ مسکنت مال کی کمی کو کہا جاتا ہے۔ چناچہ ذلت ورسوائی کی لعنت ان پر اس وقت مسلط کی گئی کب وہ بحیثیت قوم عادی مجرم بن گئے۔ یہ عام مشہور بات ہے کہ یہودی دنیا میں امیر ترین قوم ہیں۔ مگر یہ درست نہیں مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عثمانی ص 12 مطبوعہ دار التصنیف کراچی ، تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 265) کہ یہودیوں میں بھی مال و دولت تھوڑے لوگوں کے پاس ہوتی ہے۔ ورنہ اکثریت ان کی بھی محتاج ہی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر یہودی مالدار بھی ہوں تو پھر بھی ان کی حالت خستہ ہی ہوتی ہے۔ اور وہ اپنے آپ کو مسکین ہی ظاہر کرتے ہیں۔ حکومت سے محرومی بھی ذلت و رسوائی کی نشانی ہے۔ یہ قوم دو تین ہزار سال تک حکومت سے محروم رہی۔ دنیا میں کسی جگہ ان کی سلطنت نہیں تھی۔ یہ لوگ اتنے لمبے عرصہ تک دربدر مارے مارے پھرتے رہے۔ ان کو کسی دوسری حکومت نے بھی برداشت نہ کیا۔ جرمنی والے ان کے دشمن۔ اٹلی والے ان کے دشمن۔ یہ سازشی ذہن کے لوگ ہیں۔ انہیں کوئی بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ آج اعتراض ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا دعوے تھا کہ دنیا میں یہودیوں کو کبھی اقتدار نصیب نہیں ہوگا۔ ان کا کوئی ملک نہیں ہوگا۔ مگر ان کی سلطنت قائم ہوچکی ہے۔ “ معاذ اللہ قرآن پاک کا دعویٰ غلط ہوگیا ہے۔ ہرگز نہیں۔ چوتھے پارے میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس قوم کو کبھی اقتدار نصیب نہیں ہوگا۔ مگر دو شرطوں کے ساتھ “ الا بحبل من اللہ وحبل من الناس ” یعنی یا تو اللہ تعالیٰ کی رسی کو پکڑ لینے سے یا پھر لوگوں کی رسی کو تھام لینے کی وجہ سے ہاں قرب قیامت میں دجال کے ظہور کے وقت ان کو عروج حاصل ہوگا۔ تو اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کے تو یہ قریب بھی نہیں جاتے۔ البتہ انہوں نے لوگوں کی رسی کو پکڑ رکھا ہے۔ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس وغیرہ کے دامن سے چمٹے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان کو وطن بھی حاصل ہوگیا ہے۔ اور باقی دنیا کو آنکھیں بھی دکھانے لگے ہیں۔ ان کی سلطنت کا قیام محض امریکہ کی بےایمانی کا نتیجہ ہے۔ آج امریکہ اگر اپنا ہاتھ اٹھالے تو یہودی سلطنت دو دن بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ الغرض ! اگر آج یہودیوں کو کسی خطہ زمین پر عروج حاصل ہوے تو وہ بھی قرآن پاک کے بیان کردہ اصول کے مطابق ہی ہے۔ ورنہ اس قوم کی حقیقت یہی ہے۔ “ وباء وبغضب من اللہ ” کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہی لے کر لوٹے۔ آیات الٰہی کا انکار : فرمایا “ ذلک بانھم کانوا یکفرون بایت اللہ ” بنی اسرائیل کی ذلت و رسوائی کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ جب کوئی انسان نافرمانی کرتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی ہے۔ ابلیس کا بھی یہی حال ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ ان علیک لعنتی الی یوم الدین ” جاؤ تم پر قیامت تک میری لعنت پرستی رہے گی اسی طرح کافروں کے متعلق فرمایا کہ جو کفر کی حالت میں مرگیا “ اولئک علیھم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین ” ان پر اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت مسلط ہوگئی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ خدا تعالیٰ کے احکام کو ٹھکراتے تھے۔ چناچہ اس کا نتیجہ ذلت و رسوائی کے سوا اور کیا ہوگا۔ انبیاء (علیہم السلام) کا قتل : بنی اسرائیل پر لعنت مسلط ہونے کی دوسری وجہ یہ بیان فرمائی کہ “ ویقتلون النبین بغیر الحق ” کہ وہ انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ میں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 266 ، ابو السعود ج 1 ص 85 ، تفسیر مدارک ج 1 ص 53) ملتا ہے کہ انہوں نے پر میا نبی شعیا نبی۔ حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا (علیہم السلام) اور اللہ تعالیٰ کے دیگر سینکڑوں نبیوں کو قتل کیا۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے (2 ۔ درمنثور ج 1 ص 73 ، ابن کثیر ج 1 ص 102) کہ بنی اسرائیل نے ایک دن میں خدا تعالیٰ کے تین سو انبیاء (علیہم السلام) کو شہید کیا۔ جب اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں نے ایسا کرنے سے منع کیا اور انہیں طعن و ملامت کی تو ان کو بھی شہید کردیا گیا۔ یہ قوم اس قسم کی عادی مجرم بن چکی تھی جس کی وجہ سے یہ مغضوب اور طعون ٹھہری۔ یہاں پر “ بغیر الحق ” پر اعتراض وارد ہوتا ہے۔ کہ نبیوں کے ناحق قتل کا کیا مطلب ہے ؟ جب کہ نبی کا قتل تو بلاشبہ ناحق ہی ہوگا ۔ نبی کا قتل برحق تو ہو ہی نہیں سکتا۔ تو مفسرین کرام اس اشکال کا یہ جواب دیتے ہیں (1 ۔ ابو السعودج 1 ص 85 ، مدارک ج 1 ص 52 ، مظہری ج 1 ص 76) کہ یہاں پر ناحق کا لفظ اس لیے استعمال ہوا ہے کہ قاتل خود سمجھتے تھے کہ وہ غلط کام کر رہے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے (2 ۔ مسند احمد ج 1 ص 407 ، ابن کثیر ج 1 ص 103 ، تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 266) کہ سخت عذاب روز قیامت اس شخص کو ہوگا جس نے کسی نبی کو قتل کیا ہوگا یا جس کو کسی نبی نے قتل کیا ہوگا ۔ دونوں قسم کے اشخاص سخت ترین سزا کے مستحق ہوں گے۔ امیر بن خلف کی مثال موجود ہے کہ حضور ﷺ نے خود اپنے نیزے سے اس ملعون کو مارا تھا۔ مشرکین مکہ میں سے یہ بڑا خرانٹ قسم کا کافر تھا ؟ نافرمانی اور حد سے تجاوز : بغرض ! سابقہ بنی اسرائیل کی خرابیاں اور ان کی سزائیں بیان کرکے حضور نبی کریم ﷺ کے زمانے کے بنی اسرائیل کو سمجھایا جا رہا ہے۔ کہ اب بھی سمجھ جاؤ۔ خدا کا آخری نبی آگیا ہے۔ “ امنوا بما انزلت ” جو کچھ میں نے نازل کیا ہے۔ اس پر ایمان لے آؤ معافی کا دروازہ اب بھی کھلا ہے اگر تم ٹھیک ہوجاؤ ۔ اپنے اخلاق و اعمال درست کرلو۔ تو تم آج بھی عروج حاصل کرسکتے ہو۔ مگر وہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی کو تسلیم کرنے والے نہیں تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر ہمیشہ کے لیے لعنت مسلط کردی گئ ۔ انکار آیات اور قتل انبیاء کے بعد تیسری وجہ یہ بیان فرمائی۔ “ ذلک بما عصوا ” کہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔ عصیان کا معنی اللہ تعالیٰ کے حقوق کو ضائع کرنا ہے۔ وہ لوگ حقوق اللہ کی بالکل پرواہ نہیں کرتے تھے۔ اس کے کسی حکم کی تعمیل کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ نیز یہ کہ “ وکانوا یعتدون ” وہ حد سے نکل جاتے تھے۔ تعدی کا معنی انسانوں کی جانوں اور مالوں کا تلف کرنا ہے۔ بنی اسرائیل کا ذوق ہی بدل چکا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ صحیح مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ نیکی اور بدی میں تمیز کرتا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے (1 ۔ جامع صغیر مع شرح فیض القدیر ص 374 بحوالہ مستدرک ابن حبان و طبرانی و بیہقی شعب الایمان و مسند احمد ج 5 ص 250) “۔۔۔ حسنتک وسآء تک سیئتک ” جب تمہاری نیکی تمہیں اچھی لگے۔ اور برائی سے نفرت ہو۔ تو سمجھ لو کہ تم مومن ہو اور اگر نیکی اور بدی میں تمیز باقی نہیں رہی تو سمجھ لو کہ تمہیں روحانی بیماری لاحق ہوگئی ہے۔ اس کی مثال انسان جسم کے ساتھ دی جاسکتی ہے۔ جب آدمی تندرست ہوتا ہے تو اس کی زبان کا ذائقہ درست ہوتا ہے۔ اسے میٹھی چیز میٹھی لگتی ہے اور کڑوی چیز کڑوی لگتی ہے مگر جب جسم بیمار ہوجاتا ہے تو اس کی زبان کا ذائقہ بھی بدل جاتا ہے۔ اسے میٹھی چیز بھی کڑوی محسوس ہوتی ہے۔ مقصد یہ کہ اگر کوئی شخص نیکی اور بدی میں تمیز کرتا ہے تو وہ صحیح مومن ہے۔ ورنہ وہ بیمار ہے۔ بنی اسرائیل کے لوگ بیمار تھے۔ وہ تعدی کی بیماری میں مبتلا تھے۔ نہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کا پاس رکھتے تھے۔ اور نہ بندوں کے حقوق کا خیال کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے معصوم نبیوں کو قتل کیا۔ جو خدا تعالیٰ کی رحمت اور انسانوں کے لیے نمونہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی کھلی خلاف ورزی ، اس کے احکام کو حیلوں ، بہانوں یا تاویلوں کے ذریعے ٹھکرانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ ان کی برائیوں کی تفصیلات سورة بقرہ ، سورة ال عمران ، سورة نساء اور مائدہ وغیرہ میں آرہی ہیں۔ ان کی برائیاں بیان کرکے مسلمانوں کو تنبیہہ کی جارہی ہے کہ کہیں تم بھی اسی قسم کی خرابیوں میں مبتلا نہ ہوجانا۔ “ ولا تکونوا کالذین قالوا سمعنا وھم لا یسمعون ” تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے کہا کہ ہم نے سن لیا۔ حالانکہ وہ انکار ہی کرتے رہے۔ اے مسلمانو ! اگر تم بھی انہیں لوگوں کی روش پر چلو گے تو تباہ ہوجاؤ گے۔ تمہاری صحت ایمانی بھی جاتی رہے گی۔ اور ذائقہ ایمانی بھی تبدیلی ہوجائے گا۔
Top