Jawahir-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 63
قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖۗ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْئَلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ فَعَلَه : اس نے کیا ہے كَبِيْرُهُمْ : ان کا بڑا ھٰذَا : یہ فَسْئَلُوْهُمْ : تو ان سے پوچھ لو اِنْ : اگر كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ : وہ بولتے ہیں
بولا نہیں پر یہ کیا ہے45 ان کے اس بڑے نے سو ان سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں
45:۔ ” قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ الخ “ لفظ بل اضراب کے لیے ہے جو ماقبل کے خلاف ایک نئی بات بیان کرنے کیلئے لایا جاتا ہے تو اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مشرکین کے سوال کے جواب میں بتوں کو تورنے کے فعل سے انکار کردیا اور اس فعل کو ان کے بڑے بت کی طرف منسوب کردیا ظاہر ہے کہ یہ جھوٹ کی صورت ہے جس کی نسبت انبیاء (علیہم السلام) کی طرف محال ہے اس کے بہت سے جواب دئیے گئے جو تفسیر کبیر اور روح المعانی میں بہ تفصیل مذکور ہیں۔ حضرت شیخ قدس سرہ نے فرمایا کہ ” بَلْ فَعَلَهٗ “ میں تکلم سے غیب کی طرف التفات ہے اور اس کا فاعل مقدر ہے اصل میں تھا بل فعلہ من فعلہ۔ یعنی جس نے یہ کام کیا ہے اس نے تو کر ڈالا۔ یہ تمہارا بڑا بت بھی یہاں موجود ہے تم اپنے ان معبودوں ہی سے پوچھ لو کہ ان کے ساتھ یہ ماجرا کس نے کیا ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس فعل سے انکار نہیں کیا بلکہ ایک لطیف اور کنائی انداز میں اسے تسلیم کرلیا۔ امام رازی نے اس توجیہہ کو اس طرح بیان کیا ہے۔ ورابعھا انہ کنایۃ عن غیر مذکور ای فعلہ من فعلہ، و کبیرھم ھذا ابتداء الکلام و یروی عن الکسائی انہ کان یقف عند قولہ بل فعلہ ثم یبتدی کبیرھم ھذا (کبیر ج 6 ص 163) ۔
Top