Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 2
اِ۟لَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا
الَّذِيْ لَهٗ : وہ جس کے لیے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلَمْ يَتَّخِذْ : اور اس نے نہیں بنایا وَلَدًا : کوئی بیٹا وَّلَمْ يَكُنْ : اور نہیں ہے لَّهُ : اس کا شَرِيْكٌ : کوئی شریک فِي الْمُلْكِ : سلطنت میں وَخَلَقَ : اور اس نے پیدا کیا كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے فَقَدَّرَهٗ : پھر اس کا اندازہ ٹھہرایا تَقْدِيْرًا : ایک اندازہ
جس کے لیے بادشاہی ہے آسمانوں اور زمین کی، جس نے نہ کسی کو اولاد ٹھہرایا اور نہ کوئی اس کا شریک ہے اس کی بادشاہی میں، اور اس نے بلاشرکت غیرے پیدا فرمایا ہر چیز کو اور اس کو نہایت حکمت کے ساتھ ایک خاص اندازے پر رکھا
3 اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جس نے کسی کو اپنی اولاد نہیں ٹھہرایا "۔ واضح رہے کہ یہاں پر یہ نہیں فرمایا کہ اس کا کوئی بیٹا نہیں ۔ " لَمْ یَکُنْ لَّہ وَلَدٌ " ۔ بلکہ یوں فرمایا کہ اس نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا ۔ { لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا } ۔ کیونکہ ایسا تو شاید ہی کوئی گمراہ شخص ہوا ہو جس نے یہ کہا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اسی طرح کوئی اولاد ہوتی ہے جس طرح کہ اس کی مخلوق کے یہاں ہوتی ہے۔ بلکہ اصل گمراہی اس بارے میں لوگوں کے اندر شیطان کے اغواء واضلال اور اس کی دھوکہ دہی کی بناء پر ہمیشہ یہ رہی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے کچھ ہستیوں کو ان کی محبت وتعلق وغیرہ کے باعث اور ان کی چاہت کی بناء پر اپنا بیٹا ۔ اکلوتا بیٹا ۔ اور شریک بنادیا وغیرہ۔ چناچہ ایسے ہی مفروضوں کی بنا پر ابنیت مسیح اور ابنیت عزیر جیسے شرکیہ عقیدے گھڑے گئے۔ اور اسی بنا پر امت محمدیہ کے بھی بہت سے گمراہ لوگوں نے نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کی امت کی مختلف پاکیزہ اور بزرگ ہستیوں کے بارے میں اس طرح کے شرکیہ عقیدے گھڑے اور ان کو حاجت روا و مشکل کشا اور خدا جانے کیا کچھ مانا۔ اور کچھ نے اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنے خود ساختہ ائمہ کو معصوم قرار دے کر نبیوں کے برابر، بلکہ ان سے بھی افضل و اعلیٰ قرار دیا کہ یہ سب ہستیاں چونکہ اللہ تعالیٰ کی محبوب اور پیاری ہستیاں ہیں، اس لئے جو چاہیں کرا سکتی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو حضرت خالق ۔ جل مجدہ ۔ کا یہ ارشاد کہ اس نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا ایسے تمام شرکیہ عقائد اور مفروضوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ پس خالق کے ساتھ اس کے بندوں کا رشتہ خالق و مخلوق اور عابد و معبود کا رشتہ ہے اور بس۔ اس کے سوا اور کوئی بھی رشتہ و علاقہ ان کے درمیان ماننا عقل کے بھی خلاف ہے اور نقل کے بھی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اس نے نہ کسی کو اپنی اولاد بنایا اور نہ ہی اس کی کوئی اولاد ہوسکتی ہے۔ وہ ایسے تمام تصورات سے پاک اور اعلیٰ وبالا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اسی وحدہ لا شریک خداوند قدوس نے اپنے بندئہ خاص پر یہ فرمان حمید اتارا ۔ فلہ الحمد و لہ الشکر قبل کل شیء وبعد کل شیء - 4 جس نے ہر چیز کو ایک خاص انداز پر رکھا : سو ارشاد فرمایا کہ " اسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا اور اس کو ایک خاص اندازے پر رکھا "۔ سو ہر چیز کا خالق بھی وہی ہے اور اس پر حکم و تصرف بھی اسی کا چلتا ہے۔ اور اسی نے ہر چیز کو ایک خاص اندازے پر اور خاص دائرے میں ر کھا۔ ہر کسی کو ایک خاص حد تک آزادی دی۔ ہر ایک کی عمر، ترقی اور سعی کو ایک خاص حد تک محدود کردیا۔ وہ اس کے اذن کے بغیر اس سے کبھی بھی اور کسی بھی طرح باہر نہیں نکل سکتی۔ بلاشبہ یہ سب اسی اور صرف اسی قادر مطلق کی شان ہوسکتی ہے۔ پس ہر طرح کی عبادت و بندگی بھی اسی کا اور صرف اسی وحدہ لاشریک کا حق ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو یہ اس کی توحید اور یکتائی کی ایک کھلی دلیل اور واضح برہان ہے۔ اس نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد اس طرح ایک خاص اندازے پر ٹھہرا دیا ہے کہ کسی کی مجال نہیں کہ وہ بال برابر اس اندازے سے کم و بیش کرلے یا آگے پیچھے ہوسکے۔ انسان کو پیدا فرمایا تو اس کی پیدائش، اس کی موت، اس کی جسامت، اس کی رنگت اور اس کی ظاہری اور باطنی صلاحیتوں کو ایک خاص اندازے پر رکھا۔ اور ان میں سے ہر چیز کی ایک حد مقرر فرما دی۔ کوئی اس سے باہر نہیں نکل سکتا۔ سورج چاند وغیرہ سیارے ہیں تو ان میں سے ہر ایک اپنے مخصوص دائرے کے اندر محو گردش ہے۔ مجال نہیں کہ کوئی ذرہ بھی ادھر سے ادھر ہوجائے۔
Top