Jawahir-ul-Quran - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور بندے رحمان کے43 وہ ہیں جو چلتے ہیں زمین پر دبے پاؤں اور جب بات کرنے لگیں ان سے بےسمجھ لوگ تو کہیں صاحب سلامت
43:۔ ” وعباد الرحمن الک “ پہلے یہ مذکور ہوا کہ دنیا میں برکات دہندہ صرف اللہ تعالیٰ ہے، اب یہاں یہ ذکر کیا جا رہا ہے کہ آخرت میں بھی برکات دہندہ اور رحمت کنندہ اللہ تعالیٰ ہی ہوگا۔ ” عباد الرحمن “ مرکب اضافی مبتدا ہے اور اس کے بعد دس آیتیں چھوڑ کر گیارہویں آیت کی ابتدا میں اس کی خبر ذکر کی گئی ہے یعنی ” اولئک یجزون الخ “ درمیان میں اللہ کے نیک بندوں کی آٹھ صفتیں مذکور ہیں جن کی وجہ سے وہ آخرت میں اللہ کی رحمت و برکت کے مستحق ہوں گے اور ہر ایک کو اللہ تعالیٰ اخلاص عمل کے مطابق درجات عطا کرے گا۔ ” الذین یمشون الخ “ یہ عباد الرحمن کی پہلی صفت ہے، وہ غرور وتکبر نہیں کرتے بلکہ ان کی گفتار و رفتار سے بھی عجز و انکسار ظاہر ہوتا ہے وہ زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور گر احمق لوگ ان سے ناشائستہ گفتگو کریں تو صاف کہہ دیتے ہیں صاحب ! ہمیں ان باتوں سے معاف رکھیے ہم دوسرے خیال میں مصروف ہیں۔ یعنی ان کا تعلق خاطر ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے رہتا ہے۔
Top