Jawahir-ul-Quran - Al-Ankaboot : 39
وَ قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ١۫ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ مَا كَانُوْا سٰبِقِیْنَۚۖ
وَقَارُوْنَ : اور قارون وَ : اور فِرْعَوْنَ : فرعون وَهَامٰنَ : اور ہامان وَلَقَدْ جَآءَهُمْ : اور البتہ آئے ان کے پاس مُّوْسٰي : موسیٰ بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیوں کے ساتھ فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَمَا كَانُوْا : اور وہ نہ تھے سٰبِقِيْنَ : بچ کر بھاگ نکلنے والے
اور ہلاک کیا قارون اور فرعون اور ہامان کو32 اور ان کے پاس پہنچا موسیٰ کھلی نشانیاں لے کر، پھر بڑائی کرنے لگے ملک میں اور نہیں تھے ہم سے جیت جانے والے
32:۔ یہ ساتواں قصہ ہے اور دوسرے دعوے سے متعلق ہے۔ ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) دلائل و بینات لے کر آئے یہ لوگ دولت و حکومت کے نشے میں چور ان کی بات کب سننے والے تھے۔ انہوں نے قبول حق سے استکبار کیا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ خدا کی گفرت سے نکل جائیں گے اور اس کے ہاتھ نہیں آئیں گے لیکن ان میں سے کوئی بھی بچ نہ سکا۔ فکلا اخذنا بذنبہ، ہم نے سب کو پکڑ لیا اور ان کے گناہوں کی دنیا میں بھی انہیں عبرتناک سزا دی۔ ان چاروں قوموں کے ذکر کے بعد فرمایا، وما کانوا سبقین، اس سے معلوم ہوگیا کہ یہ چار قصے، ام حسب الذین یعملون السیات ان یسبقونا، سے متعلق ہیں۔ کسی قوم کو حاصب یعنی طوفان باد سے ہلاک کیا، مراد قوم لوط ہے۔ کسی کو صیحۃ (چنگھاڑ) سے، اس سے مدین اور ثمود مراد ہیں۔ کسی کو زمین میں دھنسا دیا یعنی قارون کو اور کسی کو پانی میں غرق کردیا اور اس سے فرعون اور اس کی قوم مراد ہے۔ وما کان اللہ لیظلمہم الخ، ان قوموں کو گوناگوں عذابوں سے ہلاک کر کے اللہ تعالیٰ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود کفر و شرک اور معاصی کو اختیار کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے تو پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر ان پر حق کو واضح فرمایا مگر انہوں نے اسے قبول نہ کیا۔ یہ اسی استکبار اور انکار حق کی سزا ہے۔
Top