Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 119
هٰۤاَنْتُمْ اُولَآءِ تُحِبُّوْنَهُمْ وَ لَا یُحِبُّوْنَكُمْ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِالْكِتٰبِ كُلِّهٖ١ۚ وَ اِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۗۚ وَ اِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ١ؕ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
ھٰٓاَنْتُمْ : سن لو۔ تم اُولَآءِ : وہ لوگ تُحِبُّوْنَھُمْ : تم دوست رکھتے ہو ان کو وَلَا : اور نہیں يُحِبُّوْنَكُمْ : وہ دوست رکھتے تمہیں وَتُؤْمِنُوْنَ : اور تم ایمان رکھتے ہو بِالْكِتٰبِ : کتاب پر كُلِّھٖ : سب وَاِذَا : اور جب لَقُوْكُمْ : وہ تم سے ملتے ہیں قَالُوْٓا : کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاِذَا : اور جب خَلَوْا : اکیلے ہوتے ہیں عَضُّوْا : وہ کاٹتے ہیں عَلَيْكُمُ : تم پر الْاَنَامِلَ : انگلیاں مِنَ : سے الْغَيْظِ : غصہ قُلْ : کہدیجئے مُوْتُوْا : تم مرجاؤ بِغَيْظِكُمْ : اپنے غصہ میں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ : سینے الصُّدُوْرِ : سینے والی (دل کی باتیں)
سن لو تم لوگ ان کے دوست ہو اور وہ تمہارے دوست نہیں اور تم سب کتابوں کو مانتے ہو181 اور جب تم سے ملتے ہیں کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں اور جب اکیلے ہوتے ہیں تو کاٹ کاٹ کھاتے ہیں تم پر انگلیاں غصہ سے  182 تو کہہ ! مرو تم اپنے غصہ میں اللہ کو خوب معلوم ہیں دلوں کی باتیں183
181 الکتاب میں لام جنس کا ہے اور مراد اس سے تمام آسمانی کتابیں ہیں اور ضمیر غائب سے منافقین یہود مراد ہیں یہ مسلمانوں کی نیک دلی اور یہودیوں کے روایتی بغض وعداوت کا بیان ہے مطلب یہ کہ تم تو ان سے دوستی بھی رکھتے ہو اور تمام آسمانی کتابوں کو حتی کہ تورات اور انجیل پر بھی ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کا حال یہ ہے کہ تم سے دوستی اور محبت تو درکنار وہ تمہاری کتاب یعنی قرآن پر بھی ایمان نہیں رکھتے حاصل یہ کہ وہ تمہارے ساتھ کسی درجہ میں انس اور محبت نہیں رکھتے۔ 182 عَضِّ اَنَامِل یعنی انگلیاں کاٹنا یہ ایک محاورہ ہے اور اس وقت بولا جاتا ہے جب آدمی شدت غیظ سے دیوانہ ہورہا ہو اور غصے کو عملی جامہ نہ پہنا سکتا ہو۔ والعض عبارۃ عن شدۃ الغیظ مع عدم القدرۃ علی انفاذہ (قرطبی ص 182 ج 4) یہاں ان کے نفاق کا بیان ہے مطلب یہ کہ ان سے دوستی اور خیر خواہی کی امید بالکل بیکار ہے کیونکہ ان کے دلوں میں کفر وعناد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور ان کا دعویٰ ایمان سراسر منافقانہ ہے تمہارے سامنے تو وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کچھ کر بھی نہیں سکتے اس لیے شدت غیظ سے جھنجھلا اٹھتے ہیں والمعنی اذا خلا بعضھم ببعض اظھر وشدة الغیظ علی المؤمنین حتی تبلغ تلک الشدة الی عض الانامل الخ (کبیر ص 56 ج 3) ۔ 183 آنحضرت ﷺ کو حکم ملا ہے کہ آپ منافقین سے کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے اور اس نے تمہارے اندرونی کینہ اور بغض کی ہم کو اطلاع دے دی ہے باقی تمہاری یہ خواہش کہ اسلام مغلوب ہوجائے اور مسلمان ناکام ہوجائیں۔ یہ کبھی پوری نہیں ہوگی تم بیشک شدت غضب میں مرتے رہو۔
Top