Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 173
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا١ۖۗ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قَالَ : کہا لَھُمُ : ان کے لیے النَّاسُ : لوگ اِنَّ : کہ النَّاسَ : لوگ قَدْ جَمَعُوْا : جمع کیا ہے لَكُمْ : تمہارے لیے فَاخْشَوْھُمْ : پس ان سے ڈرو فَزَادَھُمْ : تو زیادہ ہوا ان کا اِيْمَانًا : ایمان وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا حَسْبُنَا : ہمارے لیے کافی اللّٰهُ : اللہ وَنِعْمَ : اور کیسا اچھا الْوَكِيْلُ : کارساز
جن کو کہا لوگوں نے کہ مکہ والے آدمیوں نے جمع کیا ہے سامان تمہارے مقابلہ کو سو تم ان سے ڈرو تو اور زیادہ ہوا ان کا ایمان اور بولے کافی ہے ہم کو اللہ اور کیا خوب کارساز ہے265
265 اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمَا الخ، یہ اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا سے بدل ہے۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں کہ جنگ احد کے دن ابو سفیان نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ سال پھر بدر میں ہماری تمہاری جنگ ہوگی لیکن اس میعاد مقررہ سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں خوف اور رعب ڈال دیا۔ اور اس نے جنگ کا ارادہ ترک کردیا۔ ابو سفیان نے کچھ آدمیوں کے ذریعے مسلمانوں سے کہلا بھیجا کہ ابو سفیان نے تو بہت بڑا بھاری لشکر تیار کیا ہوا ہے اور مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے بالکل مستعد ہے اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس خبر سے بد دل ہوجائیں گے اور مقابلہ میں نہیں آئیں گے۔ تو اس طرح اس پر وعدہ خلافی اور بزدلی کا الزام نہ آئے گا۔ لیکن جب مسلمانوں کے پاس یہ خبر پہنچی تو ان کے ایمان میں مزید جوش پیدا ہوگیا۔ ان کے ارادے اور مضبوط ہوگئے اور اللہ پر ان کے توکل اور بھروسے میں مزید قوت اور پختگی پیدا ہوگئی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اسی پختگی ایمان اور ان کے عزم و توکل کا ذکر فرمایا ہے۔ اَلنَّاس میں دونوں جگہ الف لام عہد کے لیے ہے۔ پہلے الناس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں ابو سفیان نے بطور جاسوس مسلمانوں کے پاس بھیجا تھا اور دوسرے الناس سے ابو سفیان اور اس کے ساتھی مراد ہیں۔ (مدارک ج 1 ص 152، کبیر ج 3 ص 145) ۔ سید محمود آلوسی اور کئی دوسرے مفسرین نے لکھا ہے کہ جنگ احد سے دوسرے دن جب ابو سیفان دوبارہ بغرض جنگ واپس مسلمانوں کی طرف جانے کا منصوبہ بنا رہا تھا اس وقت کسی نے اسے بتایا کہ محمد ﷺ بھاری جمعیت کے ساتھ تمہارے تعاقب میں نکل پڑے ہیں تو وہ مرعوب ہوگیا۔ ادھر قبیلہ عبد القیس کے چند سوار جو مدینہ جا رہے تھے ابو سفیان کے پاس سے گذرے تو اس نے ان کے ہاتھ حضرت رسول خدا ﷺ کو یہ پیغام دے بھیجا کہ ہم نے دوبارہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے اور ہم ان کو بالکل مٹانے کا عزم کرچکے ہیں جس کے جواب میں مسلمانوں نے حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ کا نعرہ بلند کیا۔ اس صورت میں الناس اول سے عبد القیس کے وہ سوار مراد ہوں گے جو ابو سفیان کا پیغام مسلمانوں کے پاس لائے تھے۔
Top