Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 173
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا١ۖۗ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قَالَ : کہا لَھُمُ : ان کے لیے النَّاسُ : لوگ اِنَّ : کہ النَّاسَ : لوگ قَدْ جَمَعُوْا : جمع کیا ہے لَكُمْ : تمہارے لیے فَاخْشَوْھُمْ : پس ان سے ڈرو فَزَادَھُمْ : تو زیادہ ہوا ان کا اِيْمَانًا : ایمان وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا حَسْبُنَا : ہمارے لیے کافی اللّٰهُ : اللہ وَنِعْمَ : اور کیسا اچھا الْوَكِيْلُ : کارساز
اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ، "تماررے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو"، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور اُنہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارسا ز ہے
[اَلَّذِیْنَ : وہ لوگ ] [قَالَ : کہا ] [لَہُمُ : جن سے ] [النَّاسُ : لوگوں نے ] [اِنَّ : کہ ] [النَّاسَ : لوگوں نے ] [قَدْ جَمَعُوْا : جمع کی ہے (قوت) ] [لَــکُمْ : تمہارے لیے ] [فَاخْشَوْہُمْ : پس تم لوگ ڈرو ان سے ] [فَزَادَہُمْ : تو اس (بات) نے زیادہ کیا ان کو ] [اِیْمَانًا : ایمان کے لحاظ سے ] [وَّقَالُــوْا : اور انہوں نے کہا ] [حَسْبُـنَا : ہم کو کافی ہے ] [اللّٰہُ : اللہ ] [وَنِعْمَ : اور کتنا اچھا ہے (وہ) ] [الْوَکِیْلُ : وکیل ] نوٹ : مسلمانوں نے میدان احد سے واپس آ کر رات ہنگامی حالت میں گزاری۔ جنگ نے انہیں چور چور کر رکھا تھا ‘ اس کے باوجود وہ رات بھر مدینے کی گزرگاہوں پر پہرہ دیتے رہے اور رسول اللہ ﷺ کی خصوصی حفاظت پر تعینات رہے ‘ کیونکہ انہیں ہر طرف سے خدشات لاحق تھے۔ ادھر رسول اللہ ﷺ بھی پوری رات جنگ سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرتے رہے۔ انہیں خیال ہوا کہ اگر مشرکین نے اس صورت حال پر غور کیا تو یقینا وہ راستے سے پلٹ کر مدینہ پر دوبارہ حملہ کریں گے۔ چناچہ آپ ﷺ نے علی الصبح اعلان فرمایا کہ مکی لشکر کے تعاقب میں چلنا ہے۔ حالانکہ مسلمان زخموں سے چور اور غم سے نڈھال تھے پھر بھی سب نے بلاتردّد سر اطاعت خم کردیا اور رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ مدینے سے آٹھ میل دور ’ حمراء الاسد ‘ کے مقام پر خیمہ زن ہوئے۔ یہاں پر معبد بن ابی معبد خزاعی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا۔ مشرکوں کو ابھی اس کی خبر نہیں تھی اس لیے آپ ﷺ نے انہیں ہدایت کی کہ وہ ابوسفیان کے پاس جائیں اور مدینہ پر دوبارہ حملہ کرنے کی حوصلہ شکنی کریں۔ دوسری طرف مشرکین نے مدینہ سے 36 میل دور ’ روحاء ‘ کے مقام پر جب جنگ کی صورت حال پر غور کیا تو انہیں ندامت ہوئی کہ جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد وہ مسلمانوں کو کیوں چھوڑ آئے۔ چناچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مدینہ واپس چل کر مسلمانوں کا جڑ سے صفایا کردیا جائے۔ یہ لوگ روانہ ہونے والے تھے کہ معبد بن ابی معبد خزاعی پہنچ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ مسلمان تمہارے تعاقب میں آ رہے ہیں۔ ان کی باتیں سن کر مکی لشکرکے حوصلے پست ہوگئے اور انہوں نے مکہ کی طرف واپسی کا سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ اسی وقت ان کے پاس سے قبیلہ عبدالقیس کا ایک قافلہ گزرا۔ ابوسفیان نے انعام و اکرام کے وعدہ پر قافلے کے لوگوں سے کہا کہ وہ مسلمانوں کو یہ خبر پہنچا دیں کہ انہوں نے دوبارہ پلٹ کر مدینہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمان ان کا تعاقب نہ کریں۔ چناچہ یہ قافلہ جب حمراء الاسد پہنچا تو انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ لوگ ‘ تمہارے خلاف جمع ہیں ان سے ڈرو۔ یہ بات سن کر مسلمانوں کے ایمان میں اضافہ ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ۔ چند روز مکی لشکر کا انتظار کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ ‘ مدینہ واپس آگئے۔
Top