Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 34
ذُرِّیَّةًۢ بَعْضُهَا مِنْۢ بَعْضٍ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۚ
ذُرِّيَّةً : اولاد بَعْضُهَا : وہ ایک مِنْ : سے بَعْضٍ : دوسرے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
جو اولاد تھے ایک دوسرے کی45 اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے
45 ذکر توحید بار چہارم۔ ذُرِّیَّةً ، اٰلین سے بدل یا حالواقع ہے۔ نصب علی البدلیۃ من الآلین او الحالیۃ منہما (روح ج 3 ص 132) یہود ونصاریٰ اس شبہ میں گرفتار تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو باقی مخلوق سے منتخب کر کے سب سے اونچا مقام اور مرتبہ عطا فرمایا ہے اور انہیں خاص خاص اختیارات بھی عطا کیے ہیں۔ چناچہ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کارساز اور معبود سمجھ کر پکارنا اور پوجنا شروع کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہ تمام انبیاء (علیہم السلام) باوجود علو مرتبت اور رفعت شان کے انسان اور بشر تھے اور باہم ایک دوسرے کی اولاد اور نسل تھے اور اپنی پیدائش اور بقا میں محتاج تھے۔ اس لیے وہ معبود اور کارساز نہیں ہوسکتے۔ ان نصاریٰ نجران لما غلوا فی عیسیٰ (علیہ السلام) وجعلوہ ابن اللہ سبحانہ واتخذوہ الہا نزلت ردا علیھم واعلاما لھم بانہ من ذریۃ البشر المنقلبین فی الاطوار المستحیلۃ علی الالہ (روح ج 3 ص 130، بحر ج 2 ص 234) ۔ وَاللہُ سَمِیعٌ عَلِیْمٌ۔ اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ جن بزرگوں سے متعلق معبود ہونے کا شبہ تھا اسے دو طرح سے رفع کیا گیا۔ اول اس طرح کہ یہ حجرات باہم والد ومولود ہیں۔ دوم۔ یہ حضرات ہر چیز کو جاننے اور سننے والے نہیں ہیں۔ سمیع بکل شیء اور علیم بکل شیء صرف اللہ کی صفت ہے۔ اس لیے وہی معبود برحق ہے۔ اور اس کے سوا کوئی معبود اور کارساز نہیں۔
Top