Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 99
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًا وَّ اَنْتُمْ شُهَدَآءُ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لِمَ تَصُدُّوْنَ : کیوں روکتے ہو عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے تَبْغُوْنَھَا : تم ڈھونڈتے ہو اس کے عِوَجًا : کجی وَّاَنْتُمْ : اور تم خود شُهَدَآءُ : گواہ (جمع) وَمَا : اور نہیں اللّٰهُ : اللہ بِغَافِلٍ : بیخبر عَمَّا : سے۔ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
تو کہہ اے اہل کتاب کیوں روکتے ہو اللہ کی راہ سے ایمان142 لانے والوں کو کہ ڈھونڈھتے ہو اس میں عیب اور تم خود جانتے ہو143 اور اللہ بیخبر نہیں تمہارے کام سے
142 سسَبِیْل اللہِ سے مراد توحید اور دین اسلام ہے جو لوگ دین اسلام کو قبول کرلیتے تھے۔ یہود نصاریٰ کے علماء مختلف حیلوں اور بہانوں سے ان کے دلوں میں شبہات ڈال کر انہیں اسلام سے روکنے کی کوشش کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس پر ملامت فرمائی وھو الاسلام وکانوا یمنعون من اراد الدخول فیہ بجھدھم ومحل (مدارک ص 134 ج) وکان صدھم عن سبیل اللہ بالقاء الشبہ والشکوک فی قلوب الضعفۃ من المسلمین الخ (کبیر ص 20 ج 2) ۔ 143 تَبْغُونَھَا میں ضمیر منصوب سَبِیْلِ اللہِ کی طرف راجع ہے اور اس سے پہلے لام محذوف ہے۔ تطلبون لھا فحذف اللام مثل واذا کالوھم (قرطبی ص 154 ج 4) ای تبغون لہا (روح ص 15 ج 4) عوج سے ٹیڑھا پن اور حق سے انحراف مراد ہے اور وَانْتُمْ شُھَداء تَصُدُّوْنَ یا تَبْغُوْنَ کے فاعل سے حال ہے مطلب یہ ہے کہ تم دین اسلام، مسئلہ توحید اور صداقت محمد ﷺ کو اچھی طرح جانتے ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ تورات وانجیل میں جس آخری نبی کی بشارت ہے وہ یہی ہے جس کو آج تم جھٹلا رہے ہو۔ اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ دین اسلام ہی دین حق ہے۔ اور توحید تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین ہے۔ اس لیے تم جان بوجھ کر لوگوں کو دین اسلام سے کیوں روکتے ہو۔ اور ان کے دلوں میں شکوک و شبہات ڈال کر انہیں اسلام اور توحید سے اور پیغمبر اسلام ﷺ سے کیوں بدگمان کرتے ہو۔ وانتم شھداء ان فی التوراۃ مکتوبا ان دین اللہ الذی لا یقبل غیرہ الاسلام وان فیہ نعت محمدا ﷺ (قرطبی ص 155 ج 4) ای کیف تفعلون ھذا وانتم علماء عارفون بتقدم البشارۃ بنبی ﷺ مطلعون علی صحۃ نبوتہ (روح ص 15 ج 4) ۔
Top