Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 99
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًا وَّ اَنْتُمْ شُهَدَآءُ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لِمَ تَصُدُّوْنَ : کیوں روکتے ہو عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے تَبْغُوْنَھَا : تم ڈھونڈتے ہو اس کے عِوَجًا : کجی وَّاَنْتُمْ : اور تم خود شُهَدَآءُ : گواہ (جمع) وَمَا : اور نہیں اللّٰهُ : اللہ بِغَافِلٍ : بیخبر عَمَّا : سے۔ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
کہو کہ اہلِ کتاب تم مومنوں کو خدا کے رستے سے کیوں روکتے ہو اور باوجود یہ کہ تم اس سے واقف ہو اس میں کجی نکالتے ہو اور خدا تمھارے کاموں سے بےخبر نہیں
قل یا اھل الکتاب لم تصدون عن سبیل اللہ من امن آپ کہہ دیں اے اہل کتاب تم کیوں اللہ کے راستہ سے یعنی اسلام کی راہ سے جو اللہ تک پہنچاتی ہے۔ ایمان لانے والوں کو روکتے ہو یعنی جو لوگ ایمان لانا چاہتے ہیں ان کو ایمان لانے سے کیوں روکتے ہو خطاب اور استفہام کی تکرار سے اس طرف اشارہ ہے کہ کفر اور ایمان سے باز داشت دونوں بجائے خود قبیح اور موجب عذاب ہیں اور کسی ایک فعل کا عذر بھی ممکن نہیں گویا دو مرتبہ خطاب اور استفہام کرکے یہودیوں کی دونوں بےجا حرکتوں پر قوت کے ساتھ تنبیہ فرمائی ہے۔ تبغونھا عوجا عوجاً مصدر بمعنی اسم مفعول ہے یعنی تم چاہتے ہو کہ اللہ کا راستہ ٹیڑھا ہو یا مصدری معنی ہی مراد ہے اور ھا سے پہلے لام محذوف ہے یعنی تم اللہ کے راستہ کے کج ہونے کے طلب گار ہو یہودی حق کو چھپاتے تھے رسول اللہ ﷺ کے اوصاف مندرجہ تورات کو بگاڑ کر بیان کرتے تھے مذہب یہودیت کو دوامی کہتے تھے مؤمنوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتے تھے تاکہ ان کی وحدت باقی نہ رہے اس و خزرج کے قبائل کے درمیان گذشتہ جاہلیت کے زمانہ کی عداوتوں کی یاد دہانی کرکے کوشش کرتے تھے کہ ازسر نو دیرینہ عداوتیں زندہ ہوجائیں۔ و انتم شہداء تم اپنے (نازیبا) کرتوت کے خود گواہ ہو یا یہ مراد ہے کہ رسول اللہ کے اوصاف اور اسلام کا دین خدا ہوناجو تورات میں مذکور ہے تم خود اس کے گواہ (اگرچہ زبانوں سے اس کی شہادت نہیں دیتے ہو) ۔ و ماا اللہ بغافل عما تعملون اور اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے اور نہ تمہاری اس خیانت نفس سے ناواقف ہے جو تم مسلمان ہونے والوں کو ایمان لانے سے روکتے ہو۔ ابن اسحاق اور ابو الشیخ اور ابن جریر نے زید کی مرسل روایت بیان کی ہے جس کو بغوی نے بھی ذکر کیا ہے کہ شماس بن قیس یہودی بڑا سخت کافر تھا مسلمانوں پر بہت طعن وتشنیع کرتا تھا ایک مجلس میں اوس اور خزرج قبیلوں کے کچھ لوگ جمع تھے شماس ادھر سے گذرا اور مسلمانوں کو باہم (الفت کی) بات چیت کرتے دیکھ کر جل گیا۔ جاہلیت کے زمانہ میں ان دونوں خاندانوں میں عداوت تھی دور اسلامی میں الفت ہوگئی یہودی کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا کہنے لگا بنی قیلہ کی جماعتیں تو اس ملک میں کبھی جمع نہیں ہوئیں اگر یہ جمع ہوگئے تو ہمیں ان کے ساتھ اس جگہ استقرار حاصل نہ ہوگا یہ کہنے کے بعد اپنے ساتھی کو جو ایک یہودی جوان تھا حکم دیا کہ جاؤ اور جاکر انصار کی مجلس میں بیٹھو ان کے سامنے جنگ بعاث اور جنگ بعاث سے پہلی عداوتوں کا تذکرہ کرو اور جنگ بعاث 1 ؂ کے متعلق فریقین نے جو (رجزیہ اور فخریہ) اشعار کہے ہیں وہ بھی ان کے سامنے پڑھو۔ یہودی جوان نے اوس و خزرج سے جا کر گفتگو کی 2 ؂۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں قبیلوں میں سے ایک ایک آدمی زانو کے بل کھڑا ہوگیا آپس میں سب جھگڑنے اور مقابل کے خلاف اپنے فخر کا اظہار کرنے لگے۔ ایک شخص قبیلہ اوس کے بنی حارثہ کے خاندان میں سے تھا جس کا نام اوس بن قبطی تھا دوسرا خزرجی تھا جو بنی سلمہ میں سے تھا اس کا نام جبار بن صخر تھا دونوں کے درمیان لاگ ڈانٹ ہوئی ایک نے دوسرے سے کہا اگر تم چاہتے ہو تو ہم بھی از سر نو اس کو 3 ؂ زندہ کرنے کو تیار ہیں دونوں فریق غضبناک ہوگئے اور کہنے لگے ہم زور آزمائی کو تیار ہیں مدینہ سے باہر۔ ظاہرہ یعنی حرہ میں جنگ ہوگی سب لوگ حرہ کی طرف چل دئیے۔ اوس اور خزرج نے دور جاہلیت کے نعرے لگائے ہر فریق جمع ہوگیا یہ اطلاع رسول اللہ کو بھی پہنچ گئی آپ ﷺ مہاجروں کی جماعت ساتھ لے کر تشریف لے گئے اور فرمایا : اے گروہ اہل اسلام ابھی تو میں تمہارے اندر موجود ہوں باوجود یکہ اللہ نے تم کو اسلام کی عزت عطا فرما دی اور جاہلیت کی باتیں ختم کردیں اور تمہارے آپس میں الفت پیدا کردی پھر کیا دوبارہ تم جاہلیت کی ایسی پکار مچا کر پہلے کی طرح کافر ہوجاؤ گے اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو اس وقت لوگوں کو احساس ہوا کہ یہ شیطانی اغوا اور دشمن کی دسیسہ کاری تھی فوراً ہاتھوں سے ہتھیار پھینک دیئے اور رونے لگے اور آپس میں گلے مل گئے پھر حضور اقدس کے ساتھ انتہائی فرمانبرداری اور اطاعت گذاری کے ساتھ لوٹ آئے اس پر مندرجہ ذیل آیت اوس اور جبار اور ان کے ساتھیوں کے متعلق نازل ہوئی۔
Top