Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 141
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ لِلزَّكٰوةِ : زکوۃ (کو) فٰعِلُوْنَ : ادا کرنے والے
جو زکوٰۃ ادا کرنے میں سرگرم ہیں
ایمان والوں کی تیسری نشانی کہ وہ زکوۃ کو باقاعدہ ادا کرتے ہیں : 4۔ نماز کے بعد اسلام کا دوسرا اہم رکن زکوۃ ہے ، نماز کا تعلق دراصل خالق و مخلوق کے باہمی سلسلہ اور رابطہ سے ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ نظام جماعت کا قیام ہے اور اسلامی عبادت کا دوسرا رکن زکوۃ ہے جو آپس میں انسانوں کے درمیان ہمدردی اور باہم ایک دوسرے کی امداد اور معاونت کا نام ہے جس کا ہم فائدہ نظام جماعت کے قیام کے لئے مالی سرمایہ بہم پہنچانا ہے ۔ جس طرح نماز میں فرض ونفل کی تقسیم رکھی گئی ہے اور فرض کو لازم وضروری قرار دیا گیا ہے اور نفل کو ہر انسان کی مرضی ورضا پر چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے اسی طرح سے زکوۃ ہی کی ایک صورت کو ” صدقہ “ کہا گیا ہے اور پھر زکوۃ لازم وضروری قرار دی گئی ہے اور ” صدقہ “ کو انسان کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کے لئے ترغیب دی گئی ہے ۔ زکوۃ بھی نماز کی طرح سارے آسمانی مذاہب میں تسلیم کی گئی ہے اور اس کو ضروری قرار دیا گیا ہے لیکن نبی اعظم وآخر ﷺ کی بعثت کے وقت سارے مذاہب میں سے تقریبا اس کا تصور مٹ چکا تھا اور وہ برائے نام ہی باقی رہ گئی تھی آپ ﷺ نے آکر نظام صلوۃ کی طرح نماز زکوۃ کو بھی واضح کیا اور بتدریج اس کو لازم ٹھہرا دیا جس طرح نماز ہر مذہب کا جزولاینفک تھی اسی طرح زکوۃ بھی تمام مذاہب آسمانی کا جزو رہی ہے ۔ ” زکوۃ “ ستھرائی ‘ پاکیزگی گویا زکوۃ ” تزکیۃ “ سے اسم ہے اور زکوۃ ذات اور معنی دونوں کے درمیان مشترک اسم ہے ، بس ذات تو نصاب کی وہ مقدار ہے جس کو زکوۃ دہندہ نکال کردیتا ہے اور معنی زکوۃ دہندہ کا فعل ہے جس نام تزکیہ ہے ۔ (کشاف ج 2 ص 61 طبع مصر) ” زکوۃ “ مال کی اس مقدار کا نام بھی ہے جو فقیروں و مساکین کا حق ہے اور ترکیب اس جگہ طہارت کو بتلا رہی ہے یعنی وہ لوگ جو تزکیہ نفس کا ایک حصہ ہے یا ایک جزو ہے اور زیر نظر آیت میں ” کل “ مراد ہے جس پر (فاعلون) کا لفظ دلالت کرتا ہے اور نفس کی پاکیزگی اور طہارت کی بدولت انسان اس حیثیت میں ہوتا ہے کہ دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق قرار پائے اور آخرت میں بھی اجروثواب کا اور اس کی صورت یہ ہے انسان اس چیز کی کوشش میں لگ جائے جس میں اس کی پاکیزگی ہے اور ظاہر ہے کہ تزکیہ کی نسبت کبھی تو بندہ کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے قرآن کریم میں (قد افلح من زکھا) ” مراد کو پہنچا جس نے تزکیہ حاصل کیا “ اور کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت ہوتی ہے جیسا کہ ارشاد الہی ہے (آیت) ” بل اللہ یزکی من یشآئ “ ” اللہ تعالیٰ ہی پاک کرتا ہے جس کو چاہتا ہے “ اور کبھی رسول کی طرف کہ وہی لوگوں کی طرف تزکیہ کے پہنچنے میں واسطہ ہے جیسے (آیت) ” تطھرھم وتزکیھم بھا “ ” کہ ان کو اس کے ذریعہ پاک کرے اور تربیت دے ۔ “ ” یاد رہے کہ جس طرح عام کا آغاز آپ ﷺ کی بعثت کے ساتھ ہی شروع ہوگیا اور مدینہ منورہ میں آکر وہ رفتہ رفتہ تکمیل کو پہنچی اسی طرح زکوۃ یعنی مطلق مالی خیرات کی ترغیب تزکیہ نفس کے حاصل کرنے کے لئے آپ ﷺ کی بعثت کے ساتھ ہی شروع ہوئی لیکن اس کا پورا نظام آہستہ آہستہ فتح مکہ کے بعد قائم ہوا مطلب یہ ہے کہ زکوۃ کا حکم عام جو خیرات و صدقہ کے لئے بولا جاتا ہے جس میں مقدار معین نہیں کی جاتی وہ تو شروع سے چلا آرہا تھا لیکن باقاعدہ مقدار معین اور ہر سال کے بعد اس کا ادا کرنا اور ساری اجناس میں الگ الگ حیثیت سے مقرر کرنا یعنی فصلوں کی پیداوار ‘ سونا چاندی اور جانوروں کی ساری اقسام سب اموال میں داخل ہے اور سب کی زکوۃ کی صورتیں بھی الگ الگ مقرر کی گئی ہیں یعنی ان چیزوں میں نصاب بھی الگ الگ ہے اس کی تشریح 8 ہجری کے بعد ہوئی اور اس کے مصارف کا ذکر بھی 8 ہجری کے بعد کی صورتوں میں کیا گیا جیسا کہ پیچھے سورة التوبہ میں اس کی وضاحت بیان کی جا چکی ہے ۔ انشاء اللہ العزیز کسی مناسب مقام پر اس پر مزید گفتگو ہوگی ۔
Top