Jawahir-ul-Quran - An-Najm : 10
فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىؕ
فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ : تو اس نے وحی کی اس کے بندے کی طرف مَآ اَوْحٰى : جو اس نے وحی کی۔ وحی پہنچائی
پھر حکم بھیجا اللہ نے اپنے بندہ پر6 جو بھیجا
6:۔ ” فاوحی “ اوحی کا فاعل جبریل (علیہ السلام) ہے۔ ” عبدہ “ کی ضمیر مجرور ذات باری تعالیٰ سے کنایہ ہے (فاوحی) جبریل (علیہ السلام) (الی عبدہ) الی عبداللہ (مدارک ج 4 ص 148) ۔ جبریل نے اللہ کے عظیم الشان اور جلیل القدر بندے کو وحی پہنچائی۔ وحی کا ابہام تفخیم وتعظیم کے لیے (روح، قرطبی) ۔ ” ماکذب الفؤاد۔ الایۃ “ آپ نے اپنی آنکھوں سے جس چیز کا مشاہدہ کی آپ کے دل نے اسے پہچان لیا کہ یہ جبریل امین ہے آپ کے دل نے یہ نہیں کہا کہ میں نے اس کو پہچانا نہیں۔ حاصل یہ ہے کہ آپ نے جبریل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں پورے یقین اور وثوق سے دیکھا ہے۔ اور اس بارے میں آپ کے دل میں کوئی شک و شبہ واقع نہیں ہوا۔ یعنی انہ راہ بعینہ وعرفہ بقلبہ ولم یشک فی ان ماراہ حق (مدارک) ۔ ” افتمارونہ۔ الایۃ “ اس میں خطاب مشرکین سے ہے جو کہتے تھے کہ یہ سب خواب و خیال ہے بیدار میں اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ ” تمارونہ “ مراء، سے ہے ای تجادلونہ (روح) ۔ یعنی جس چیز کا محمد ﷺ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرچکے ہیں کیا اس چیز کے بارے میں تم اس سے جھگڑتے اور بحث کرتے ہو ؟ کوئی مشکوک اور مشتبہ بات ہوتی تو بحث وجدال کی کوئی گنجائش بھی تھی لیکن یہ ایک مشاہدہ تھا جو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تھا۔
Top