Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے بنی اسرائیل میرے وہ احسانات یاد کرو جو میں نے تم پر کئے ہیں اور تم میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے اقرار کو پورا کروں گا اور صرف مجھ ہی سے ڈرو4
4۔ اے اولاد یعقوب ! تم میرے ان احسانات کو جو میں نے تم پر کئے ہیں یاد کرو اور تم میرے اس عہد کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا ہے تو میں بھی اس عہد کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا ہے اور تم مجھ ہی سے ڈرو۔ ( تیسیر) اسرائیل عبرانی زبان میں خدا کے بندے کو کہتے ہیں ۔ یہ حضرت یعقو ب (علیہ السلام) کا نام ہے ان کی اولاد کو خطاب فرمایا ہے اور اس عہد کے پورا کرنیکا مطالبہ کیا ہے جو انہوں نے کیا تھا۔ اس عہد کے متعلق مفسرین کے بہترین سے اقوال ہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ، بنی اسرائیل کہتے ہیں اولاد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو ان ہی میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور توریت اتری اور فرعون سے خلاص کر ا کر اور نجات دلوا کر ملک شام میں بسایا ۔ ان سے اللہ تعالیٰ نے اقرار کیا تھا کہ حکم توریت پر قائم رہو گے اور جو نبی میں بھیجوں گا اس کے مدد گار رہو گے تو ملک شام تم کو رہے گا ۔ پھر وہ گمرا ہوئے یعنی بدنیت ہوئے رشوت لیتے اور مسئلہ غلط بتاتے اور خوشامد کے واسطے حق بات چھپاتے اور اپنی ریاست چاہتے ۔ پیغمبر کی اطاعت نہ کرتے اور پیغمبر کی صفت جو توریت میں لکھی تھی بدل ڈالی ۔ اللہ تعالیٰ ان کو یاد دلاتا ہے اپن احسان اور انکی فرمانی ، موضح القرآن ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس عہد سے مراد یا تو وہی عام عہد ہے جس کو عہد الست کہتے ہیں یا ان عہود و میثاق کی طرف اشارہ ہے جو ان سے انبیاء کی معرفت وقتاً فوقتاً لتے گئے تھے جن کا ذکر قرآن کریم میں کئی جگہ آیا ہے۔ ولقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل اور لقد اخذاللہ میثاق الذین اوتوا الکتب وغیرہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر کوئی عہد کسی کو یاد نہ ہو تب بھی خالق اور مخلوق کے مابین اور محسن اور محسن الیہ کے درمیان قدرتی اور طبعی طور پر ایک عہد ہوتا ہے جب کسی کے احسانات اور انعامات سے آپ فائدہ اٹھائیں گے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ آپ اس کے فرمانبردار اور شکر گزار رہیں گے خواہ اس قسم کا کوئی عہد نامہ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے۔ ماں کے اور بچے کے درمیان کوئی عہد نامہ نہیں لکھا جاتا۔ لیکن ہر بچہ طبی طور پر جو ان ہو کر اس امر کو جانتا ہے کہ مجھے ماں کی اطاعت کرنی چاہئے اور فرمانبرداری میرے لئے ضروری ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے گونا گوں اور بیشمار احسانات سے ہم شب و روز متمتع اور بہر ہ مند ہوتے ہیں ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسکی ہر نعمت عہد نامہ کی ایک سط رہے۔ خواہ بندہ کوئی عہد نامہ لکھے یا نہ لکھے۔ اسی طرح ان انعامات الٰہی کا لا متناہی سلسلہ اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ فرمانبردار اور شکر گزار لوگوں سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ان کو ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کا بدلہ اور صلہ عطا فرماتا رہے گا ۔ یہاں تک کہ ان کو جنت میں پہنچا کر دائمی طور پر انہیں جنت کا مالک بنا دے۔ یہی وہ عہد و پیماں ہے جسکی طرف مذکورہ آیت میں اشارہ فرمایا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح قرآن میں وعد اللہ المومن والمومنات اور وعد اللہ الذین آمنوا منکم اور وعدا ً علیہ حقا ً جا بجا فرمایا ہے اسی طرح سابقہ کتب سماویہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بھی اس قسم کے الفاظ فرمائے ہوں اور انبیاء سابقین کی معرفت اس قسم کے عہد و پیمان بنی اسرائیل سے کہے ہو جیسا کہ حضرت شاہ صاحب (رح) نے فرمایا ہے اور قرآن بھی اس وعدے کی جانب اشارہ ہے۔ لا کفرن عنکم سیاتکم ولا دخلنکم جنت تجری من تحتھا الانھار بہر حال حق تعالیٰ نے اپنے احسانات کو یاد دلاتے ہوئے ان سے ایفائے عہد کا مطالبہ کیا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ میں نے جو عدہ تم سے کیا ہے میں بھی اس کو پورا کروں گا ۔ یعنی دنیا میں بہترین زندگی اور آخرت میں دائمی نجات اور آخر میں یہ جو فرمایا کہ مجھ سے ہی ڈرا کرو ۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ تم جو دنیوی لالچ اور دنیوی خوف کی وجہ سے میری عدول حکمی کر رہے ہو یہ طریقہ بہت ہی غلط ہے خوف اور ڈر کے لائق تو صرف میری ہی ذات ہے، لہٰذا صرف مجھ سے ہی ڈرو ۔ اور جن پیشین گوئیوں کا ذکر تمہاری کتابوں میں موجود ہے اس کے مطابق جو رسول آیا اور جو کتاب آئی ہے اس کو بلا کسی خوف اور بلا کسی چوں و چرا کے تسلیم کرو۔ ( تسہیل)
Top