Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 39
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠   ۧ
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا : اور جن لوگوں نے کفر کیا وَکَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِآيَاتِنَا : ہماری آیات أُوْلَٰئِکَ : وہی اَصْحَابُ النَّار : دوزخ والے هُمْ فِیْهَا : وہ اس میں خَالِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جو انکار کریں گے اور ہمارے احکام جھٹلائیں گے تو وہی لوگ اہل دوزخ ہوں گے وہ اس دوزخ ہمیشہ رہیں گے3
3۔ ہم نے کہا اور ان کو حکم دیا کہ تم سب کے سب یہاں سے نیچے اتر جائو ، پھر اگر تم کو میری ہدایت و رہنمائی پہنچے اور میرا نام پیغام ہدات تم کو موصول ہو تو تم میں جو شخص بھی میری بھیجی ہوئی ہدایت کی پیروی کرے گا تو وہ ہر قسم کے خوف اور غم سے بےنیاز ہوگا اور ایسے لوگوں پر نہ کسی قسم کا ڈر ہوگا اور نہ وہ کبھی غمگین ہوں گے مگر ہاں جو لوگ اس پیغام ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور میری نازل کردہ آیات اور براہین کو جھٹلائیں گے تو ایسے اہل جہنم اور دوزخی ہوں گے اور وہ اس دوزخ میں ہمیشہ پڑے ہیں گے۔ ( تیسیر) یہ حکم محض پہلے حکم کی تاکید ہے اور جن کو حکم دیا گیا ان میں بھی دو احتمال ہیں یا تو آدم (علیہ السلام) و حوا اور آئندہ ان کی ہونیوالی اولاد مراد ہے اور یا پھر آدم و حوا اور ابلیس اور مور اور سانپ مراد ہیں اور اسی طرح لفظ منھا میں بھی دو احتمال ہیں تو یہ مطلب ہے کہ جنت سے باہر نکل جائو اور یا یہ مطلب ہے کہ آسمان سے نیچے جائو۔ بہرحال زمین پر پہنچتے وقت نسل آدم اور بنی نوع انسان کو آئندہ کے لئے یہ پیغام بھی سنا دیا کہ تم زمین میں جا کر آج کی باتوں کو فراموش کردو گے۔ پھر میں تمہارے پاس اپنی ہدایت یعنی رسول اور اپنی کتابیں اور اپنے احکام بھیجوں گا ۔ پھر جو میرے فرستادہ احکام اور میرے بھیجے ہوئے رسولوں کی صحیح اتباع اور پیروی کریں گے تو وہ ہر قسم کے خوف اور غم سے محفوظ رہیں گے۔ لیکن جو بدنصیب دین حق کے منکر ہوں گے اور کفر کی روش اختیار کریں گے اور میرے دلائل اور میری نشانیوں اور میر ی نازل کردہ آیات کی تکذیب کریں گے تو یہ لوگ دوزخ کے مستحق ہوں گے اور یہ اس دوزخ میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔ خوف اس پریشانی کو کہتے ہیں جو آئندہ کسی آفت کے اندیشہ سے ہو اور حزن اس غم اور پریشانی کو کہتے ہیں جو کسی مصیبت کے واقع ہوجانے سے ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں پر نہ کوئی آفت و مصیبت واقع ہوگی اور نہ ان کو کسی آنے والی مصیبت کا خطرہ ہوگا ۔ البتہ دوسرا فریق طرح طرح کے آلام و مصائب اور سخت ترین عذاب میں گرفتار ہوگا ۔ اب آگے ان ہی احسانات کے سلسلے میں ان خاص خاص احسانات کا ذکر کرتے ہیں اور بنی اسرائیل کو خاص طور پر خطاب فرمانے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی ملک میں خاص اہمیت تھی ۔ وہ ابنیاء (علیہم السلام) کی اولاد تھے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے گھرانے میں نبوت و حکمت کا سلسلہ عرصہ تک قائم رہنے کی وجہ سے ان کی اولاد کا بہت اعتبار تھا۔ حتیٰ کہ تمام اہل عرب ان کی عزت کرتے تھے اور اپنی اکثر باتوں میں انہی کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اسی وجہ سے ان کو خطاب فرمایا اور اپنے ان احسانات کا اظہار فرمایا جو ہزاروں برس سے ان کے خاندان پر ہوتے چلے آئے تھے اور وہ تمام پیشین گوئیاں یاد دلائیں جو ان کی کتابوں میں نبی آخر الزماں کے متعلق مذکور تھیں تا کہ وہ اسلام کے قبول کرنے میں پیش قدمی کری اور عرب کے لوگ جو ہر بات میں بنی اسرائیل کے فیصلوں کا انتظار کیا کرتے تھے وہ بھی ان کے مسلمان ہونے سے اسلام قبول کریں ۔ چونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کے بیشمار واقعات ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ان پر بیشمار احسان ہیں ۔ اس لئے آخری سیپارے تک ان ہی کا مسلسل بیان ہے۔ ( تسہیل)
Top