Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 41
وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ١۪ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١٘ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ
وَاٰمِنُوْا : اور ایمان لاؤ بِمَا : اس پر جو اَنْزَلْتُ : میں نے نازل کیا مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا لِمَا : اس کی جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ اَوَّلَ کَافِرٍ : پہلے کافر بِهٖ : اس کے وَلَا تَشْتَرُوْا : اور عوض نہ لو بِآيَاتِیْ : میری آیات کے ثَمَنًا : قیمت قَلِیْلًا : تھوڑی وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَاتَّقُوْنِ : ڈرو
اور اس کتاب پر ایمان لائو جو میں نے نازل کی ہے اس کی حالت یہ ہے کہ وہ کتاب اس کتاب کی تصدیق کرنیوالی ہے جو تمہارے پاس ہے اور اس کتاب یعنی قرآن کے انکار میں تم پہل کرنیوالے مت بنو اور میرے احکام کے مقابلہ میں حقیر معاوضہ حاصل نہ کرو اور صرف میری ہی ناراضگی سے بچتے رہوف 5
5۔ اور تم اس چیز پر جو میں نے نازل کی ہے جس کی حالت یہ یہ کہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرنیوالی ہے جو تمہارے پاس ہے ۔ ایمان لے آئو اور تم میری نازل کردہ چیز کے انکار کرنے میں پہل کرنے والے نہ بنو ، اور میری آیات و احکام کو تھوڑی اور معمولی قیمت پر فروخت نہ کرتے پھرو ، اور پھر صرف میری خفگی اور ناراضگی سے بچتے رہو۔ ( تیسیر) کتب سابقہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ آخر زمانے میں جو رسول آئے گا وہ تمہاری کتاب کو سچا بتانے والا ہوگا۔ یہ ایک علامت تھی تا کہ بنی اسرائیل اس علامت کو دیکھ کر اس پر ایمان لے آئیں ۔ بما انزلت سے مراد یا تو پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں اور یا قرآن ہے ، ہم نے دونوں احتمال کی رعایت رکھی ہے اور چونکہ توریت میں یہ علامت مذکور تھی اس لئے قرآن میں جا بجا فرمایا ہے۔ ولما جاء ھم کتاب من عند اللہ مصدق لما معھم اور فرمایا ولما جاء ھم رسول من عند اللہ مصدق لما معھم گویا اس رسول کا اور قرآن کا نام ہی مصدق لما معھم رکھ دیا یعنی وہ رسول جو توریت و انجیل کی تصدیق کرتا ہے یا وہ کتاب جو توریت و انجیل کی تصدیق کرنیوالی ہے اور جو کتاب تمہارے پاس ہے اس کو سچا بتاتی ہے۔ جیسا کہ آل عمران میں ہے۔ وانزل التورتہ والانجیل من قبل ھدی للناس۔ بہر حال تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ پہلی کتابوں کو منزل من اللہ تسلیم کرتی ہے اگرچہ ان کے تمام احکام واجب التعمیل نہ ہوں اور خواہ ان میں کچھ تحریف و تبدیل ہوچکی ہو ، لیکن وہ کتابیں آسمان سے نازل شدہ ضرور ہیں ، لہٰذا جب اس رسول میں اور قرآن میں وہ نشانی موجود ہے ، جو تم کو بتائی گئی تھی پھر اس پر ایمان کیوں نہیں لاتے اور کفر میں پہل کیوں کرتے ہو ، جب تم ہی جانتے بوجھتے اور واقف و با خبر لوگ ایمان نہ لائو گے تو عوام بھی تمہاری دیکھا دیکھی ایمان لانے سیانکار کردیں گے اور ان کے کفر کا وبال بھی تم پر پڑے گا ۔ ان بنی اسرائیل کے علماء کی یہ حالت تھی کہ وہ محض لوگوں کے دبائو اور دنیوی لالچ اور اپنی عزت کے خیال سے احکام الٰہی کو بدل دیا کرتے تھے کہ ہماری ریاست اور وجاہت ختم ہو جائیگی اور یہی وہ حب جاہ اور حب مال ہے جس کے باعث وہ حسد اور کینہ جیسے مذموم امراض میں مبتلا تھے چناچہ فرمایا کہ میری آیات کے مقابلے میں معمولی معاوضہ حاصل نہ کرو اور میر ی گرفت سے بچتے رہو ۔ یعنی دنیا کا نفع خواہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو مگر وہ آخرت کے مقابلے میں بہر حال قلیل ہی ہے ۔ اوپر کی آیت میں فارھبون فرمایا اور یہاں فاتقون ارشاد ہوا رھب تو خوف کی ابتدائی حالت کو کہتے ہیں اور تقویٰ انتہائی اور کامل خوف کا نام ہے اس لئے دونوں میں فرق ہے یا اوپر کی آیت میں عدول حکمی سے ڈرانا تھا اور یہاں اپنے غصہ اور اپنے عذاب سے ڈرانا مقصود ہو ۔ واللہ اعلم۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ۔ توریت میں نشان بتایا تھا کہ جو کوئی نبی اٹھے اگر توریت کو سچا کہے تو جانوروہ سچا ہے تو جھوٹا ہے اور آیتوں پر تھوڑا موں یہ کہ دنیا کی محبت سے دین مت چھوڑو۔ ( موضح القرآن) فائدہ :۔ مصد قالما معھم کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ہم نے عرض کیا اور ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ پیغمبر یا وہ قرآن تمہاری کتاب کو سچا کرنے والا ہے۔ دونوں معنی میں فرق یہ ہے کہ پہلے معنی کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ رسول یا یہ قرآن تمہاری کتابوں کو سچا بتاتا ہے اور ان کو سچا کہتا ہے ۔ اور دوسرے معنی کا مطلب یہ ہے کہ جو تمہاری کتابوں میں توحید اور احکام اور رسول کی اطاعت وغیرہ مذکور ہے۔ وہی باتیں یہ رسول بھی کہتا ہے اور وہی ملتے جلتے دلائل و احکام اس قرآن میں بھی ہیں ، لہٰذا یہ رسول ﷺ اور قرآن تمہاری کتابوں کی سچائی اور صداقت کی تائید کرتا ہے۔ ( تسہیل)
Top