Kashf-ur-Rahman - An-Naml : 40
قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَ١ؕ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ١ۖ۫ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُ١ؕ وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ
قَالَ : کہا الَّذِيْ : اس نے جو عِنْدَهٗ : اس کے پاس عِلْمٌ : علم مِّنَ : سے۔ کا الْكِتٰبِ : کتاب اَنَا : میں اٰتِيْكَ بِهٖ : میں اس کو تمہارے پاس لے آؤں گا قَبْلَ : قبل اَنْ يَّرْتَدَّ : کہ پھر آئے اِلَيْكَ : تمہاری طرف طَرْفُكَ : تمہاری نگاہ (پلک جھپکے) فَلَمَّا رَاٰهُ : پس جب سلیمان نے اس دیکھا مُسْتَقِرًّا : رکھا ہوا عِنْدَهٗ : اپنے پاس قَالَ : اس نے کہا ھٰذَا : یہ مِنْ : سے فَضْلِ رَبِّيْ : میرے رب کا فضل لِيَبْلُوَنِيْٓ : تاکہ مجھے آزمائے ءَاَشْكُرُ : آیا میں شکر کرتا ہوں اَمْ اَكْفُرُ : یا ناشکری کرتا ہوں وَمَنْ : اور جس شَكَرَ : شکر کیا فَاِنَّمَا : تو پس وہ يَشْكُرُ : شکر کرتا ہے لِنَفْسِهٖ : اپنی ذات کے لیے وَمَنْ : اور جس كَفَرَ : ناشکری کی فَاِنَّ : تو بیشک رَبِّيْ : میرا رب غَنِيٌّ : بےنیاز كَرِيْمٌ : کرم کرنیوالا
ایک شخص نے جس کے پاس کتاب کا علم تھا عرض کیا کہ میں اس تخت کو آپ کی خدمت میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے یعنی جسم زدن میں حاضر کئے دیتا ہوں پھر جب سلیمان (علیہ السلام) نے اس تخت کو اپنے روبرو رکھا ہوا دیکھا تو کہا یہ بھی میرے پروردگار کا ایک فضل ہے تاکہ وہ مجھ کو آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں اور جو شخص شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے اور جو شخص ناسپاس کی روش اختیار کرتا ہے تو میرا رب بےپروا اور کرم کرنے والا ہے
(40) ایک شخص جس کے پاس کتاب الٰہی کا علم تھا کہا کہ میں اس تخت کو آپ کی خدمت میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے یعنی چشم زون میں حاضر کئے دیتا ہوں پھر جب سلیمان (علیہ السلام) نے اس تخت کو اپنے روبرو رکھا ہوا دیکھا تو کہا یہ بھی میرے پروردگار کا ایک فضل ہے تاکہ وہ مجھ کو آزمائے اور میں اس کا شکر بجا لاتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں اور جو شخص شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدہ کو اور بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو شخص ناسپاسی اور کفران نعمت کی روش اختیار کرتا ہے تو میرا پروردگار بےپروا اور کریم ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے تخت اپنے روبرو رکھا ہوا دیکھ کر فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آیا ہے خواہ اس کا آنا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی روحانیت کا معجزہ ہو یا آصف کی کرامت اور اسم اعظم کی برکت اس کا سبب ہو بہرحال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ آناً فاناً میں اتنا بڑا تخت صدہا میل کی مسافت طے کر کے آگیا پھر اس فضل الٰہی اور انعام خداوندی کا فلسفہ اور اس کی علت بتائی کہ یہ انعام اس لئے ہوا کہ جس طرح مصائب و آلام میں آزمائش و امتحان پوشیدہ ہوتا ہے اسی طرح فضل و احسان کے دامنوں میں بھی حضرت حق کی جانب سے ابتلاء اور آزمائش پنہاں ہوتی ہے پھر یہ بھی فرمایا کہ حضرت حق جل مجدہ کسی کے شکر اور اعتراف احسان کا محتاج نہیں اور نہ اس کو کسی کی ناسپاسی کی پروا ہے شکر بجا لانے والا اپنے ہی فائدے اور نفع کو شکر بجالاتا ہے اور شکر کی بجا آوری کا نفع ازدیا و نعمت کی شکل میں اسی کو ملتا ہے۔ لئن شکرتم لازیدنکم اگر کوئی اس کے فضل کا استقبال ناشکری اور کفران نعمت کے ساتھ کرتا ہے تو میرے پروردگار کا کچھ نقصان نہیں ہوتا وہ تو غنی ہے اور صفات عالیہ کا مالک ہے۔ شاہ صاحب (رح) نے کریم کا ترجمہ نیک ذات کیا ہے علم کتاب سے مراد یا تو اسم اعظم ہے یا توریت کا علم مراد ہے حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی یہ ظاہر کے اسباب سے نہیں آیا اللہ کا فضل ہے کہ میرے رفیق اس درجے کو پہونچے جن سے کرامت ہونے لگی نہ پھر اوے آنکھ یعنی کسی طرف دیکھنے سے پھر اپنی طرف دیکھے اور اس کے پاس ایک علم تھا کتاب کا یعنی اللہ کے اسماء اور کلام کی تاثیر کا وہ شخص آصف تھا ان کا وزیر 12 یعنی آصف نے اسم اعظم جو جو اس کو یاد تھا اس کو پڑھ کر دعا کی شاید اسم اعظم یا حی و یا قیوم ہوگا۔ عبرانی میں آہیاً شراہیاً کہا گیا ہے ہوسکتا ہے یا ذوالجلال والاکرام ہو اسم اعظم کی بحث فقیر نے اپنی کتاب مشکل کشا کی ابتداء میں کی ہے وہاں ملاحظہ کرلی جائے۔
Top